ڈیوڈ ملی بینڈ کی ٹیڈ 2017 میں گفتگو
-
0:01 - 0:04میں آپ سے مہاجرین کے عالمی بحران
کے بارے میں بات کروں گا -
0:04 - 0:08اور میرا مقصد آپ کو دکھانا ہے کہ یہ بحران
-
0:08 - 0:11قابلِ انتظام ہے، نا قابلِ حل نہیں،
-
0:12 - 0:17لیکن ساتھ میں آپ کو یہ بھی دکھانا کہ یہ
ہمارے بارے میں بھی ہے اور یہ کہ ہم کون ہیں -
0:17 - 0:21جیسا یہ اگلے محاذ پر موجود
مہاجرین کا امتحان ہے۔ -
0:21 - 0:24میرے لیے یہ صرف ایک پیشہ ورانہ
ذمہ داری نہیں ہے، -
0:24 - 0:29کیونکہ میں دنیا بھر کے مہاجرین اور بے گھر
افراد کے لیے ایک این جی او چلاتا ہوں۔ -
0:29 - 0:30یہ ذاتی مسئلہ ہے۔
-
0:31 - 0:33مجھے یہ تصویر بہت پسند ہے۔
-
0:34 - 0:36دائیں طرف والا خوبصورت آدمی،
-
0:36 - 0:37میں نہیں ہوں۔
-
0:38 - 0:41یہ میرے والد رالف ہیں، لندن میں، 1940 میں
-
0:41 - 0:43اپنے والد سیموئیل کے ساتھ ۔
-
0:44 - 0:46وہ بیلجیم سے آئے ہوئے یہودی مہاجرین ہیں۔
-
0:46 - 0:50وہ نازیوں کے حملے کے دن ہی
فرار ہو گئے تھے۔ -
0:50 - 0:52اور مجھے یہ تصویر بھی بہت پسند ہے۔
-
0:53 - 0:55یہ مہاجرین کے بچوں کا ایک گروہ ہے
-
0:55 - 0:58جو پولینڈ سے 1946 میں انگلینڈ پہنچے تھے۔
-
0:59 - 1:02اور ان کے درمیان میں میری والدہ میرین ہیں۔
-
1:03 - 1:06انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی
-
1:06 - 1:07ایک نئے ملک میں
-
1:07 - 1:08اپنے بل بوتے پر
-
1:08 - 1:1012 سال کی عمر میں۔
-
1:11 - 1:13مجھے یہ پتہ ہے:
-
1:13 - 1:16اگر برطانیہ مہاجرین کو داخل نہ ہونے دیتا
-
1:16 - 1:171940 کی دہائی میں،
-
1:18 - 1:21میں یقیناً آج یہاں نہ ہوتا۔
-
1:22 - 1:26لیکن 70 سال بعد،
وقت ایک بار پھر اسی جگہ آ کھڑا ہوا ہے۔ -
1:27 - 1:30دیواروں کے بننے کی باتیں،
-
1:30 - 1:32معاندانہ سیاسی بیان بازی،
-
1:32 - 1:36جلتی ہوئی انسانی اقدار اور اصول
-
1:37 - 1:41انہی ممالک میں جنہوں نے 70 سال پہلے
کہا تھا اب کبھی نہیں -
1:41 - 1:45بے وطن اور نا امید جنگ کے متاثرین سے۔
-
1:47 - 1:49پچھلے سال، ہر ایک منٹ میں،
-
1:50 - 1:5424 لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے
-
1:54 - 1:56تنازعے، تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے:
-
1:57 - 2:00شام میں ایک اور کیمیائی حملے کی وجہ سے،
-
2:00 - 2:03افغانستان میں طالبان کی یلغار سے،
-
2:03 - 2:09شمال مشرقی نائیجیریا میں لڑکیاں اسکولوں سے
بے دخل ہوئیں بوکو حرام کی وجہ سے۔ -
2:10 - 2:13یہ وہ لوگ نہیں جو کسی دوسرے ملک جا رہے ہیں
-
2:13 - 2:15بہتر زندگی کی تلاش میں۔
-
2:15 - 2:17وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
-
2:19 - 2:20یہ ایک اصل سانحہ ہے
-
2:22 - 2:27کہ دنیا کا سب سے مشہور مہاجر بذاتِ خود
آپ سے بات کرنے یہاں نہیں آ سکتا۔ -
2:27 - 2:29آپ میں سے بہت سے اس تصویر کو جانتے ہیں۔
-
2:30 - 2:32یہ ایک بے جان لڑکے کا جسم دکھا رہا ہے
-
2:32 - 2:35پانچ سالہ ایلان کردی کا،
-
2:35 - 2:39ایک شامی مہاجر جو 2015 میں
بحیرہ روم میں جاں بحق ہوا۔ -
2:39 - 2:43یہ ان 3700 لوگوں کا حصہ ہے جو
یورپ آنے کی کوشش میں مارے گئے۔ -
2:44 - 2:46اگلے سال 2016 میں،
-
2:47 - 2:495000 لوگ مارے گئے۔
-
