1 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 LESSON NO 52 2 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 خلائے نور میں وسائل و اسباب موجود نہ 3 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 ہونے کے باوجود اللہ نے جب " کن" فرمایا تو 4 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " کن " کہتے ہی خلائے نور میں شکلیں اور 5 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 صورتیں وجود میں آگئیں۔ 6 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اس حقیقت سے یہ بات منکشف ہوئی کہ خلائے نور 7 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اور خالق کا ارادہ ایک ہی حقیقت ہیں۔ 8 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر 9 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کی بساط بھی ہے۔ 10 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 قرآن پاک میں اس حقیقت کو "تدلی" 11 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کا نام دیا گیا ہے۔ 12 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 سورہ نجم میں 13 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں۔ 14 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " ان کو تعلیم کرتا ہے جس 15 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کی طاقت زبردست ہے۔ 16 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اصل صورت پر نمودار ہوا۔ 17 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 جب وہ افق اعلی پر تھا، نزدیک آیا 18 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اور پھر اور نزدیک آیا جھکا 19 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم۔" 20 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 یہ وہ مشاہدہ، وہ کیفیات ہیں جو معراج کے 21 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 وقت حضور علیہ الصلوات والسلام پر 22 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 منکشف ہوئیں۔ ان آیات میں ان حقائق 23 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اور اعلی مراتب کا تذکرہ ہمیں جو حقائق 24 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اور اعلی مراتب حضور علیہ الصلوات والسلام 25 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کو براہ راست اللہ تعالٰی سے حاصل ہوئے۔ 26 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " علم لدنی" کے تین حصے ہیں۔ 27 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 ایک حصہ "اجمال "، 28 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 دوسرا حصہ "تفصیل "، 29 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 تیسرا حصہ "اسرار" جس حصے کو 30 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 "علم لدنی" کی اصطلاح میں " اسرار" 31 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کہا جاتا ہے، اس حصے کی تعلیمات 32 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 براہ راست اللہ تعالٰی دیتے ہیں۔ 33 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 "اسرار" وہ علوم ہیں یا تجلیات کے 34 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 نزول کا نام ہے جو علوم کے حقائق ہیں۔ 35 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 انہی حقائق کو "علم القلم " کہا جاتا ہے۔ 36 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " علم القلم " علوم کا وہ باب ہے وہ 37 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 حصہ ہے جو لوح محفوظ سے پہلے ہے۔ 38 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 لوح محفوظ انہی علوم کا عکس ہے۔ 39 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 یہ علوم لوح محفوظ کے احکامات 40 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 پر اولیت رکھتے ہیں۔ "علم القلم " جاننے 41 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 والا کوئی بندہ جب احکامات صادر کرتا ہے 42 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 تو وہ تمام احکامات " لوح محفوظ " 43 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 پر نقش ہوجاتے ہیں۔ 44 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " لوح محفوظ " کے نقوش ہی دراصل 45 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 نزول کرکے کائنات بنتے ہیں۔ اور 46 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کائنات کے خدوخال میں ظاہر ہوتے ہیں۔ 47 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 ایسے بندے جو "علم القلم " جانتے ہیں 48 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اللہ تعالٰی سے براہ راست تعمیل ہوتی ہے۔ 49 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 یعنی اس بندے کو خود اللہ تعالٰی 50 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 علوم پڑھاتے ہیں۔ اور سکھاتے ہیں۔ 51 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اس بات کو سیدنا حضور علیہ الصلوات والسلام 52 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 نے اپنی دعاؤں میں بہت تفصیل 53 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 سے بیان فرمایا ہے۔ 