میں پناہ گزین بچی سے بین الاقوامی ماڈل کیسے بنی
-
0:00 - 0:04یہ میں ہوں سات سال کی عمر میں۔
-
0:06 - 0:08اور یہ بھی میں ہوں۔
-
0:09 - 0:13(تالیاں اور خوشی کے نعرے)
-
0:13 - 0:17یہاں کاکوما پناہ گزین کیمپ میں کھڑے ہونا
بہت غیرحقیقی محسوس ہو رہا ہے، -
0:17 - 0:20اور میں جذبات سے مغلوب ہوں۔
-
0:20 - 0:22بالکل یہی میدان ہیں جہاں میں پیدا ہوئی
-
0:22 - 0:24اور اپنی زندگی کے پہلے سات سال گزارے۔
-
0:26 - 0:28میرا خیال ہے کہ بہت لوگ یہ
سن کر حیران ہیں -
0:28 - 0:31کہ یہاں کاکوما میں
میری بہت اچھی پرورش ہوئی۔ -
0:31 - 0:32مگر میں خوش تھی،
-
0:33 - 0:35میں ہوشیار تھی، میرے دوست تھے
-
0:35 - 0:38اور سب سے بڑھ کر،
مجھے روشن مستقبل کی امید تھی۔ -
0:39 - 0:42کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے
رکاوٹیں نہیں تھیں۔ -
0:42 - 0:44کیا کہوں، کیسی کیسی مشکلات تھیں۔
-
0:44 - 0:46کبھی کبھار مجھے ملیریا ہو جاتا تھا
-
0:46 - 0:50اور ہمیشہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ
ہمارا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ -
0:50 - 0:53مگر جو بھائی چارے کا احساس
یہاں کاکوما میں ہے -
0:53 - 0:55اور وہ فخر جس کے یہاں سب مالک ہیں
-
0:56 - 0:58وہ بے مثال ہے۔
-
1:00 - 1:03جب میں چھوٹی تھی، مجھے جھگڑوں کا
اچانک شروع ہو جانا یاد ہے۔ -
1:03 - 1:06ایسا عام طور پر ہوتا ہے
جب لوگ مختلف پس منظر سے آتے ہیں -
1:06 - 1:08اور ایک زبان نہیں بولتے۔
-
1:08 - 1:10آخرکار، سواحلی --
-
1:10 - 1:11یہاں کی مرکزی زبان --
-
1:11 - 1:12ہماری دلیلِ مشترک بنی۔
-
1:13 - 1:15میں نے کیمپ میں موجود بچوں سے دوستی کی
-
1:15 - 1:18اور کسی حد تک ان کی ثقافت کو بھی
اپنانا شروع کیا، -
1:18 - 1:21کرسمس جیسے تہوار منانا، اگرچہ میری پرورش
مسلمان کے طور پر کی گئی تھی۔ -
1:22 - 1:24دوسرے بچے بھی میری ثقافت کو اپناتے تھے،
-
1:24 - 1:27کبھی کبھار تو میرے ساتھ
نماز بھی ادا کرتے تھے۔ -
1:28 - 1:31بچے ہونے کے ناطے، اکٹھا ہونا آسان تھا،
-
1:31 - 1:32اپنے سب عقائد کو ملا کر
-
1:32 - 1:36اپنا منفرد کثیرالثقافتی ماحول بنانا۔
-
1:36 - 1:39میرا نام حلیمہ ادن ہے
-
1:39 - 1:43میں ایک سیاہ فام، کینیا سے تعلق رکھنے والی
صومالی-امریکی مسلمان ہوں۔ -
1:44 - 1:47(تالیاں)
-
1:47 - 1:49کچھ لوگوں نے کہا
میں بنیاد ڈالنے والی ہوں -- -
1:49 - 1:52میں اپنے ہائی سکول کی پہلی مسلمان
"ہوم کمنگ" ملکہ تھی، -
1:52 - 1:55اپنے کالج کی پہلی صومالی طالب علم سینیٹر
-
1:55 - 1:58اور بہت سی جگہوں پر
پہلی حجاب پہننے والی خاتون تھی، -
1:58 - 2:01جیسے مِس مینیسوٹا امریکہ کا مقابلہ حسن،