2:50 - 2:52اب ان کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے،
-
2:53 - 2:56لیکن لاکھوں دوسرے لوگوں کے لیے
ابھی دیر نہیں ہوئی۔ -
2:56 - 2:58ابھی فریڈریک جسیے لوگوں کے لیے
دیر نہیں ہوئی۔ -
2:59 - 3:02میری اس سے تنزانیہ میں ناریگوس کی
مہاجر خیمہ بستی میں ملاقات ہوئی۔ -
3:02 - 3:03اس کا تعلق برونڈی سے ہے۔
-
3:04 - 3:06وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کہاں
اپنی تعلیم مکمل کر سکتا ہے۔ -
3:06 - 3:09اس نے گیارہ سال کی پڑھائی مکمل کر لی ہے۔
وہ بارہواں سال چاہتا ہے۔ -
3:09 - 3:14اس نے مجھے کہا، "میری دعا ہے کہ
میری زندگی یہیں ختم نہ ہو -
3:14 - 3:15اسی مہاجر کیمپ میں۔"
-
3:16 - 3:18اور ابھی حلود کے لیے بھی دیر نہیں ہوئی۔
-
3:19 - 3:22اس کے والدین فلیسطینی مہاجرین تھے
-
3:22 - 3:25جو یرموک کی مہاجر خیمہ بستی میں رہتے تھے
دمشق کے باہر۔ -
3:25 - 3:27وہ مہاجر والدین کے ہاں پیدا ہوئی،
-
3:27 - 3:30اور اب وہ خود ایک مہاجر ہے لبنان میں۔
-
3:31 - 3:34اب وہ بین الاقوامی بچاو کمیٹی کے لیے
کام کرتی ہے دوسرے مہاجرین کی مدد کے لیے، -
3:35 - 3:38لیکن اس کے لیے کچھ بھی یقینی نہیں
-
3:38 - 3:40اس کے مستقبل کے بارے میں،
-
3:40 - 3:42وہ کہاں ہے اور اس میں کیا ہو گا۔
-
3:42 - 3:46یہ گفتگو فریڈرک کے بارے میں ہے،
حلود کے بارے میں ہے -
3:46 - 3:48اور ان جیسے لاکھوں کے بارے میں ہے:
-
3:48 - 3:50وہ بے گھر کیوں ہیں،
-
3:50 - 3:55وہ کیسے زندہ رہتے ہیں، ان کو کیا مدد چاہیے
اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ -
3:56 - 3:57مجھے اس پر پختہ یقین ہے،
-
3:58 - 4:01کہ اکیسیویں صدی کا سب سے بڑا سوال
-
4:02 - 4:05اجنبیوں کے بارے میں ہمارے فرائض ہے۔
-
4:05 - 4:09مستقبل کے "آپ" آپ کی ذمہ داریوں
کے بارے میں ہے -
4:09 - 4:10اجنبیوں کے معاملے میں۔
-
4:10 - 4:12کسی سے بہتر آپ کو پتہ ہے،
-
4:12 - 4:16دنیا پہلے سے زیادہ جڑی ہوئی ہے،
-
4:17 - 4:18لیکن زیادہ خطرے کی بات یہ ہے
-
4:18 - 4:21کہ ہمیں آپس کی تقسیم سے فرصت نہیں۔
-
4:22 - 4:24اور ہمارے لیے اس سے بہتر کوئی امتحان نہیں
-
4:24 - 4:26کہ ہم مہاجرین سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔
-
4:27 - 4:30حقائق کچھ یوں ہیں: ساڑھے چھ کروڑ افراد
-
4:30 - 4:33پچھلے سال بے گھر ہوئے
تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے۔ -
4:33 - 4:35اگر یہ کوئی ملک ہوتا،
-
4:35 - 4:38تو یہ دنیا کا 21واں بڑا ملک ہوتا۔
-
4:39 - 4:44ان میں سے زیادہ تر افراد، تقریباً چار کروڑ
اپنے ملک میں بے گھر ہیں، -
4:44 - 4:45لیکن تقریباً ڈھائی کروڑ مہاجرین ہیں۔
-
4:45 - 4:48اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی ہمسایہ ملک
کی سرحد پار کرتے ہیں۔ -
4:49 - 4:53ان میں سے اکثر، غریب ممالک میں رہ رہے ہیں،
-
4:53 - 4:56نسبتاً غریب یا کم - درمیانی - آمدنی
والے ممالک، جیسے لبنان، -
4:56 - 4:57جہاں حلود رہتی ہے۔
-
4:59 - 5:03لبنان میں، چار میں سے ایک شخص مہاجر ہے،
-
5:04 - 5:07یعنی تمام آبادی کا چوتھائی حصہ ۔
-
5:07 - 5:09اور مہاجرین لمبے عرصے تک رہتے ہیں۔
-
5:09 - 5:11بے گھری کا اوسط دورانیہ
-
5:11 - 5:1210سال ہے۔
-
5:13 - 5:18میں مشرقی کینیا میں دنیا کے سب سے بڑے
