-
Not Synced
LESSON NO 52
-
Not Synced
خلائے نور میں وسائل و اسباب موجود نہ
-
Not Synced
ہونے کے باوجود اللہ نے جب " کن" فرمایا تو
-
Not Synced
" کن " کہتے ہی خلائے نور میں شکلیں اور
-
Not Synced
صورتیں وجود میں آگئیں۔
-
Not Synced
اس حقیقت سے یہ بات منکشف ہوئی کہ خلائے نور
-
Not Synced
اور خالق کا ارادہ ایک ہی حقیقت ہیں۔
-
Not Synced
اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر
-
Not Synced
کی بساط بھی ہے۔
-
Not Synced
قرآن پاک میں اس حقیقت کو "تدلی"
-
Not Synced
کا نام دیا گیا ہے۔
-
Not Synced
سورہ نجم میں
-
Not Synced
اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں۔
-
Not Synced
" ان کو تعلیم کرتا ہے جس
-
Not Synced
کی طاقت زبردست ہے۔
-
Not Synced
اصل صورت پر نمودار ہوا۔
-
Not Synced
جب وہ افق اعلی پر تھا، نزدیک آیا
-
Not Synced
اور پھر اور نزدیک آیا جھکا
-
Not Synced
دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم۔"
-
Not Synced
یہ وہ مشاہدہ، وہ کیفیات ہیں جو معراج کے
-
Not Synced
وقت حضور علیہ الصلوات والسلام پر
-
Not Synced
منکشف ہوئیں۔ ان آیات میں ان حقائق
-
Not Synced
اور اعلی مراتب کا تذکرہ ہمیں جو حقائق
-
Not Synced
اور اعلی مراتب حضور علیہ الصلوات والسلام
-
Not Synced
کو براہ راست اللہ تعالٰی سے حاصل ہوئے۔
-
Not Synced
" علم لدنی" کے تین حصے ہیں۔
-
Not Synced
ایک حصہ "اجمال "،
-
Not Synced
دوسرا حصہ "تفصیل "،
-
Not Synced
تیسرا حصہ "اسرار" جس حصے کو
-
Not Synced
"علم لدنی" کی اصطلاح میں " اسرار"
-
Not Synced
کہا جاتا ہے، اس حصے کی تعلیمات
-
Not Synced
براہ راست اللہ تعالٰی دیتے ہیں۔
-
Not Synced
"اسرار" وہ علوم ہیں یا تجلیات کے
-
Not Synced
نزول کا نام ہے جو علوم کے حقائق ہیں۔
-
Not Synced
انہی حقائق کو "علم القلم " کہا جاتا ہے۔
-
Not Synced
" علم القلم " علوم کا وہ باب ہے وہ
-
Not Synced
حصہ ہے جو لوح محفوظ سے پہلے ہے۔
-
Not Synced
لوح محفوظ انہی علوم کا عکس ہے۔
-
Not Synced
یہ علوم لوح محفوظ کے احکامات
-
Not Synced
پر اولیت رکھتے ہیں۔ "علم القلم " جاننے
-
Not Synced
والا کوئی بندہ جب احکامات صادر کرتا ہے
-
Not Synced
تو وہ تمام احکامات " لوح محفوظ "
-
Not Synced
پر نقش ہوجاتے ہیں۔
-
Not Synced
" لوح محفوظ " کے نقوش ہی دراصل
-
Not Synced
نزول کرکے کائنات بنتے ہیں۔ اور
-
Not Synced
کائنات کے خدوخال میں ظاہر ہوتے ہیں۔
-
Not Synced
ایسے بندے جو "علم القلم " جانتے ہیں
-
Not Synced
اللہ تعالٰی سے براہ راست تعمیل ہوتی ہے۔
-
Not Synced
یعنی اس بندے کو خود اللہ تعالٰی
-
Not Synced
علوم پڑھاتے ہیں۔ اور سکھاتے ہیں۔
-
Not Synced
اس بات کو سیدنا حضور علیہ الصلوات والسلام
-
Not Synced
نے اپنی دعاؤں میں بہت تفصیل
-
Not Synced
سے بیان فرمایا ہے۔
-
Not Synced
حضور علیہ الصلوات والسلام کی ایک دعا ہے:
-
Not Synced
یا اللہ! میں تجھے ان ناموں کا واسطہ
-
Not Synced
دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا یا
-
Not Synced
مجھ سے پہلوں پر ظاہر کیا یا اللہ اور
-
Not Synced
میں تجھے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں
-
Not Synced
جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لئے
-
Not Synced
محفوظ رکھا اور میں تجھے تیرے ان ناموں
-
Not Synced
کا واسطہ دیتا ہوں جو تو میرے
-
Not Synced
بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔"
-
Not Synced
یہ الفاظ غورطلب ہے کہ جو تو میرے بعد
-
Not Synced
کسی پر ظاہر کرے گا۔ یہ نام اللہ تعالٰی کی
-
Not Synced
صفات و کمالات ہیں، زمانہ نور یعنی اللہ
-
Not Synced
کے ذہن میں موجود ہیں۔ انہی صفات و کمالات
-
Not Synced
اللہ کے شعائر و عادات اور قوانین تجلیات
-
Not Synced
ہیں، اللہ تعالٰی کے اسماء قرار دیا گیا