-
2:01 - 2:04مِلان اور نیویارک فیشن ویک کے رن وے پر
-
2:04 - 2:07اور یہاں تک کہ برطانوی رسالہ "ووگ"
کے تاریخی سروق پر بھی۔ -
2:08 - 2:09جیسے آپ دیکھ سکتے ہیں،
-
2:10 - 2:13میں خوفزدہ نہیں ہوں پہل کرنے میں،
خود سے قدم آگے بڑھانے میں، -
2:13 - 2:14خدشات مول لینے اور تبدیلی کے لیے،
-
2:14 - 2:17کیونکہ اقلیت ہونا یہی تو ہے۔
-
2:17 - 2:20یہ اپنی ذات کو استعمال کرنا ہے
تبدیلی لانے کے لیے -
2:20 - 2:24اور تنوع کی طاقت کی انسانی شبیہ بننا ہے۔
-
2:24 - 2:29اور اب میں اپنے مقام کو قبولیت کا
اہم پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہوں۔ -
2:30 - 2:32لیکن یہ ہمیشہ سے آسان نہیں رہا۔
-
2:33 - 2:37جب ہم پہلی بار امریکہ آئے اور
سینٹ لوئس، مِسوری کو اپنا گھر بنایا، -
2:37 - 2:41مجھے یاد ہے میں نے اپنی والدہ سے پوچھا،
"کیا یہ واقعی امریکہ ہے؟" -
2:42 - 2:45کچھ چیزیں افسوسناک طور پرجانی پہچانی تھیں،
-
2:45 - 2:47جیسے رات کو گولیوں کی آوازیں
-
2:47 - 2:48اور گلیوں میں دکھائی دینے والی مفلسی۔
-
2:49 - 2:52مگر کچھ چیزیں بہت مختلف بھی تھیں۔
-
2:52 - 2:54جیسے جب میں نے پہلی جماعت شروع کی،
-
2:54 - 2:56میں نے دیکھا کہ کیسے بچے
گروہ بنا کر کھیلتے ہیں۔ -
2:56 - 2:58امریکہ میں، ہم انہیں "منڈلیاں" کہتے ہیں۔
-
2:58 - 3:00یہاں پر ہم سب اکھٹے کھیلتے تھے۔
-
3:01 - 3:03جنسی فرق کے بغیر،
-
3:03 - 3:05اور یقینی طور پر نسلی فرق کے بغیر۔
-
3:05 - 3:07مجھے خود سے پوچھنا یاد ہے،
-
3:07 - 3:09"ان کو سواحلی کیوں سمجھ نہیں آتی؟
-
3:10 - 3:13سواحلی وہ زبان ہے جو
لوگوں کو قریب لاتی ہے۔" -
3:14 - 3:16حالات کی ستم ظریفی کہ،
-
3:16 - 3:20جس سکول میں میرا داخلہ ہوا وہاں
انگریزی سکھانے والا پروگرام نہیں تھا۔ -
3:20 - 3:22لہٰذا میں روزانہ اٹھتی،
-
3:22 - 3:24سکول جاتی، اپنے ڈیسک پر بیٹھتی
-
3:24 - 3:26اور ایک لفظ نہ سیکھتی۔
-
3:27 - 3:29اس موقع پر میں نے مایوس ہونا شروع کر دیا،
-
3:29 - 3:32اور میری سب سے بڑی خواہش
کاکوما واپس جانا تھی، -
3:32 - 3:33ایک پناہ گزین کیمپ میں۔
-
3:36 - 3:39جلد ہی میری والدہ کو پتہ چلا کہ
کئی صومالیوں کو پناہ ملی ہے -
3:39 - 3:41مینیسوٹا کے ایک چھوٹے قصبے میں۔
-
3:41 - 3:44تو جب میں آٹھ سال کی تھی،
ہم مینیسوٹا آ گئے۔ -
3:45 - 3:49میری زندگی تبدیل ہوئی، جب میں دوسرے
طالب علموں سے ملی جو صومالی بولتے تھے، -
3:49 - 3:53ایسے سکول میں گئی جہاں
انگریزی سکھانے والا پروگرام تھا -
3:53 - 3:55اور ایسے اساتذہ ملے جو
حد سے بڑھ کر مدد کرتے تھے، -
3:56 - 3:58سکول کے اوقات کے بعد اور
کھانے کے وقفے کے دوران ٹھہرتے، -