مہاجر کیمپ میں گیا۔ -
5:18 - 5:19اس کا نام داداب ہے۔
-
5:19 - 5:21یہ 92-1991 میں بنایا گیا
-
5:21 - 5:25ایک "عارضی خیمہ بستی" کے طور پر
خانہ جنگی سے بھاگتے صومالی لوگوں کے لیے۔ -
5:26 - 5:27میں سائلو سے ملا۔
-
5:28 - 5:31میں نے نا سمجھی سے سائلو کو کہا،
-
5:31 - 5:33"تمہارا کیا خیال ہے تم کبھی
اپنے گھر صومالیہ جاو گی؟" -
5:34 - 5:36اور اس نے کہا، "کیا مطلب، گھر جاو گی؟
-
5:36 - 5:38میں یہں پیدا ہوئی تھی۔"
-
5:39 - 5:41اور پھر جب میں نے خیمہ بستی
کی انتظامیہ سے پوچھا -
5:41 - 5:45یہاں موجود 330,000 لوگوں میں سے
کتنے اسی خیمہ بستی میں پیدا ہوئے، -
5:45 - 5:46انہوں نے جواب دیا:
-
5:47 - 5:49۔ 100,000
-
5:50 - 5:52یہ ہے طویل مدتی بے گھری کا مطلب۔
-
5:53 - 5:56اچھا، اب اس کی وجوہات گہری ہیں:
-
5:56 - 5:58کمزور ریاستیں جو اپنے لوگوں کی
مدد نہیں کر سکتیں، -
5:59 - 6:01ایسا بین الاقوامی سیاسی نظام
-
6:01 - 6:04جو 1945 کے بعد سے کمزور تر ہے
-
6:04 - 6:08اورالہیات، حکمرانی پر اختلافات،
بیرونی دنیا سے معاملات -
6:08 - 6:11مسلم دنیا کے نمایاں حصوں میں رہے ہیں۔
-
6:13 - 6:16اچھا اب یہ طویل مدتی،
نسلوں چلنے والے مسائل ہیں۔ -
6:16 - 6:20اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مہاجرین کا بحران
ایک رجحان ہے اور کوئی وقتی ابال نہیں۔ -
6:20 - 6:25اور یہ پیچیدہ ہے، اور جب آپ کے پاس بڑے،
لمبے، طویل مدتی، گھمبیر مسائل ہوں، -
6:25 - 6:27لوگ سوچتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
-
6:28 - 6:30جب پوپ فرانسس لیمپیاڈوزا گئے،
-
6:31 - 6:33اٹلی کے ساحل پر، 2014 میں،
-
6:33 - 6:36تو انہوں نے ہم سب اور عالمی آبادی کو
موردِ الزام ٹھرایا -
6:36 - 6:40جسے انہوں نے کہا "بے حسی کی عالمگیریت"۔
-
6:40 - 6:42یہ ایک مضطرب کرنے والا جملہ ہے۔
-
6:42 - 6:45اس کا مطلب ہے کہ ہمارے دل
پتھر کے ہو گئے ہیں۔ -
6:47 - 6:48اب، میں نہیں جانتا، آپ مجھے بتائیں۔
-
6:48 - 6:52کیا آپ کو پوپ سے بحث کی اجازت ہے،
چاہے ٹیڈ کانفرنس ہو؟ -
6:53 - 6:54لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ٹھیک نہیں۔
-
6:54 - 6:56میرا خیال ہے لوگ واقعی
تبدیلی لانا چاہتے ہیں، -
6:56 - 7:00لیکن انہیں بس معلوم نہیں کہ کیا اس بحران
کے کوئی حل ہیں۔ -
7:00 - 7:02اور میں آج آپ کو جو بتانا چاہتا ہوں
-
7:02 - 7:05کہ اگرچہ مسائل واقعی حقیقی ہیں،
ان کے حل بھی حقیقی ہیں۔ -
7:06 - 7:07حل نمبر ایک:
-
7:07 - 7:11ان مہاجرین کو جن ممالک میں یہ رہتے ہیں
انہیں وہاں کام کرنا چاہیے، -
7:11 - 7:14اور جن ممالک میں یہ رہتے ہیں انہیں
بڑے پیمانے پر معاشی امداد کی ضرورت ہے۔ -
7:14 - 7:16یوگینڈا میں 2014 میں
انہوں نے ایک تحقیق کی: -
7:17 - 7:20دارالکحومت کمپالا میں موجود
80 فیصد مہاجرین کو -
7:20 - 7:22انسان دوست امداد کی ضرورت نہیں تھی
کیونکہ وہ کام کرتے تھے۔ -
7:22 - 7:24انہیں کام حاصل کرنے میں مدد دی گئی تھی۔
-
7:24 - 7:26حل نمبر 2:
-
7:26 - 7:30بچوں کی تعلیم ایک لازمی ضرورت ہے،
کوئی آسائش نہیں، -
7:30 - 7:32جب آپ طویل مدت سے بے گھر ہوں۔
-
7:33 - 7:38بچے دوبارہ زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں جب
