یہ میں ہوں سات سال کی عمر میں۔
اور یہ بھی میں ہوں۔
(تالیاں اور خوشی کے نعرے)
یہاں کاکوما پناہ گزین کیمپ میں کھڑے ہونا
بہت غیرحقیقی محسوس ہو رہا ہے،
اور میں جذبات سے مغلوب ہوں۔
بالکل یہی میدان ہیں جہاں میں پیدا ہوئی
اور اپنی زندگی کے پہلے سات سال گزارے۔
میرا خیال ہے کہ بہت لوگ یہ
سن کر حیران ہیں
کہ یہاں کاکوما میں
میری بہت اچھی پرورش ہوئی۔
مگر میں خوش تھی،
میں ہوشیار تھی، میرے دوست تھے
اور سب سے بڑھ کر،
مجھے روشن مستقبل کی امید تھی۔
کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے لیے
رکاوٹیں نہیں تھیں۔
کیا کہوں، کیسی کیسی مشکلات تھیں۔
کبھی کبھار مجھے ملیریا ہو جاتا تھا
اور ہمیشہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ
ہمارا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔
مگر جو بھائی چارے کا احساس
یہاں کاکوما میں ہے
اور وہ فخر جس کے یہاں سب مالک ہیں
وہ بے مثال ہے۔
جب میں چھوٹی تھی، مجھے جھگڑوں کا
اچانک شروع ہو جانا یاد ہے۔
ایسا عام طور پر ہوتا ہے
جب لوگ مختلف پس منظر سے آتے ہیں
اور ایک زبان نہیں بولتے۔
آخرکار، سواحلی --
یہاں کی مرکزی زبان --
ہماری دلیلِ مشترک بنی۔
میں نے کیمپ میں موجود بچوں سے دوستی کی
اور کسی حد تک ان کی ثقافت کو بھی
اپنانا شروع کیا،
کرسمس جیسے تہوار منانا، اگرچہ میری پرورش
مسلمان کے طور پر کی گئی تھی۔
دوسرے بچے بھی میری ثقافت کو اپناتے تھے،
کبھی کبھار تو میرے ساتھ
نماز بھی ادا کرتے تھے۔
بچے ہونے کے ناطے، اکٹھا ہونا آسان تھا،
اپنے سب عقائد کو ملا کر
اپنا منفرد کثیرالثقافتی ماحول بنانا۔
میرا نام حلیمہ ادن ہے
میں ایک سیاہ فام، کینیا سے تعلق رکھنے والی
صومالی-امریکی مسلمان ہوں۔
(تالیاں)
کچھ لوگوں نے کہا
میں بنیاد ڈالنے والی ہوں --
میں اپنے ہائی سکول کی پہلی مسلمان
"ہوم کمنگ" ملکہ تھی،
اپنے کالج کی پہلی صومالی طالب علم سینیٹر
اور بہت سی جگہوں پر
پہلی حجاب پہننے والی خاتون تھی،
جیسے مِس مینیسوٹا امریکہ کا مقابلہ حسن،
مِلان اور نیویارک فیشن ویک کے رن وے پر
اور یہاں تک کہ برطانوی رسالہ "ووگ"
کے تاریخی سروق پر بھی۔
جیسے آپ دیکھ سکتے ہیں،
میں خوفزدہ نہیں ہوں پہل کرنے میں،
خود سے قدم آگے بڑھانے میں،
خدشات مول لینے اور تبدیلی کے لیے،
کیونکہ اقلیت ہونا یہی تو ہے۔
یہ اپنی ذات کو استعمال کرنا ہے
تبدیلی لانے کے لیے
اور تنوع کی طاقت کی انسانی شبیہ بننا ہے۔
اور اب میں اپنے مقام کو قبولیت کا