54 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 حضور علیہ الصلوات والسلام کی ایک دعا ہے: 55 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 یا اللہ! میں تجھے ان ناموں کا واسطہ 56 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا یا 57 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 مجھ سے پہلوں پر ظاہر کیا یا اللہ اور 58 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 میں تجھے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں 59 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لئے 60 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 محفوظ رکھا اور میں تجھے تیرے ان ناموں 61 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کا واسطہ دیتا ہوں جو تو میرے 62 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔" 63 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 یہ الفاظ غورطلب ہے کہ جو تو میرے بعد 64 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کسی پر ظاہر کرے گا۔ یہ نام اللہ تعالٰی کی 65 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 صفات و کمالات ہیں، زمانہ نور یعنی اللہ 66 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کے ذہن میں موجود ہیں۔ انہی صفات و کمالات 67 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اللہ کے شعائر و عادات اور قوانین تجلیات 68 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 ہیں، اللہ تعالٰی کے اسماء قرار دیا گیا 69 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 ہے۔ یہ علم اللہ تعالٰی ذات کے بعد اور 70 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 " ابدا " سے پہلے ہے۔ 71 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 اللہ تعالٰی کے اس مرتبے کی معرفت 72 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 بغیر اسباب و وسائل کے تخلیق و تکوین 73 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کی صلاحتیں عطا کرتی ہے۔ کوئی صاحب، 74 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 علم القلم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یا کوئی 75 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 حکم صادر کرتا ہے تو خلائے نور کے قوانین 76 99:59:59,999 --> 99:59:59,999 کے مطابق اس کے ذہن میں کسی قسم کے وسائل نہیں ہوتے۔ اللہ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات "خلائے نور" سے صادر ہوکر لوح محفوظ کی زینت بنتے ہیں۔ یا لوح محفوظ پر نقش و نگار بن کر ابھرتے ہیں۔یہی لوح محفوظ کے نقش و نگار لوح محفوظ سے نزول کرکے عالم خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مرشد کریم قلندر بابا نے "خلائے نور" کو ورائے بےرنگ کہا ہے۔ " خلائے نور " یا ورائے بےرنگ سے نفی یا عدم مراد نہیں ہے۔ بلکہ عدم نور ہے۔ یعنی وہ عالم نور جو قانون نورانیت کا مجموعہ ہے۔ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے۔ اور اسی جلوے سے نور کی تخلیق ہوتی ہے۔ " خلائے نور" اللہ کی ذات نہیں ہے۔ "خلائے نور " ورائے بےرنگ ہے۔ اور ذات باری تعالٰی وراء الوراء بےرنگ ہے۔مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس کسی قسم کے الفاظ کا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالٰی کی ہستی کو کسی بھی طریقے سے الفاظ میں محدود نہیں کرسکتے۔ اور اللہ تعالٰی کی ہستی کا بیان وہم ، تصور، الفاظ، ہر طرز فہم سے بالاتر ہے۔ انسان جب اللہ تعالٰی سے متعارف ہوتا ہے تو متعارف ہونے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کی صفات سے متعارف ہوتا ہے۔ دوسری طرز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کی ذات سے متعارف ہوتا ہے۔ جب کوئی انسان صفات سے متعارف ہوتا ہے وہ اللہ کو اللہ کی صفات میں دیکھتا ہے۔ اور اللہ کی صفات میں اللہ کو دیکھنا کسی نہ کسی خدوخال میں دیکھنا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی بندہ اللہ کو اللہ کی ذات میں دیکھتا ہے تو وہ دراصل محض اپنی فکر وجدانی سے اللہ کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔ فکر وجدانی سے قربت کو محسوس کرنے والا کوئی بندہ کبھی بھی اللہ کی ذات کو الفاظ یا کسی قسم کے خدوخال میں بیان نہیں کرسکتا۔ دراصل فکر وجدانی کا دیکھنا بھی اللہ کی ذات کو دیکھنا نہیں ہے فکر وجدانی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیے گی، جہاں انسان تجلی ذات کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ تجلی ذات کا مشاہدہ اور اللہ کی ذات کا دیکھنا الگ الگ باتیں ہیں۔ مفہوم یہ ہے کہ کوئی بندہ جب ذات کو دیکھتا ہے، ذات سے متعارف ہوتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالٰی کی تجلی سے متعارف ہوتا ہے۔ اور تجلی کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ اسی مقام میں اللہ تعالٰی سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ یہ بات غورطلب ہے کہ اللہ تعالٰی سے گفتگو براہ راست ذات باری تعالٰی سے نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ سے گفتگو بھی تجلی ذات کی معرفت ہوتی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوات والسلام کا ارشاد ہے: " میں نے اللہ کو جس طرح پہچانا ہے، دراصل اس پہچاننے میں حق پورا نہیں ہوا۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: " یا اللہ رفیق اعلی سے ملا دے۔" مطلب یہ کہ حضور اس بات کو فرما رہے ہیں کہ کوئی بندہ، کوئی آنکھ، نہ اللہ سے گفتگو کرسکتی ہے، نہ کوئی بندہ براہ راست اللہ کو دیکھ سکتا ہے، بلکہ اللہ کو دیکھنا اللہ سے گفتگو کرنا، اللہ کی قربت کو محسوس کرنا تجلی ذات کی معرفت ہوتا ہے۔