انہیں باقاعدہ سماجی اور جذباتی سہارا ملے -
7:38 - 7:39ریاضی اور خواندگی کے ساتھ ۔
-
7:39 - 7:41میں نے یہ خود دیکھا ہے۔
-
7:43 - 7:46لیکن دنیا کے آدھے مہاجرین بچے جو
ابتدائی سکول کی عمر کے ہوتے ہیں -
7:46 - 7:48بالکل کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے،
-
7:48 - 7:51اور تین چوتھائی ثانوی سکول کی عمر کے
کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ -
7:51 - 7:53یہ پاگل پن ہے۔
-
7:54 - 7:56حل نمبر 3:
-
7:56 - 8:00زیادہ تر مہاجرین شہری علاقوں میں ہیں،
شہروں میں، خیمہ بستیوں میں نہیں۔ -
8:00 - 8:02اگر میں اور آپ کسی شہر میں مہاجر ہوتے
توہم کیا چاہتے؟ -
8:02 - 8:05ہمیں پیسے چاہیے ہوتے، کرایہ دینے کے لیے
اور کپڑے خریدنے کے لیے۔ -
8:07 - 8:09یہ انسانی ہمدردی کے نظام کا مستقبل ہے،
-
8:09 - 8:10یا اس کا ایک نمایاں حصہ:
-
8:10 - 8:13لوگوں کو نقدی دیں تاکہ
مہاجرین کی طاقت میں اضافہ ہو -
8:13 - 8:15اور مقامی معیشت کو فائدہ ہو۔
-
8:15 - 8:17اور ایک اور چوتھا حل بھی ہے،
-
8:17 - 8:20یہ متنازعہ ہے
لیکن اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔ -
8:20 - 8:23سب سے غیر محفوظ مہاجرین کو ایک
نیا آغاز دینے کی ضرورت ہے -
8:23 - 8:25اور ایک نئی زندگی ایک نئے ملک میں،
-
8:26 - 8:27جس میں مغرب شامل ہے۔
-
8:28 - 8:32ان کی تعداد نسبتاً کم ہے،
چند لاکھ، کروڑوں نہیں، -
8:32 - 8:35لیکں یہ علامتی طور ہر بہت اہم ہے۔
-
8:36 - 8:39اب وہ وقت نہیں کہ مہاجرین پر
پابندیاں لگائی جائیں، -
8:39 - 8:40جیسا ٹرمپ کی انتظامیہ نے تجویز کیا ہے۔
-
8:40 - 8:44یہ وقت ہے لوگوں کو گلے لگانے کا جو
دہشت کا شکار ہیں۔ -
8:44 - 8:45اور یاد رکھیے --
-
8:45 - 8:48(تالیاں)
-
8:52 - 8:56یاد رکھیے، جو بھی آپ سے پوچھتا ہے،
"کیا ان کی اچھی طرح سے جانچ ہوئی ہے؟" -
8:56 - 8:59یہ یقیناً پوچھنے کے لیے ایک اچھا اور
مناسب سوال ہے۔ -
9:00 - 9:04سچ تو یہ ہے کہ نو آبادکاری کے لیے
آنے والے مہاجرین کی -
9:04 - 9:08ہمارے ممالک میں آنے والے کسی بھی دوسرے
گروہ کی نسبت زیادہ اچھی جانچ کی جاتی ہے۔ -
9:08 - 9:10تو اگرچہ یہ پوچھنے کے لیے ایک
مناسب سوال ہے، -
9:10 - 9:14لیکن یہ مناسب نہیں کہ کہا جائے کہ
مہاجرین کا مطلب ہے دہشت گرد۔ -
9:15 - 9:16اب، ہوتا کیا ہے --
-
9:16 - 9:20(تالیاں)
-
9:20 - 9:23کیا ہوتا ہے جب مہاجرین کو کام نہیں ملتا،
-
9:23 - 9:25وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے،
-
9:25 - 9:28انہیں نقدی نہیں مل سکتی، انہیں باعزت زندگی
کا قانونی راستہ نہیں ملتا؟ -
9:28 - 9:30پھر ہوتا کیا ہے وہ پرخطر راستے چنتے ہیں۔
-
9:30 - 9:35میں دو سال پہلے لیسبوس گیا،
انتہائی خوبصورت یونانی جزیرہ۔ -
9:35 - 9:37یہ 90,000 لوگوں کا گھر ہے۔
-
9:37 - 9:41ایک سال میں یہاں سے کوئی
پانچ لاکھ مہاجرین گزرے۔ -
9:41 - 9:43اور میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں
جو میں نے دیکھا -
9:43 - 9:46جب میں جزیرے کے شمالی حصے کی طرف گیا:
-
9:46 - 9:50ان لوگوں کی جیکٹوں کا ایک انبار جو
کنارے تک پہنچ پائے۔ -
9:51 - 9:52اور جب میں نے غور سے دیکھا،
-
9:52 - 9:55وہاں بچوں کی چھوٹی جیکٹیں بھی تھیں،
-