اہم پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہوں۔
لیکن یہ ہمیشہ سے آسان نہیں رہا۔
جب ہم پہلی بار امریکہ آئے اور
سینٹ لوئس، مِسوری کو اپنا گھر بنایا،
مجھے یاد ہے میں نے اپنی والدہ سے پوچھا،
"کیا یہ واقعی امریکہ ہے؟"
کچھ چیزیں افسوسناک طور پرجانی پہچانی تھیں،
جیسے رات کو گولیوں کی آوازیں
اور گلیوں میں دکھائی دینے والی مفلسی۔
مگر کچھ چیزیں بہت مختلف بھی تھیں۔
جیسے جب میں نے پہلی جماعت شروع کی،
میں نے دیکھا کہ کیسے بچے
گروہ بنا کر کھیلتے ہیں۔
امریکہ میں، ہم انہیں "منڈلیاں" کہتے ہیں۔
یہاں پر ہم سب اکھٹے کھیلتے تھے۔
جنسی فرق کے بغیر،
اور یقینی طور پر نسلی فرق کے بغیر۔
مجھے خود سے پوچھنا یاد ہے،
"ان کو سواحلی کیوں سمجھ نہیں آتی؟
سواحلی وہ زبان ہے جو
لوگوں کو قریب لاتی ہے۔"
حالات کی ستم ظریفی کہ،
جس سکول میں میرا داخلہ ہوا وہاں
انگریزی سکھانے والا پروگرام نہیں تھا۔
لہٰذا میں روزانہ اٹھتی،
سکول جاتی، اپنے ڈیسک پر بیٹھتی
اور ایک لفظ نہ سیکھتی۔
اس موقع پر میں نے مایوس ہونا شروع کر دیا،
اور میری سب سے بڑی خواہش
کاکوما واپس جانا تھی،
ایک پناہ گزین کیمپ میں۔
جلد ہی میری والدہ کو پتہ چلا کہ
کئی صومالیوں کو پناہ ملی ہے
مینیسوٹا کے ایک چھوٹے قصبے میں۔
تو جب میں آٹھ سال کی تھی،
ہم مینیسوٹا آ گئے۔
میری زندگی تبدیل ہوئی، جب میں دوسرے
طالب علموں سے ملی جو صومالی بولتے تھے،
ایسے سکول میں گئی جہاں
انگریزی سکھانے والا پروگرام تھا
اور ایسے اساتذہ ملے جو
حد سے بڑھ کر مدد کرتے تھے،
سکول کے اوقات کے بعد اور
کھانے کے وقفے کے دوران ٹھہرتے،
کلاس میں میری کامیابی کے لیے
خود کو وقف کیے ہوئے۔
پناہ گزین بچی ہونے نے مجھے سکھایا کہ
انسان ہر چیز سے محروم ہو سکتا ہے:
کھانا، چھت، پینے کا صاف پانی،
حتٰی کہ دوستی سے بھی،
لیکن وہ ایک چیز جو کوئی
آپ سے چھین نہیں سکتا
وہ آپ کی تعلیم ہے۔
لہٰذا میں نے پڑھائی کو
اپنی پہلی ترجیح بنا لیا
اور جلد ہی کلاس میں آگے بڑھنے لگی۔
جیسے میں بڑی ہوئی، مجھے
دوسروں کے بارے میں زیادہ آگاہی ہوئی
اور یہ کہ وہ میرے پس منظر
اور نسل کو کیسے دیکھتے ہیں۔
خاص طور پر جب میں نے
سر ڈھانپنا شروع کیا، جسے حجاب کہتے ہیں۔
جب میں نے اسے پہننا شروع کیا،
تو میں پر جوش تھی۔
میں اپنی والدہ کے حجاب کی تعریف کرتی تھی
اور انکی خوبصورتی کی تقلید کرنا چاہتی تھی۔
لیکن جب میں نے مڈل سکول شروع کیا،
طالب علم مجھے تنگ کرتے تھے
