< Return to Video

سگاتا مترا: تعلیم و تدریس بچوں کے ذريعے

  • 0:02 - 0:04
    یہ تو صاف ظاہر ہے۔
  • 0:04 - 0:07
    میں نے یہ کام بارہ سال پہلے اس جملے سے شروع کیا،
  • 0:07 - 0:10
    میں نے کام جس پس منظر میں شروع کیا
  • 0:10 - 0:12
    اس کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے،
  • 0:12 - 0:15
    لیکن آج میرے حاضرین کا تعلق دنیا کے ہر کونے سے ہے۔
  • 0:15 - 0:18
    اگر اپ اپنے ملک کے نقشے پر غور کریں،
  • 0:18 - 0:20
    تو آپ محسوس کریں گے کہ
  • 0:20 - 0:22
    کہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام ممالک کے درمیان،
  • 0:22 - 0:24
    آپ ایک دائرہ کھینچ کر کہہ سکتے ہیں،
  • 0:24 - 0:27
    "قابل اسا تذہ ان جگہوں پر جانا پسند نہیں کریں گے."
  • 0:28 - 0:30
    اور اس سے بھی اہم ہے،
  • 0:30 - 0:33
    کہ یہ جگہیں مسائل کی آماجگاہ ہیں۔
  • 0:33 - 0:35
    تو ہم ایک عجیب و غریب مسئلے سے دوچار ہیں --
  • 0:35 - 0:37
    قابل اسا تذہ وہاں جانا نہیں چاہتے
  • 0:37 - 0:40
    ان جگہوں پر جہاں ان کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
  • 0:40 - 0:43
    میں نے 1999میں کام شروع کیا
  • 0:43 - 0:46
    کہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک تجربہ کیا جائے
  • 0:46 - 0:49
    یہ نئی دہلی میں کیا گیا ایک سادہ سا تجربہ تھا۔
  • 0:51 - 0:54
    میں نے سب سے پہلے ایک کمپیوٹر جوڑا
  • 0:54 - 0:57
    نئی دہلی کی ایک جھونپڑ پٹی کی ایک دیوار میں۔
  • 0:58 - 1:01
    وہاں بہت کم بچے اسکول جاتے تھے، اور انگریزی زبان سے نا آشنا تھے --
  • 1:01 - 1:03
    انہوں نے اس سے پہلے کمپیوٹر کبھی نہیں دیکھا تھا،
  • 1:03 - 1:06
    اور وہ نہیں جانتے تھے کہ انٹرنیٹ کیا چیز ہے۔
  • 1:06 - 1:09
    میں نے اس کمپیوٹر
    کے ساتھ تیز رفتار انٹرنیٹ جوڑ دیا -- یہ کمپیوٹر زمین سے تین فٹ اونچا ہے--
  • 1:09 - 1:11
    میں نے کمپیوٹر کو چالو کیا، اور اسے وہاں چلتا چھوڑ دیا۔
  • 1:11 - 1:13
    اس کے بعد
  • 1:13 - 1:16
    ہم نے چند دلچسپ باتوں کا مشاہدہ کیا جو ابھی آپ بھی دیکھیں گے۔
  • 1:16 - 1:19
    بعد ازآں میں نے یہ تجربہ ہندوستان کے باقی شہروں میں بھی کیا
  • 1:19 - 1:21
    اور پھر
  • 1:21 - 1:23
    دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی ایسا کیا
  • 1:23 - 1:25
    اور دیکھا کہ
  • 1:25 - 1:27
    بچے کرنا سیکھ لیں گے
  • 1:27 - 1:30
    جو وہ سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
  • 1:30 - 1:32
    یہ پہلا تجربہ تھا جو ہم نے کیا --
  • 1:32 - 1:34
    آپکے دائیں ہاتھ پر یہ آٹھ سال کا بچہ
  • 1:34 - 1:37
    اپنی ایک چھ سالہ شاگرد لڑکی کو سکھا رہا تھا
  • 1:37 - 1:40
    کہ انٹرنیٹ پر کیسے براؤز کیا جاتا ہے۔
  • 1:41 - 1:44
    یہ بچہ وسطی ہندوستان کے --
  • 1:45 - 1:47
    صوبہ راجھستان کے ایک گاؤں سے ہے،
  • 1:47 - 1:50
    یہاں بچے اپنی بنائی ہوئی کوئی دھن ریکارڈ کرتے ہیں
  • 1:50 - 1:53
    اور پھر ایک دوسرے کو سنانے کے لئے دوبارہ
    کمپیوٹر پر چلاتے ہیں
  • 1:53 - 1:55
    اور اس عمل کے دوران
  • 1:55 - 1:57
    انہوں نے خوب مزہ کیا۔
  • 1:57 - 1:59
    انہوں نے یہ سب کچھ صرف چار گھنٹوں میں کیا
  • 1:59 - 2:02
    حالانکہ انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کمپیوٹر دیکھا تھا۔
  • 2:02 - 2:05
    جنوبی ہندوستان کے ایک اور گاؤں میں،
  • 2:05 - 2:07
    لڑکوں نے
  • 2:07 - 2:09
    پرزوں کو جوڑ کر ویڈیو کیمرہ بنا لیا
  • 2:09 - 2:11
    اور وہ اس کیمرے کی مدد سے شہد کی مکھی کی تصویر اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔
  • 2:11 - 2:13
    انھوں نے یہ ڈزنی .کام سے ڈاؤن لوڈ کر لی تھی
  • 2:13 - 2:15
    یا شائد اسکی کسی ویب سائٹ سے،
  • 2:15 - 2:18
    کمپیوٹر ان کے گاؤں میں رکھنے کے صرف چودہ دن بعد۔
  • 2:21 - 2:23
    اور آخر کار
  • 2:23 - 2:25
    ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بچوں کے گروہ
  • 2:25 - 2:28
    خود سے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کا استعمال سیکھ سکتے ہیں،
  • 2:28 - 2:30
    اس سے بالا تر ہو کر کہ
  • 2:30 - 2:33
    وہ کون ہیں یا کہاں رہتے ہیں۔
  • 2:33 - 2:36
    یہ سب کچھ دیکھ کر میرا شوق اور بھی بڑھا
  • 2:36 - 2:39
    تو میں نے فیصلہ کیا کہ چلو دیکھتے ہیں
  • 2:39 - 2:42
    یہ بچے کمپیوٹر کی مدد سے اور کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں.