9:55 - 9:56پیلے رنگ کی۔
-
9:56 - 9:58اور میں نے یہ تصویر اتاری۔
-
9:58 - 10:02شاید آپ اس کی لکھائی ٹھیک سے نہ دیکھ سکیں
لیکن میں اسے پڑھ دیتا ہوں۔ -
10:02 - 10:05"تنبیہ: یہ ڈوبنے سے نہیں بچاتی۔"
-
10:06 - 10:07تو اکیسیویں صدی میں،
-
10:08 - 10:11بچوں کو ایسی
زندگی بچاو جیکٹیں دی جا رہی ہیں -
10:11 - 10:13یورپ میں عافیت میں پہنچنے کے لیے
-
10:13 - 10:16ایسی جیکٹین جو ان کی زندگی نہیں بچائیں گی
-
10:16 - 10:19اگر وہ کشتی سے گر گئے
جس پر وہ سورا ہیں۔ -
10:21 - 10:24یہ محض کوئی بحران نہیں ہے،
یہ ایک امتحان ہے۔ -
10:26 - 10:29یہ تہذیبوں کا امتحان ہے جس کا وہ
ہمیشہ سے سامنا کرتی آ رہی ہیں۔ -
10:30 - 10:31یہ ہماری انسانیت کا امتحان ہے۔
-
10:32 - 10:34یہ مغربی دنیا میں موجود
ہم لوگوں کا امتحان ہے -
10:34 - 10:37کہ ہم کیا ہیں اور ہماری اقدار کیا ہیں۔
-
10:39 - 10:42یہ ہمارے کردار کا امتحان ہے،
صرف ہماری پالیسیوں کا نہیں۔ -
10:43 - 10:45اور مہاجرین کا معاملہ کافی مشکل ہے۔
-
10:45 - 10:47وہ دنیا کے دور دراز حصوں سے آتے ہیں۔
-
10:48 - 10:50وہ صدمات سے گزر چکے ہوتے ہیں۔
-
10:50 - 10:52وہ اکثر کسی اور مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں۔
-
10:52 - 10:55یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں
ان کی مدد کرنی چاہیے، -
10:55 - 10:57نہ کہ ان کی مدد نہ کریں۔
-
10:57 - 11:01ایک اور وجہ ہے کہ ہم ان کی مدد کریں کہ
یہ ہمارے بارے میں کیا بتاتا ہے۔ -
11:02 - 11:04یہ ہماری روایات کو ظاہر کرتا ہے۔
-
11:05 - 11:10بے غرضی اور ہم دلی
تہذیب کی دو بنیادیں ہیں۔ -
11:11 - 11:14بے غرضی اور ہم دلی کو عمل میں تبدیل کریں
-
11:14 - 11:17اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے
ہمارا بنیادی اخلاقی عقیدہ ملتا ہے۔ -
11:17 - 11:19اور اس جدید دنیا میں
ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ -
11:19 - 11:23ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں ہے کہ
جوبا، جنوبی سوڈان میں کیا ہو رہا ہے، -
11:23 - 11:25یا الیپو، شام میں۔
-
11:25 - 11:28یہ یہاں ہے، ہمارے سمارٹ فون میں
-
11:28 - 11:29ہمارے ہاتھ میں۔
-
11:29 - 11:32بے خبری بالکل کوئی عذر نہیں ہے۔
-
11:32 - 11:36مدد کرنے میں ناکامی یہ دکھاتا ہے کہ ہمیں
ٹھیک اور غلط کی ذرا بھی تمیز نہیں۔ -
11:37 - 11:40یہ، یہ بھی دکھاتا ہے کہ کیا ہم اپنی
تاریخ کو جانتے ہیں۔ -
11:41 - 11:43وجوہات کہ دنیا بھر میں
مہاجرین کو حقوق حاصل ہیں -
11:43 - 11:46وہ ہے غیر معمولی مغربی قیادت
-
11:46 - 11:49مرد و خواتین سیاستدانوں کی جانب سے
دوسری جنگ عظیم کے بعد -
11:49 - 11:51جس کا نتیجہ عالمی انسانی حقوق ہیں۔
-
11:52 - 11:55اگر ہم مہاجرین کے حقوق کو ردی سمجھیں تو
ہم اپنی تارخ کو ردی سمجھ رہے ہیں۔ -
11:56 - 11:58یہ ہے --
-
11:58 - 11:59(تالیاں)
-
11:59 - 12:03یہ ہماری جمہوریت کی طاقت کو بھی دکھاتا ہے
-
12:03 - 12:06آمریت سے پناہ گاہ کے طور پر۔
-
12:06 - 12:08آپ نے کتنے سیاستدانوں کو یہ کہتے سنا ہے،
-
12:09 - 12:13"ہم اپنی مثال کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں،
اور اپنی طاقت کی مثال میں نہیں۔" -