-
Not Synced
ہے۔ یہ علم اللہ تعالٰی ذات کے بعد اور
-
Not Synced
" ابدا " سے پہلے ہے۔
-
Not Synced
اللہ تعالٰی کے اس مرتبے کی معرفت
-
Not Synced
بغیر اسباب و وسائل کے تخلیق و تکوین
-
Not Synced
کی صلاحتیں عطا کرتی ہے۔ کوئی صاحب،
-
Not Synced
علم القلم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یا کوئی
-
Not Synced
حکم صادر کرتا ہے تو خلائے نور کے قوانین
-
Not Synced
کے مطابق اس کے ذہن میں کسی قسم کے وسائل نہیں ہوتے۔ اللہ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات "خلائے نور" سے صادر ہوکر لوح محفوظ کی زینت بنتے ہیں۔ یا لوح محفوظ پر نقش و نگار بن کر ابھرتے ہیں۔یہی لوح محفوظ کے نقش و نگار لوح محفوظ سے نزول کرکے عالم خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مرشد کریم قلندر بابا نے "خلائے نور" کو ورائے بےرنگ کہا ہے۔ " خلائے نور " یا ورائے بےرنگ سے نفی یا عدم مراد نہیں ہے۔ بلکہ عدم نور ہے۔ یعنی وہ عالم نور جو قانون نورانیت کا مجموعہ ہے۔ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے۔ اور اسی جلوے سے نور کی تخلیق ہوتی ہے۔ " خلائے نور" اللہ کی ذات نہیں ہے۔ "خلائے نور " ورائے بےرنگ ہے۔ اور ذات باری تعالٰی وراء الوراء بےرنگ ہے۔مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس کسی قسم کے الفاظ کا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالٰی کی ہستی کو کسی بھی طریقے سے الفاظ میں محدود نہیں کرسکتے۔ اور اللہ تعالٰی کی ہستی کا بیان وہم ، تصور، الفاظ، ہر طرز فہم سے بالاتر ہے۔ انسان جب اللہ تعالٰی سے متعارف ہوتا ہے تو متعارف ہونے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کی صفات سے متعارف ہوتا ہے۔ دوسری طرز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کی ذات سے متعارف ہوتا ہے۔ جب کوئی انسان صفات سے متعارف ہوتا ہے وہ اللہ کو اللہ کی صفات میں دیکھتا ہے۔ اور اللہ کی صفات میں اللہ کو دیکھنا کسی نہ کسی خدوخال میں دیکھنا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی بندہ اللہ کو اللہ کی ذات میں دیکھتا ہے تو وہ دراصل محض اپنی فکر وجدانی سے اللہ کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔ فکر وجدانی سے قربت کو محسوس کرنے والا کوئی بندہ کبھی بھی اللہ کی ذات کو الفاظ یا کسی قسم کے خدوخال میں بیان نہیں کرسکتا۔ دراصل فکر وجدانی کا دیکھنا بھی اللہ کی ذات کو دیکھنا نہیں ہے فکر وجدانی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیے گی، جہاں انسان تجلی ذات کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ تجلی ذات کا مشاہدہ اور اللہ کی ذات کا دیکھنا الگ الگ باتیں ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ کوئی بندہ جب ذات کو دیکھتا ہے، ذات سے متعارف ہوتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالٰی کی تجلی سے متعارف ہوتا ہے۔ اور تجلی کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ اسی مقام میں اللہ تعالٰی سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بات غورطلب ہے کہ اللہ تعالٰی سے گفتگو براہ راست ذات باری تعالٰی سے نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ سے گفتگو بھی تجلی ذات کی معرفت ہوتی ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوات والسلام کا ارشاد ہے:
" میں نے اللہ کو جس طرح پہچانا ہے، دراصل اس پہچاننے میں حق پورا نہیں ہوا۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے:
" یا اللہ رفیق اعلی سے ملا دے۔"
مطلب یہ کہ حضور اس بات کو فرما رہے ہیں کہ کوئی بندہ، کوئی آنکھ، نہ اللہ سے گفتگو کرسکتی ہے، نہ کوئی بندہ براہ راست اللہ کو دیکھ سکتا ہے، بلکہ اللہ کو دیکھنا اللہ سے گفتگو کرنا، اللہ کی قربت کو محسوس کرنا تجلی ذات کی معرفت ہوتا ہے۔