  • 2:42 - 2:45
    ہم نے اس تجربے کا آغاز حیدرآباد، ہندوستان سے کیا،
  • 2:45 - 2:48
    جہاں میں نے بچوں کے ایک گروہ کو دیا --
  • 2:48 - 2:51
    بچے، جو خاص تلگو لہجے میں انگریزی بول لیتے تھے۔
  • 2:51 - 2:53
    میں نے انہیں ایک کمپیوٹر مہیا کیا
  • 2:53 - 2:55
    اس پر بول کر لفظ لکھے جا سکتے تھے،
  • 2:55 - 2:58
    اب آپ اس کو ونڈوز کے ساتھ مفت حاصل کر سکتے ہیں،
  • 2:58 - 3:00
    میں نے ان بچوں سے کہا کہ وہ اس میں کچھ بولیں۔
  • 3:00 - 3:02
    چنانچہ جب وہ اس میں بولے تو
  • 3:02 - 3:04
    کمپیوٹر نے کچھ مہمل سا لکھ دیا،
  • 3:04 - 3:06
    تو وہ کہنے لگے "اس (کمپیوٹر) کو ہماری کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ہے ۔"
  • 3:06 - 3:08
    تو میں نے جواب دیا ، "ہاں، میں اس کو دو مہینے کے لیے ادھر تمہارے پاس ہی چھوڑ دوں گا۔
  • 3:08 - 3:10
    اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرو
  • 3:10 - 3:12
    کمپیوٹر کو۔"
  • 3:12 - 3:14
    بچے کہنے لگے،" ایسا کیسے کر پائیں گے ہم۔"
  • 3:14 - 3:16
    تو میں نے جواب میں کہا
  • 3:16 - 3:18
    "داراصل یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔"
  • 3:18 - 3:20
    (ہنسی)
  • 3:20 - 3:22
    اور میں چلا آیا۔
  • 3:22 - 3:24
    (ہنسی)
  • 3:25 - 3:27
    دو ماہ بعد --
  • 3:27 - 3:29
    اور یہ لکھا جا چکا ہے
  • 3:29 - 3:31
    آ ئی- ٹی کے
  • 3:31 - 3:33
    بین الاقوامی ترقی کے رسالوں میں --
  • 3:33 - 3:35
    کہ لہجے بدل چکے ہیں
  • 3:35 - 3:38
    اور وہ کافی حد تک برطانوی لہجے کے قریب ہو چکے ہیں
  • 3:38 - 3:41
    میں نے اسی لہجے کی مطابقت سے اس پروگرام کو تیار کیا تھا۔
  • 3:41 - 3:44
    یعنی وہ سب جیمز ٹولے کی طرح بول رہے تھے۔
  • 3:44 - 3:46
    (ہنسی)
  • 3:46 - 3:48
    لہٰذا وہ خود سے یہ سب کر پائے۔
  • 3:48 - 3:50
    اس کے بعد میں نے مختلف تجربوں کا آغاز کیا
  • 3:50 - 3:52
    مختلف قسم کی چیزوں کے ساتھ
  • 3:52 - 3:54
    تاکہ وہ اپنے طور پر کچھ سیکھ سکیں۔
  • 3:54 - 3:57
    مجھے کولمبو سے ایک دفعہ ایک دلچسپ ٹیلی فون کال موصول ہوئی،
  • 3:57 - 3:59
    مرحوم آرتھر - سی - کلارک کی طرف سے،
  • 3:59 - 4:01
    انہوں نے کہا "میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے ۔"
  • 4:01 - 4:04
    وہ سفر نہیں کر سکتے تھے لہٰذا میں ان کے پاس گیا۔
  • 4:04 - 4:06
    انہوں نے دو دلچسپ باتیں کیں،
  • 4:06 - 4:11
    "اایک استاد جس کی جگہ مشین لے سکتی ہے، اس کو مشین سے بدل دینا
    چا ہیے۔"
  • 4:11 - 4:13
    (ہنسی)
  • 4:13 - 4:15
    اور دوسری بات جو انہوں نے کہی وہ یہ کہ،
  • 4:15 - 4:17
    "اگر بچے دلچسپی لیں
  • 4:17 - 4:20
    تو تعلیم کا حصول ممکن ہے۔"
  • 4:20 - 4:22
    اور میں اس کو عملی میدان میں کر رہا تھا،
  • 4:22 - 4:24
    چنانچہ ہر بار دیکھنے پر یہ ویڈیو مجھے ان کی یاد دلاتی ہے۔
  • 4:24 - 4:27
    (ویڈیو) آرتھر -سی-کلارک : وہ ضرور کر سکتے ہیں
  • 4:27 - 4:29
    لوگوں کی مدد،
  • 4:29 - 4:31
    کیونکہ بچے بہت جلد چلانا سیکھ لیتے ہیں