12:14 - 12:17ان کا مطلب ہوتا ہے کہ گرائے جانے والے بموں
کی نسبت ہمارے نظریات زیادہ اہم ہیں۔ -
12:18 - 12:20پناہ گاہ ڈھونڈتے مہاجرین
-
12:21 - 12:25مغرب کو دیکھتے ہیں ایک امید کے سرچشمے
اور ایک دارالامان کی حثیت سے۔ -
12:27 - 12:29روسی، ایرانی،
-
12:29 - 12:32چینی، اریٹیرین، کیوبن،
-
12:32 - 12:34وہ مغرب تحفّظ کے لیے آتے ہیں۔
-
12:35 - 12:38اور ہم انہیں حالات کے رحم و کرم پر
چھوڑ دیتے ہیں۔ -
12:38 - 12:40اور یہ ہمارے بارے میں ایک اور چیز
ظاہر کرتی ہے: -
12:40 - 12:43کہ کیا ہمارے میں اتنی عاجزی ہے کہ
ہم اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ -
12:43 - 12:45میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں
-
12:45 - 12:49جو یہ مانتے ہیں کہ دنیا کی ساری خرابیوں
کی وجہ مغرب ہے۔ -
12:49 - 12:50وہ نہیں ہے۔
-
12:50 - 12:52لیکن جب ہم غلطی کریں تو
اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ -
12:53 - 12:55یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ
وہ ملک جس نے پناہ دی -
12:55 - 12:58سب سے زیادہ مہاجرین کو،
امریکہ سے بھی زیادہ، -
12:58 - 13:01اس نے ویت نام سے کسی بھی ملک کی نسبت
زیادہ مہاجرین کو جگہ دی۔ -
13:02 - 13:03یہ تاریخ بتاتی ہے۔
-
13:04 - 13:07لیکن حالیہ تاریخ بھی ہے،
عراق میں اور افغانستان میں۔ -
13:08 - 13:11آپ خارجہ پالیسی کی غلطییوں کا
مداوا نہیں کر سکتے -
13:11 - 13:13انسانی ہمدردی کے کاموں سے،
-
13:13 - 13:17لیکن اگر آپ کچھ توڑیں تو آپ کی ذمہ داری
ہے کہ آپ اسے جوڑنے کی کوشش کریں، -
13:17 - 13:19اور اب یہ ہمارا فرض ہے۔
-
13:21 - 13:24کیا آپ کو یاد ہے کہ گفتگو کے آغاز میں،
-
13:24 - 13:26میں نے کہا تھا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ
مہاجرین کا بحران -
13:26 - 13:28قابلِ انتظام ہے، ناقابلِ حل نہیں؟
-
13:29 - 13:32یہ درست ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ
ایک نئے انداز سے سوچیں، -
13:32 - 13:34لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ
آپ کچھ قدم اٹھائیں۔ -
13:36 - 13:38اگر آپ کاروبار کے مالک ہیں،
-
13:38 - 13:39تو مہاجرین کو نوکری دیں۔
-
13:40 - 13:43اگر آپ کو دلائل سے دلچسپی ہے تو،
-
13:43 - 13:45تو دقیانوسی خیالات کا مقابلہ کریں
-
13:45 - 13:47جب خاندان کے افراد یا دوست یا
کام پر لوگ انہیں دوہرایں۔ -
13:48 - 13:51اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو
امدادی تنظیموں کو دیں -
13:51 - 13:53جو دنیا بھر میں مہاجرین کی
زندگیاں بدلتی ہیں۔ -
13:54 - 13:55اگر آپ ایک شہری ہیں،
-
13:56 - 13:58ایسے سیاستدانوں کو ووٹ دیں
-
13:58 - 14:02جو ایسے حل کو بروئے کار لائیں گے
جن کی میں نے بات کی یے۔ -
14:02 - 14:06(تالیاں)
-
14:06 - 14:08اجنبیوں کی ذمہ داری لینا
-
14:08 - 14:10دکھاتا ہے
-
14:10 - 14:13چھوٹے اور بڑے پیمانے پر
-
14:13 - 14:15دلیری اور بہادری۔
-
14:16 - 14:171942 میں،
-
14:19 - 14:21میری خالہ اور نانی برسلز میں رہ رہی تھیں
-
14:21 - 14:22جرمن قبضے کے تحت۔
-
14:24 - 14:26ان کو طلبی کا حکم نامہ ملا
-
14:26 - 14:30نازی حکام کی جانب سے کہ وہ
برسلز ریلوے سٹیشن جائیں۔ -