3:58 - 4:02کلاس میں میری کامیابی کے لیے
خود کو وقف کیے ہوئے۔ -
4:02 - 4:07پناہ گزین بچی ہونے نے مجھے سکھایا کہ
انسان ہر چیز سے محروم ہو سکتا ہے: -
4:07 - 4:10کھانا، چھت، پینے کا صاف پانی،
-
4:10 - 4:12حتٰی کہ دوستی سے بھی،
-
4:12 - 4:15لیکن وہ ایک چیز جو کوئی
آپ سے چھین نہیں سکتا -
4:15 - 4:16وہ آپ کی تعلیم ہے۔
-
4:17 - 4:20لہٰذا میں نے پڑھائی کو
اپنی پہلی ترجیح بنا لیا -
4:20 - 4:23اور جلد ہی کلاس میں آگے بڑھنے لگی۔
-
4:24 - 4:27جیسے میں بڑی ہوئی، مجھے
دوسروں کے بارے میں زیادہ آگاہی ہوئی -
4:27 - 4:30اور یہ کہ وہ میرے پس منظر
اور نسل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ -
4:30 - 4:34خاص طور پر جب میں نے
سر ڈھانپنا شروع کیا، جسے حجاب کہتے ہیں۔ -
4:34 - 4:37جب میں نے اسے پہننا شروع کیا،
تو میں پر جوش تھی۔ -
4:37 - 4:42میں اپنی والدہ کے حجاب کی تعریف کرتی تھی
اور انکی خوبصورتی کی تقلید کرنا چاہتی تھی۔ -
4:42 - 4:44لیکن جب میں نے مڈل سکول شروع کیا،
-
4:44 - 4:47طالب علم مجھے تنگ کرتے تھے
کہ میرے بال نہیں ہیں، -
4:47 - 4:49لہٰذا ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے،
-
4:49 - 4:51میں ان کو اپنے بال دکھانے لگی --
-
4:51 - 4:55اگرچہ یہ میرے عقائد کے خلاف تھا، مگر میں
نے دباؤ میں آ کر ایسا کیا۔ -
4:56 - 4:59اس وقت میں شدّت سے
گُھل ملِ جانا چاہتی تھی۔ -
5:01 - 5:06جب میں مذہب، نسل اور شناخت
کے مسائل پر غور کرتی ہوں -
5:06 - 5:08تو بہت سی نکلیف دہ یادیں ذہن میں آتی ہیں۔
-
5:09 - 5:12میرے لیے یہ آسان ہو گا کہ میں
دوسری ثقافت والوں پر الزام لگاوں -
5:12 - 5:15اس تکلیف کے لیے جو میں نے محسوس کی،
-
5:15 - 5:16مگر جب میں گہرائی میں سوچوں،
-
5:16 - 5:19تو میں یہ بھی تسلیم کرتی ہوں
کہ سب سے زیادہ پر اثر، -
5:19 - 5:23مثبت، زندگی بدل دینے والے واقعات
جو میرے ساتھ پیش آئے -
5:23 - 5:25وہ ان لوگوں کی مرہونِ منت ہیں
جو مجھ سے مختلف ہیں۔ -
5:27 - 5:30اس موقع پر میں نے فیصلہ کیا کہ
مجھے خود کو مشکل میں ڈالنا ہے -
5:30 - 5:34اور ایک مقابلہ حسن میں حجاب
اور برقینی پہن کر حصہ لینا ہے۔ -
5:34 - 5:38میں نے اس کو خواتین کے لیے
ایک موقع کے طور پر دیکھا -
5:38 - 5:40جن کی نمائندگی میری طرح کم ہے۔
-
5:42 - 5:44اور اگرچہ میں نے مقابلے کا تاج نہیں جیتا،
-
5:44 - 5:47اس تجربے نے میرے لیے
بہت سے دروازے کھول دیے۔ -
5:47 - 5:51مجھے دنیا بھر سے خواتین کے پیغامات
اور ای ۔ میلز موصول ہو رہی تھیں، -
5:51 - 5:55جو مجھے بتا رہی تھیں کہ میں نے
اپنی سچائی کو اپنا کر ان کو متاثر کیا ہے۔ -
5:56 - 5:58دیگر "پہلے" آتے رہے۔
-