  • 4:31 - 4:34
    ویب کو اور ان چیزوں کو جو ان کے لئے دلچسپی کا با عث ہوتی ہیں۔
  • 4:34 - 4:37
    اور جب آپ دلچسپی رکھتے ہوں تو تعلیم کا حصول آپ کے لئے ممکن ہو جاتا ہے۔
  • 4:37 - 4:40
    سگاتا مترا: میں نے یہی تجربہ جنوبی افریقہ میں بھی کیا۔
  • 4:40 - 4:42
    اس لڑکے کی عمر 15 سال ہے۔
  • 4:42 - 4:45
    (ویڈیو) لڑکا : صرف بتائو کہ میں کھیل کھیلتا ہوں
  • 4:45 - 4:48
    جانوروں کی طر ح،
  • 4:48 - 4:51
    اور موسیقی سنتا ہوں۔
  • 4:51 - 4:53
    ایس - ایم: اور میں نے اس سے پوچھا " تم ای میل بھیج لیتے ہو؟"
  • 4:53 - 4:56
    اور اس نے کہا، "ہاں اور وہ سمندر میں چھلانگیں لگاتی پھرتی ہیں ۔"
  • 4:57 - 4:59
    یہ کمبوڈیا میں ہے،
  • 4:59 - 5:02
    کمبوڈیا کا دیہی علاقہ --
  • 5:02 - 5:05
    ریاضی کا ایک کافی احمقانہ سا کھیل،
  • 5:05 - 5:07
    کوئی بچہ اسے کمرہ جماعت یا گھر میں تو نہیں کھیل سکتا۔
  • 5:07 - 5:09
    آپ جانتے ہیں وہ اس کو آپ کے منہ پر ماریں گے۔
  • 5:09 - 5:11
    وہ کہیں گے "یہ بکواس ہے۔"
  • 5:11 - 5:13
    اگر آپ اس کو گلی میں پھینک دیں
  • 5:13 - 5:15
    اور سب بالغ افراد کہیں چلے جائیں،
  • 5:15 - 5:17
    تو پھر وہ ایک دوسرے پر رعب جمانے کی غرض سے
  • 5:17 - 5:19
    بتانے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔
  • 5:19 - 5:21
    یہ بچے بھی یہی کر رہے ہیں۔
  • 5:21 - 5:24
    میرا خیال ہے کہ وہ ضرب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
  • 5:24 - 5:26
    اور پورے ہندوستان میں،
  • 5:26 - 5:28
    تقریباً 2 سال بعد
  • 5:28 - 5:31
    بچوں نے اپنا گھر کا کام گوگل پر تلاش کرنا شروع کر دیا۔
  • 5:31 - 5:33
    اساتذہ نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں
  • 5:33 - 5:35
    بچوں کی انگریزی میں بہت بہتری آئی ہے --
  • 5:35 - 5:39
    (ہنسی)
  • 5:39 - 5:41
    بہت تیزی سے اور بہت سی چیزوں میں تبدیلی۔
  • 5:41 - 5:44
    انہوں نے کہا کہ اس سے یہ مفکر بن گئے ہیں اور اسی طرح کی اور باتیں۔
  • 5:44 - 5:47
    (ہنسی)
  • 5:47 - 5:49
    اور بلا شبہ وہ ایسا بن گئے ہیں۔
  • 5:49 - 5:51
    اگر گوگل پر مواد موجود ہے،
  • 5:51 - 5:54
    تو آپکو اسے دماغ میں ٹھونسنے کی کیا ضرورت ہے؟
  • 5:55 - 5:57
    چنانچہ اگلے چار سالوں کے اختتام تک،
  • 5:57 - 6:00
    میں نے تہیہ کیا کہ بچوں کے گروہ انٹرنیٹ پر تلاش کرنا سیکھ جائیں گے
  • 6:00 - 6:03
    تا کہ اپنے تعلیمی اہداف حاصل کر سکیں۔
  • 6:03 - 6:05
    ان دنوں ایک خطیر رقم
  • 6:05 - 6:07
    نیو کاسل یونیورسٹی کو ملی
  • 6:07 - 6:10
    تا کہ ہندوستانی سکولوں کو بہتر بنایا جا سکے۔
  • 6:10 - 6:13
    مجھے نیو کاسل والوں نے کام کرنے کو کہا .میں نے بتایا "کہ میں دہلی میں کام کروں گا۔"
  • 6:13 - 6:15
    انہوں نے کہا "ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے
  • 6:15 - 6:18
    آپ لاکھوں پونڈ کی خطیر رقم جو یونیورسٹی کی ہے
  • 6:18 - 6:20
    دہلی میں بیٹھ کر خرچ کریں۔"
  • 6:20 - 6:22
    سو 2006 میں،
  • 6:22 - 6:24
    میں نے ایک بھری بھرکم اوور کوٹ خریدا