14:32 - 14:35میری نانی کو فوراً احساس ہوا
کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ -
14:37 - 14:39انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے التجا کی
-
14:39 - 14:41کہ وہ برسلز ریلوے سٹیشن نہ جائیں۔
-
14:42 - 14:44ان کے رشتہ داروں نے ان سے کہا،
-
14:45 - 14:48"اگر ہم نہ جائیں،
وہ نہ کریں جس کا کہا گیا ہے، -
14:48 - 14:50تو ہم کسی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔"
-
14:51 - 14:53آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوا
-
14:53 - 14:55وہ رشتہ دار جو برسلز ریلوے سٹیشن گئے۔
-
14:56 - 14:58وہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔
-
14:58 - 15:00لیکن میری نانی اور میری خالہ،
-
15:01 - 15:03وہ ایک چھوٹے سے گاوں چلی گئیں
-
15:03 - 15:05برسلز کے جنوب میں
-
15:06 - 15:09جہاں وہ ایک دہائی پہلے
چھٹیوں میں آئیں تھیں، -
15:09 - 15:13اور وہ ایک مقامی کسان کے گھر گئیں،
-
15:13 - 15:15موریس صاحب نامی ایک کیتھولک کسان کے پاس،
-
15:16 - 15:18اور اس سے پناہ کی دوخواست کی۔
-
15:19 - 15:21اور اس نے ان کو پناہ دی،
-
15:21 - 15:22جنگ ختم ہونے تک،
-
15:23 - 15:27مجھے بتایا گیا ہے کہ اس گاوں میں
17 یہودی رہ رہے تھے۔ -
15:28 - 15:30اور جب میں لڑکپن میں تھا تو
میں نے خالہ سے پوچھا -
15:30 - 15:32"کیا آپ مجھے موریس صاحب
سے ملوا سکتی ہیں؟" -
15:33 - 15:37اور انہوں نے کہا، "ہاں، وہ ابھی زندہ ہیں۔
چلو، جا کر ان سے ملتے ہیں۔" -
15:37 - 15:38اور یہ کوئی سن 84 ,83 کی بات ہے،
-
15:39 - 15:41ہم ان سے ملنے گئے۔
-
15:41 - 15:44اور میرا خیال ہے،
جیسے ایک لڑکے کی سوچ ہو سکتی ہے، -
15:44 - 15:45جب میں ان سے ملا،
-
15:45 - 15:48وہ سفید بالوں والے ایک بزرگ تھے،
-
15:48 - 15:50میں نے ان سے کہا،
-
15:51 - 15:52"آپ نے ایسا کیوں کیا؟
-
15:53 - 15:56آپ نے اتنا خطرہ کیوں مول لیا؟"
-
15:57 - 15:59انہوں نے کندھے جھٹکتے ہوئے مجھے دیکھا،
-
15:59 - 16:01اور فرانسیسی میں کہا،
-
16:01 - 16:03"اون ڈوا۔"
-
16:03 - 16:04"ایسا کرنا چاہیے۔"
-
16:04 - 16:07یہ ان کے اندر رچا بسا تھا۔
-
16:07 - 16:08یہ ایک فطری بات تھی۔
-
16:08 - 16:13اور میری آپ سے یہی طلب ہے کہ یہ ہمارے
اندر رچا بسا ہونا چاہیے، فطری ہونا چاہیے۔ -
16:13 - 16:14اپنے آپ کو بتائیے،
-
16:15 - 16:18یہ مہاجرین کا بحران قابلِ انتظام ہے،
-
16:18 - 16:19نا قابلِ حل نہیں،
-
16:19 - 16:21اور ہم میں سے ہر ایک کی
-
16:21 - 16:25یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ اس میں مدد کرے۔
-
16:25 - 16:29کیونکہ یہ ہماری اقدار اور ہمیں بچانے کے
بارے میں ہے -
16:29 - 16:32نیز مہاجرین کو اور ان کی زندگیوں
کو بچانے کے بارے میں بھی ہے۔ -
16:32 - 16:34آپ کا بہت بہت شکریہ۔
-
16:34 - 16:37(تالیاں)
-
16:45 - 16:48برونو جیوسانی: ڈیوڈ، آپ کا شکریہ۔
ڈیوڈ ملی بینڈـ آپ کا شکریہ۔ -
16:48 - 16:50ب ج: یہ شاندار تجاویز ہیں
-
16:50 - 16:53اور آپ کی ہر شخص کی ذمہ داری کی تجویز
بھی بہت اچھی ہے، -
16:53 - 16:55لیکن مجھے ایک سوچ سے تھوڑا مسئلہ ہے
اور وہ یہ کہ: -
16:55 - 16:59آپ نے ذکر کیا اور یہ آپ کے یہ الفاظ ہیں،
"غیر معمولی مغربی قیادت" -