5:59 - 6:04مجھے فیشن گُرو کیتھرین روئٹفیلڈ نے
نیویارک آنے کی دعوت دی -
6:04 - 6:06میرے پہلے اداریے کی عکسبندی کے لیے۔
-
6:06 - 6:10یہ اسی وقت کی بات ہے جب میں
پہلی حجاب پہننے والی ماڈل بنی، -
6:10 - 6:11اور اپنے پہلے سال میں،
-
6:11 - 6:15میں نے نو فیشن رسالوں کے
سروق کو زینت بخشی۔ -
6:15 - 6:18یہ ہوا کے طوفان سے کم نہ تھا۔
-
6:18 - 6:20لیکن راتوں رات ملنے والی کامیابی کے ساتھ،
-
6:20 - 6:23ایک چیز تھی جو مستقل رہی --
-
6:23 - 6:27وہ یہ سوچ تھی کہ شاید
یہی چیز مجھے کاکوما واپس لائے، -
6:27 - 6:29وہ جگہ جسے میں گھر کہتی ہوں۔
-
6:31 - 6:35اور صرف چند ماہ پہلے، میرے ساتھ
ایک ناقابل یقین واقعہ پیش آیا۔ -
6:36 - 6:38میں ایک فوٹو شوٹ کے لیے نیویارک میں تھی،
-
6:38 - 6:41جب میری ملاقات جنوبی سوڈان کی
ماڈل ادت اخیچ سے ہوئی۔ -
6:42 - 6:45جس کی پیدائش بھی یہاں کاکوما میں ہوئی تھی۔
-
6:46 - 6:50یہ واقعہ اپنے آپ میں امید کی تعریف ہے۔
-
6:50 - 6:52میرا مطلب، آپ صرف تصور کریں:
-
6:52 - 6:56ایک ہی پناہ گزین کیمپ میں
پیدا ہونے والی دو لڑکیاں، -
6:56 - 7:00بچھڑنے کے بعد پہلی بار برطانوی "ووگ" کے
سروق پر دوبارہ اکٹھی ہوئیں۔ -
7:01 - 7:06(تالیاں اور خوشی کے نعرے)
-
7:07 - 7:11مجھے یونیسف کے ساتھ اشتراک کا
منفرد اعزاز دیا گیا، -
7:11 - 7:14اس کام کو براہ راست جانتے ہوئے جو وہ
ضرورت مند بچوں کے لیے کرتے ہیں۔ -
7:15 - 7:17اور میں چایتی ہوں آپ یاد رکھیں
-
7:17 - 7:20کہ اگرچہ یہاں موجود بچے پناہ گزین ہیں،
-
7:21 - 7:23وہ بچے ہیں۔
-
7:23 - 7:28وہ مستحق ہیں ان تمام موقعوں کے، کہ وہ
پھلیں پھولیں، امید رکھیں، خواب دیکھیں -- -
7:29 - 7:31کامیاب ہونے کے۔
-
7:33 - 7:37میری کہانی بالکل یہاں کاکوما
پناہ گزین کیمپ میں شروع ہوئی، -
7:37 - 7:39امید کی ایک جگہ۔
-
7:40 - 7:41شکریہ۔
-
7:41 - 7:45(تالیاں)
- Title:
- میں پناہ گزین بچی سے بین الاقوامی ماڈل کیسے بنی
- Speaker:
- حلیمہ ادن
- Description:
-
حلیمہ ادن نے تاریخ رقم کی جب وہ ووگ رسالے کے سروق پر پہلی حجاب پہننے والی ماڈل بنی۔ اب وہ کینیا کے کاکوما پناہ گزین کیمپ واپس آئی ہے -- جہاں وہ پیدا ہوئی اور سات سال کی عمر تک رہی -- ایک متاثرکن پیغام پھیلانے کہ پناہ گزین بچی سے بین الاقوامی ماڈل تک کے سفر میں اس نے کیا کیا سیکھا۔
- Video Language:
- English
- Team:
- closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 07:58
Umar Anjum approved Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum accepted Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for How I went from child refugee to international model |