  • 6:24 - 6:26
    اور نیو کاسل چلا گیا۔
  • 6:27 - 6:29
    میں متعین کردہ حدود آزمانا چاہتا تھا
  • 6:29 - 6:31
    نظام کی۔
  • 6:31 - 6:33
    پہلا تجربہ جو میں نے نیو کاسل سے کیا
  • 6:33 - 6:35
    وہ دراصل میں ہندوستان میں کر چکا تھا۔
  • 6:35 - 6:38
    اور میں نے اپنے لئے ایک نا ممکن ہدف مقرر کیا:
  • 6:38 - 6:41
    کیا تامل بولنے والے
  • 6:41 - 6:43
    بارہ سال تک کی عمر کے بچے
  • 6:43 - 6:46
    جنوبی ہندوستان کے گاوں میں
  • 6:46 - 6:48
    خود کو حیاتی طرزیات کی تعلیم دے سکتے ہیں
  • 6:48 - 6:50
    انگریزی زبان میں، خود سے؟
  • 6:50 - 6:53
    میں نے سوچا, میں ان کا امتحان لوں گا, وہ ناکام ہو جائیں گے --
  • 6:53 - 6:55
    میں انھیں کچھ مواد مہیا کروں گا اور پھر واپس آ کر ان کا امتحان لوں گا --
  • 6:55 - 6:57
    وہ پھر ناکام ہو جائیں گے،
  • 6:57 - 7:01
    تو میں واپس آ کر کہوں گا، "ہاں چند چیزوں کی تعلیم کے لئے ہمیں اسا تذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔"
  • 7:01 - 7:03
    میں نے 26 بچوں کو چنا۔
  • 7:03 - 7:05
    ان سب کو میں نے اکھٹا کیا اور بتایا
  • 7:05 - 7:07
    کہ اس کمپیوٹر میں خاصا مشکل مواد ہے۔
  • 7:07 - 7:10
    اگر تمہاری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔
  • 7:10 - 7:13
    یہ سب انگریزی زبان میں ہے، اچھا میں چلتا ہوں۔
  • 7:13 - 7:15
    (ہنسی)
  • 7:15 - 7:17
    تو میں انہیں اس کے سہارے چھوڑ آیا۔
  • 7:17 - 7:19
    میں دو ماہ بعد لوٹا،
  • 7:19 - 7:21
    اور وہ 26 بچے چپ چاپ میری طرف بڑھے۔
  • 7:21 - 7:24
    میں نے کہا، "آپ نے اس مواد میں سے کچھ دیکھا؟"
  • 7:24 - 7:26
    انھوں نے کہا، "ہاں ہم نے دیکھا۔"
  • 7:26 - 7:29
    "کچھ سمجھ میں آیا؟ " نہیں، کچھ نہیں۔ "
  • 7:29 - 7:31
    تو میں نے کہا،
  • 7:31 - 7:33
    "اچھا تم نے اس پر کتنی مشق کی
  • 7:33 - 7:35
    یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آیا؟"
  • 7:35 - 7:38
    انہوں نے کہا، "ہم روز اس کو دیکھتے تھے۔"
  • 7:38 - 7:40
    تو میں نے کہا، "تو تم دو ماہ تک ایسا مواد دیکھتے رہے جو تمہاری سمجھ سے با لا تر تھا؟ "
  • 7:40 - 7:42
    12 سال کی ایک بچی نے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگی
  • 7:42 - 7:44
    حقیقت یہ ہے
  • 7:45 - 7:48
    "اس بات کے علاوہ کہ ڈی. این . اے سالموں کی بے قاعدہ تخلی
  • 7:48 - 7:50
    موروثی بيماريوں کا مؤجب ہو سکتی ہے،
  • 7:50 - 7:52
    اس سے زيادہ ہماری سمجھ ميں کچھ نيہں آيا۔"
  • 7:52 - 7:54
    (ہنسی)
  • 7:54 - 8:01
    (تالیاں)
  • 8:01 - 8:04
    (ہنسی)
  • 8:04 - 8:06
    مجھے تین سال کا عرصہ لگا اس کی اشاعت میں۔
  • 8:06 - 8:09
    یہ ابھی برطانوی جریدے براِئے تعلیمی ٹیکنالوجی میں شائع ہوا ہے۔
  • 8:09 - 8:12
    ایک حوالہ دینے والے نے کہا
  • 8:12 - 8:15
    "بہت اچھی بات ہے کہ سچ بولا جائے،"
  • 8:15 - 8:17
    جو کہ ذیادہ اچھا نہیں تھا۔
  • 8:17 - 8:19
    ان میں سے ایک لڑکی نے خود سے سیکھا
  • 8:19 - 8:21
    تا کہ دوسروں کو سکھا سکے.