16:59 - 17:01جس نے تقریباً 60 سال پہلے رہنمائی کی
-
17:01 - 17:03انسانی حقوق کی اس ساری بحث کی،
-
17:03 - 17:06جس کے نتیجے میں مہاجرین کا
کنونشن ہوا وغیرہ وغیرہ۔ -
17:07 - 17:10وہ قیادت ایک بڑے صدمے کے بعد آئی تھی
-
17:10 - 17:14اور ایک عمومی سیاسی اتفاقِ رائے کے
نتیجے میں، -
17:14 - 17:16اور اب سیاسی منظر نامہ اختلاف کا شکار ہے۔
-
17:16 - 17:19درحقیقت، مہاجرین خو ایک اختلافی مسئلہ ہیں۔
-
17:19 - 17:21تو پھر آج قیادت کہاں سے آئے گی؟
-
17:21 - 17:24ڈ م: میرا خیال ہے آپ کا یہ کہنا ٹھیک ہے
-
17:24 - 17:26کہ جو قیادتیں جنگوں میں ڈھلتی ہیں
-
17:27 - 17:29ان کی برداشت اور ان کا رویہ الگ ہوتا ہے
-
17:29 - 17:30اور انداز الگ ہوتا ہے
-
17:30 - 17:33اس قیادت سے جو زمانہ امن میں ڈھلتی ہے۔
-
17:34 - 17:37تو میرا جواب یہ ہو گا کہ قیادت کو
نیچے سے ابھرنا ہو گا، -
17:37 - 17:39اوپر سے نہیں آنا ہو گا۔
-
17:39 - 17:42میرا مطلب یہ ہے کہ اس کانفرنس کا
ایک موضوع جو دوہرایا جاتا رہا ہے -
17:42 - 17:46وہ طاقت کی جمہوری تقسیم ہے۔
-
17:46 - 17:48اور ہمیں اپنی جمہوریتوں کو بچانا ہو گا،
-
17:48 - 17:51لیکن ساتھ میں ہمیں اپنی جمہوریتوں کو
رائج کرنا ہو گا۔ -
17:51 - 17:53اور جب لوگ مجھے کہتے ہیں،
-
17:53 - 17:54"مہاجرین کے خلاف ایک شدید ردعمل ہے،"
-
17:54 - 17:56تو میں ان سے کہتا ہوں،
-
17:56 - 17:58"نہیں، ایک واضح تقسیم ہے،
-
17:58 - 17:59اور اس وقت،
-
17:59 - 18:01جو لوگ خوفزدہ ہیں
وہ زیادہ شور مچا رہے ہیں -
18:01 - 18:03ان سے جو اس پر خوش ہیں۔"
-
18:03 - 18:07تو آپ کے سوال کا میرا جواب ہو گا
کہ ہم مدد اور حوصلہ افزائی کریں گے -
18:07 - 18:08اور قیادت کو اعتماد دیں گے
-
18:08 - 18:10جب ہم متحرک ہوں گے۔
-
18:10 - 18:14اور میرا خیال ہے کہ جب آپ اس قابل ہوں کہ
قیادت کی تلاش کریں -
18:14 - 18:15تو آپ کو اندر جھانکنا ہو گا
-
18:15 - 18:17اور اپنے لوگوں کو متحرک کرنا ہو گا
-
18:17 - 18:20اور ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے
جس سے مختلف نتائج سامنے آ سکیں۔ -
18:20 - 18:22ب ج: ڈیوڈ آپ کا شکریہ۔
ٹیڈ میں آنے کا شکریہ۔ -
18:22 - 18:26(تالیاں)
- Title:
- ڈیوڈ ملی بینڈ کی ٹیڈ 2017 میں گفتگو
- Speaker:
- ڈیوڈ ملی بینڈ
- Description:
-
2016 میں ساڑھے چھ کروڑ افراد آفات اور تنازعات کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔ ڈیوڈ ملی بینڈ کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک بحران نہیں ہے؛ یہ ایک امتحان بھی ہے کہ ہم کون ہیں اور ہماری اقدار کیا ہیں — اور ہم میں سے ہر ایک کی ذاتی ذمہ داری ہے کہ اس کے حل میں مدد کریں۔ اس لازمی دیکھنے والی ٹیڈ گفتگو میں ملی بینڈ ہمیں ٹھوس اور منفرد تجاویز دیتے ہیں مہاجرین کی مدد کے لیے تاکہ ہم اپنی ہمدردی اور انسان دوستی کو عملی اقدامات میں بدل سکیں۔
- Video Language:
- English
- Team:
closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 18:38
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye approved Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye accepted Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character |