  • 8:21 - 8:23
    پھر یہ وہ ہے وہاں پر۔
  • 8:31 - 8:33
    یاد رہے، وہ انگریزی زبان نہیں پڑھتے۔
  • 8:46 - 8:49
    ابھی تو میں نے آخری حصہ حذف کردیا تھا جہاں میں نے پوچھا، " نیورون کہاں ہے؟"
  • 8:49 - 8:51
    اور اس نے کہا، "نیورون، یعنی نیورون،"
  • 8:51 - 8:54
    اور پھر اس نے دیکھا ور یہ کیا۔
  • 8:54 - 8:57
    جو بھی تاثر تھا، بہت اچھا نہیں تھا۔
  • 8:57 - 9:00
    تو ان کے نتائج صفر سے تیس فیصد پر جا پہنچے،
  • 9:00 - 9:03
    جو ان حالالت میں غیر معمولی تعلیمی کامیابی ہے۔
  • 9:03 - 9:06
    لیکن تیس فیصد کامیابی کا میعار نہیں۔
  • 9:06 - 9:08
    پھر مجھے پتا چلا کہ ان کا کوئی دوست تھا،
  • 9:08 - 9:10
    ایک نوجوان لڑکی، مقامی اکاؤنٹنٹ،
  • 9:10 - 9:12
    وہ اس کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے۔
  • 9:12 - 9:14
    میں نے اس لڑکی سے پوچھا " کیا تم ان کو پڑھانا چاہو گی
  • 9:14 - 9:16
    اتنی حیاتی طرزیات کہ یہ پاس ہو جائیں؟
  • 9:16 - 9:18
    اور اس نے کہا، "میں کیسے پڑھاؤں گی؟ میں اس مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔"
  • 9:18 - 9:20
    میں نے کہا، "نہیں دادی ماں کا طریقہ اپناؤ۔"
  • 9:20 - 9:22
    وہ پوچھنے لگی، "وہ کیا ہے؟"
  • 9:22 - 9:24
    میں نے کہا، " تمہیں یہ کرنا ہو گا کہ
  • 9:24 - 9:26
    ان کے پیچھے کھڑی رہنا
  • 9:26 - 9:29
    اور ہر وقت ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہنا۔
  • 9:29 - 9:31
    صرف کہتی رہنا، 'بہت اچھا، یہ زبردست ہے۔
  • 9:31 - 9:34
    وہ کیا ہے؟ کیا تم اسے دوبارہ کر سکتے ہو؟ کیا تم مجھے کچھ اور دکھا سکتے ہو؟"'
  • 9:34 - 9:36
    اس نے دو ماہ تک یہ کیا۔
  • 9:36 - 9:38
    تائج پچاس فیصد تک پہنچ گئے،
  • 9:38 - 9:40
    دہلی کے کسی بھی بڑھیا سکول کی طرح،
  • 9:40 - 9:43
    جہاں حیاتی طرزیات کے ماہر استاد موجود تھے۔
  • 9:43 - 9:45
    تو میں نیو کاسل واپس آیا
  • 9:45 - 9:47
    ان نتائج کے ساتھ
  • 9:47 - 9:49
    اور میں نے فیصلہ کیا
  • 9:49 - 9:51
    کہ یہاں کچھ ہو رہا ہے
  • 9:51 - 9:54
    جو یقیناً سنجیدہ نوعیت کا حامل تھا۔
  • 9:55 - 9:58
    چنانچہ ہر قسم کی دور دراز جگہوں پر تجربات کرنے کے بعد،
  • 9:58 - 10:01
    میں اپنی سوچ کے مطابق سب سے دور جگہ پر آ گیا۔
  • 10:01 - 10:03
    (ہنسی)
  • 10:04 - 10:07
    دہلی سے تقريباً 5,000 ميل دور
  • 10:07 - 10:09
    گيٹس ہيڈ کا چھوٹا سا قصبہ ہے۔
  • 10:09 - 10:12
    گیٹس ہیڈ سے میں نے 32 بچے لیے
  • 10:12 - 10:15
    ميں طريقہ کار ميں بہتری لایا۔
  • 10:15 - 10:18
    ميں نے انہيں چار چار کے گروہ ميں تقسيم کيا۔
  • 10:18 - 10:20
    میں نے کہا، "اپنی مرضی سے چار بچے اکھٹے ہو جائیں۔
  • 10:20 - 10:23
    چار بچوں کا گروپ ایک کمپیوٹر استعمال کرے گا نہ کہ چار کمپیوٹر۔"
  • 10:23 - 10:26
    یاد ہے، دیوار کے سوراخ میں سے .
  • 10:26 - 10:28
    "آپ اپنا گروہ بدل سکتے ہیں.
  • 10:28 - 10:30
    آپ کسی بھی دوسرے گروہ میں جا سکتے ہیں،
  • 10:30 - 10:32
    اگر آپ کو اپنا گروپ پسند نا آئے تو، وغیرہ وغیرہ۔
  • 10:32 - 10:35
    آپ دوسرے گروہ میں جا سکتے ہیں، ان کے کندھوں پر سے جھانکیں کہ وہ کیا کررہے ہیں،
  • 10:35 - 10:38
    اپنے گروہ میں واپس آئیں اور ان پر ظاہر کریں کہ جیسے یہ آپ کا علم ہے۔"
  • 10:38 - 10:40
    اور میں نے انہیں یہ وضاحت سے سمجھایا
  • 10:40 - 10:43
    کہ آپ جانتے ہیں کہ بیشتر سائنسی تحقیقات انہی طریقوں کی مدد سے کی جاتی ہیں۔
  • 10:43 - 10:45
    (ہنسی)
  • 10:45 - 10:50
    (تالیاں)
  • 10:52 - 10:54
    بچے جوش و خروش سے میرے پیچھے پڑ گئےاور کہا،
  • 10:54 - 10:56
    "اب ہمیں کیا کرنا ہو گا"
  • 10:56 - 10:59
    میں نے انھیں کیمرج کی سطح کے چھ سوالات دیے۔
  • 10:59 - 11:01
    پہلا گروہ -- جو سب سے بہتر تھا --
  • 11:01 - 11:03
    انہوں نے بیس منٹ میں سب حل کر ڈالا۔
  • 11:03 - 11:06
    سب سے بروں نے پینتالیس منٹ میں۔
  • 11:06 - 11:08
    جو کچھ وہ جانتے تھے انھوں نے سب کا استعمال کر ڈالا --
  • 11:08 - 11:10
    خبریں، گوگل ، وکی پیڈیا،
  • 11:10 - 11:12
    Ask Jeeves وغیرہ وغیرہ ۔
  • 11:12 - 11:15
    استادوں نے کہا، " کیا یہ حقیقی علم ہے؟"
  • 11:15 - 11:17
    میں نے کہا، " چلئے اس کو آزماتے ہیں۔
  • 11:17 - 11:19
    میں دو ماہ بعد واپس آئوں گا۔
  • 11:19 - 11:21
    ہم انھیں تحریری امتحان دیں گے --
  • 11:21 - 11:23
    نہ کوئی کمپیوٹر ہو گا، نہ آپس میں بات چیت، وغیرہ وغیرہ۔"
  • 11:23 - 11:25
    جب میں نے کمپیوٹر اور گروہوں کے ساتھ کیا تھا تو اوسط نتیجہ
  • 11:25 - 11:27
    76 فیصد تھا۔
  • 11:27 - 11:29
    جب میں نے تجربہ کیا، تحریری امتحان لیا تو
  • 11:29 - 11:32
    دو ماہ بعد نتیجہ،
  • 11:32 - 11:35
    76 فیصد تھا۔
  • 11:35 - 11:37
    وہاں ہوبہو عکس اتارا گیا اس کا
  • 11:37 - 11:39
    جو بچوں کے اندر تھا،
  • 11:39 - 11:42
    میرا خیال ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے اس بارے میں بات کر رہے تھے۔
  • 11:42 - 11:44
    اکیلا بچہ ایک کمپیوٹر کے سامنے
  • 11:44 - 11:46
    ایسا نہیں کرے گا۔
  • 11:46 - 11:48
    میرے پاس اور نتائج بھی ہیں،
  • 11:48 - 11:50
    جو کہ تقریباً نا قابل یقین ہیں،
  • 11:50 - 11:52
    نتائج جو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو رہے ہیں۔
  • 11:52 - 11:54
    کیونکہ ان کے اساتذہ کہتے ہیں
  • 11:54 - 11:56
    سیشن ختم ہونے کے بعد،
  • 11:56 - 11:59
    بچے گوگل پر کام جاری رکھتے ہیں۔
  • 11:59 - 12:01
    ادھر برطانیہ میں، میں نے کام کا آغاز کیا
  • 12:01 - 12:03
    برطانوی دادیوں کے ساتھ،
  • 12:03 - 12:05
    کپام میں تجربے کے بعد ۔۔
  • 12:05 - 12:07
    آپ جانتے ہیں،
  • 12:07 - 12:09
    وہ بہت زبردست لوگ ہیں، برطانوی دادیاں۔
  • 12:09 - 12:11
    ان میں سے 200 نے فوراً رضا کارانہ طور پر حامی بھر لی۔
  • 12:11 - 12:13
    (ہنسی)
  • 12:13 - 12:16
    طے یہ پایا کہ وہ مجھے دیں گی
  • 12:16 - 12:18
    انٹرنیٹ پر ملاقات کا ایک گھنٹہ،
  • 12:18 - 12:20
    اپنے گھر بیٹھے بیٹھے،
  • 12:20 - 12:22
    ہفتے میں ایک دن۔
  • 12:22 - 12:24
    انہوں نے ایسا ہی کیا،
  • 12:24 - 12:26
    اور گزشتہ دو سال سے
  • 12:26 - 12:28
    600 گھنٹوں سے زیادہ کی تدریس
  • 12:28 - 12:30
    سکا ئیپ پر ہوئی ہے،
  • 12:30 - 12:33
    اس کے استعمال سے جسے میرے شاگرد " گرینی کلاؤڈ " کہتے ہیں۔
  • 12:33 - 12:36
    گرینی کلاؤڈ وہاں بیٹھتا ہے۔
  • 12:36 - 12:39
    میں کسی بھی اسکول کے ساتھ ان کا رابطہ کروا سکتا ہوں۔
  • 12:45 - 12:47
    (ویڈیو) استاد : تم مجھے نہیں پکڑ سکتے
  • 12:47 - 12:50
    تم بولو۔
  • 12:50 - 12:53
    تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔
  • 12:53 - 12:56
    بچے: تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔
  • 12:56 - 12:59
    استاد: میں جنجر بریڈ مین ہوں۔
  • 12:59 - 13:01
    بچے: میں جنجر بریڈ مین ہوں۔
  • 13:01 - 13:03
    استاد: بہت اچھے۔ شاباش --
  • 13:09 - 13:11
    ایس ایم: واپس گیٹس ہیڈ میں،
  • 13:11 - 13:13
    دس سالہ بچی ہندومت کے مرکز میں پہنچ سکتی ہے
  • 13:13 - 13:15
    صرف پندرہ منٹ میں۔
  • 13:15 - 13:18
    آپ جانتے ہیں کہ ایک ایسی بات جس کا مجھے بلکل علم نہیں۔
  • 13:21 - 13:23
    دو بچے ٹیڈ ٹاک دیکھتے ہیں۔
  • 13:23 - 13:25
    پہلے وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے۔
  • 13:25 - 13:27
    آٹھ عدد ٹیڈ ٹاک دیکھنے کے بعد،
  • 13:27 - 13:30
    وہ لیو نارڈو د ونچی بننا چا ہتا ہے۔
  • 13:30 - 13:33
    (ہنسی)
  • 13:33 - 13:36
    (تالیاں)
  • 13:36 - 13:38
    یہ بہت سادہ سی چیز ہے۔
  • 13:38 - 13:40
    اب میں اسکو بنا رہا ہوں --
  • 13:40 - 13:43
    ان کو کہتےہیں، سولز, سیلف آرگنايزڈ لرننگ انوايرمنٹ۔
  • 13:43 - 13:45
    فرنیچر تیار کیا جاتا ہے
  • 13:45 - 13:48
    تا کہ بچے ایک بہت بڑی طاقتور سکرین کے سامنے بیٹھ سکیں،
  • 13:48 - 13:51
    بڑے بروڈ بینڈ کنیکشن، لیکن گروہوں کی شکل میں۔
  • 13:51 - 13:54
    اگر وہ چاہیں تو گرينی کلاؤڈ کہہ سکتے ہیں۔
  • 13:54 - 13:56
    یہ نیو کا سیل کا 'سول' ہے۔
  • 13:56 - 13:58
    معاون کا تعلق پونے، ہندوستان سے ہے۔
  • 13:58 - 14:01
    بتانے کو بہت کچھ ہے، لیکن اس چھوٹی سی بات کے ساتھ میں ختم کروں گا۔
  • 14:01 - 14:04
    مئی کے مہینے میں، میں ترین گیا۔
  • 14:05 - 14:08
    میں نے اپنے دس سال کی عمر کے بچوں کے گروہ کو، اساتذہ سے الگ کر دیا۔
  • 14:09 - 14:12
    میں صرف انگریزی بولتا ہوں اور وہ صرف اطالوی،
  • 14:12 - 14:14
    تو ہمارے پاس ابلاغ کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا۔
  • 14:14 - 14:17
    میں نے تختہ سیاه پر انگریزی میں سوال لکھنا شروع کِیے۔
  • 14:18 - 14:20
    بچوں نے دیکھا اور کہا، " یہ کیا ہے؟"
  • 14:20 - 14:22
    میں نے کہا، " اسے حل کرو۔"
  • 14:22 - 14:25
    انھوں نے اسے گوگل میں لکھا اور اس کا ترجمہ اطالوی زبان میں کر لیا،
  • 14:25 - 14:27
    پھر واپس اطالوی گوگل پر چلے گئے۔
  • 14:27 - 14:30
    پندرہ منٹ کے بعد --
  • 14:37 - 14:40
    اگلا سوال، کلکتہ کہاں ہے؟
  • 14:42 - 14:45
    اس دفعہ انہیں صرف دس منٹ لگے۔
  • 14:49 - 14:52
    پھر میں نے نہایت مشکل سوال پوچھا۔
  • 14:52 - 14:55
    فيثا غورث کون تھا اور اس نے کيا کيا؟
  • 14:57 - 14:59
    کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی،
  • 14:59 - 15:01
    پھر انہوں نے کہا، "آپ نے غلط ہیجے بتائے ہیں۔
  • 15:01 - 15:04
    یہ ہے پیتا گورا۔"
  • 15:08 - 15:10
    اور پھر،
  • 15:10 - 15:12
    20 منٹ میں
  • 15:12 - 15:14
    مختلف زاویے سکرین پر ابھرنا شروع ہو گئے۔
  • 15:14 - 15:17
    اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
  • 15:17 - 15:19
    یہ دس سال کے بچے ہیں۔
  • 15:32 - 15:35
    اگلے دس منٹ ميں وہ ريلیٹيويٹی تھيوری پر پہنچ جا ٔيیں گے۔ اور پھر؟
  • 15:35 - 15:37
    (ہنسی)
  • 15:37 - 15:46
    (تالیاں)
  • 15:46 - 15:48
    ایس ایم: آپ جانتے ہیں کہ ہوا کیا؟
  • 15:48 - 15:50
    میرا خیال ہے کہ ہم اچانک پہنچ گئے ہیں
  • 15:50 - 15:52
    ایک خود ساختہ منظم نظام کے پاس۔
  • 15:52 - 15:54
    ایک خود ساختہ منظم نظام وہ ہے
  • 15:54 - 15:56
    جہاں پر ایک ایسا ڈھانچہ ابھرتا ہے
  • 15:56 - 15:59
    جس میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں ہوتی۔
  • 15:59 - 16:02
    خود ساختہ منظم نظام ہمیشہ کچھ ایسے ابھرتے ہیں،
  • 16:02 - 16:04
    کہ نظام خود بخود وہ کام کرنا شروع ہو جاتا ہے،
  • 16:04 - 16:06
    جس کے لئے وہ بنا ہی نہیں تھا۔
  • 16:06 - 16:08
    اسی لئے آپ کا ردعمل وہی ہے جو ہونا چاہیے،
  • 16:08 - 16:11
    کیونکہ یہ نا ممکن نظر آتا ہے۔
  • 16:11 - 16:14
    میرا خیال ہے اب میں اندازہ کر سکتا ہوں --
  • 16:14 - 16:16
    تعلیم خود سے منظم کیا ہوا ایک نظام ہے،
  • 16:16 - 16:18
    جہاں سیکھنا ايک ابھرتا ہوا رجحان ہے۔
  • 16:18 - 16:20
    مجھے اس تجربے کو ثابت کرنے میں کچھ سال لگیں گے،
  • 16:20 - 16:22
    لیکن میں کوشش کروں گا۔
  • 16:22 - 16:25
    اس دوران ایک طریقہ کار موجود ہے۔
  • 16:25 - 16:28
    ایک ارب بچوں کے لئے دس کروڑ معاون چاہیں --
  • 16:28 - 16:30
    اس زمین پر اس سے بھی زیادہ موجود ہیں --
  • 16:30 - 16:32
    دس لاکھ 'سولز'،
  • 16:32 - 16:35
    ایک سو اسی کھرب ڈالر اور دس سال۔
  • 16:36 - 16:38
    ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں۔
  • 16:38 - 16:40
    شکریہ۔
  • 16:40 - 16:51
    (تالياں)
Title:
سگاتا مترا: تعلیم و تدریس بچوں کے ذريعے
Speaker:
Sugata Mitra
Description:

تعليمی سائنس دان سگاتا مترا عظيم ترين تعليمی مشکلات ميں سے ايک سے نبرد آزما ہيں -- بہترين اساتذہ اور مدارس کا فقدان ان جگہوں پر ہے جہاں ان کی سب سے زيادہ ضرورت ہے۔ نئی دہلی سے جنوبی افريقہ اور اٹلی تک حقيقی زندگی کے تجرباتی سلسلے ميں، انہوں نے بچوں کو ايسی ويب تک رسائی دی جسکی ا’نکو خود ہی نگرانی کرنا پڑتی تھی اور ايسے نتائج حاصل کيے جو تدريس کے روائتی طريقوں ميں انقلاب برپا کر سکتے ہيں۔

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
16:53
Raana رعّنا Irfan عرفان commented on Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum approved Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum accepted Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum commented on Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The child-driven education
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The child-driven education
Show all

Urdu subtitles

Revisions