کہ میرے بال نہیں ہیں،
لہٰذا ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے،
میں ان کو اپنے بال دکھانے لگی --
اگرچہ یہ میرے عقائد کے خلاف تھا، مگر میں
نے دباؤ میں آ کر ایسا کیا۔
اس وقت میں شدّت سے
گُھل ملِ جانا چاہتی تھی۔
جب میں مذہب، نسل اور شناخت
کے مسائل پر غور کرتی ہوں
تو بہت سی نکلیف دہ یادیں ذہن میں آتی ہیں۔
میرے لیے یہ آسان ہو گا کہ میں
دوسری ثقافت والوں پر الزام لگاوں
اس تکلیف کے لیے جو میں نے محسوس کی،
مگر جب میں گہرائی میں سوچوں،
تو میں یہ بھی تسلیم کرتی ہوں
کہ سب سے زیادہ پر اثر،
مثبت، زندگی بدل دینے والے واقعات
جو میرے ساتھ پیش آئے
وہ ان لوگوں کی مرہونِ منت ہیں
جو مجھ سے مختلف ہیں۔
اس موقع پر میں نے فیصلہ کیا کہ
مجھے خود کو مشکل میں ڈالنا ہے
اور ایک مقابلہ حسن میں حجاب
اور برقینی پہن کر حصہ لینا ہے۔
میں نے اس کو خواتین کے لیے
ایک موقع کے طور پر دیکھا
جن کی نمائندگی میری طرح کم ہے۔
اور اگرچہ میں نے مقابلے کا تاج نہیں جیتا،
اس تجربے نے میرے لیے
بہت سے دروازے کھول دیے۔
مجھے دنیا بھر سے خواتین کے پیغامات
اور ای ۔ میلز موصول ہو رہی تھیں،
جو مجھے بتا رہی تھیں کہ میں نے
اپنی سچائی کو اپنا کر ان کو متاثر کیا ہے۔
دیگر "پہلے" آتے رہے۔
مجھے فیشن گُرو کیتھرین روئٹفیلڈ نے
نیویارک آنے کی دعوت دی
میرے پہلے اداریے کی عکسبندی کے لیے۔
یہ اسی وقت کی بات ہے جب میں
پہلی حجاب پہننے والی ماڈل بنی،
اور اپنے پہلے سال میں،
میں نے نو فیشن رسالوں کے
سروق کو زینت بخشی۔
یہ ہوا کے طوفان سے کم نہ تھا۔
لیکن راتوں رات ملنے والی کامیابی کے ساتھ،
ایک چیز تھی جو مستقل رہی --
وہ یہ سوچ تھی کہ شاید
یہی چیز مجھے کاکوما واپس لائے،
وہ جگہ جسے میں گھر کہتی ہوں۔
اور صرف چند ماہ پہلے، میرے ساتھ
ایک ناقابل یقین واقعہ پیش آیا۔
میں ایک فوٹو شوٹ کے لیے نیویارک میں تھی،
جب میری ملاقات جنوبی سوڈان کی
ماڈل ادت اخیچ سے ہوئی۔
جس کی پیدائش بھی یہاں کاکوما میں ہوئی تھی۔
یہ واقعہ اپنے آپ میں امید کی تعریف ہے۔
میرا مطلب، آپ صرف تصور کریں:
ایک ہی پناہ گزین کیمپ میں
پیدا ہونے والی دو لڑکیاں،
بچھڑنے کے بعد پہلی بار برطانوی "ووگ" کے
سروق پر دوبارہ اکٹھی ہوئیں۔
(تالیاں اور خوشی کے نعرے)
مجھے یونیسف کے ساتھ اشتراک کا
منفرد اعزاز دیا گیا،
اس کام کو براہ راست جانتے ہوئے جو وہ
ضرورت مند بچوں کے لیے کرتے ہیں۔
اور میں چایتی ہوں آپ یاد رکھیں
کہ اگرچہ یہاں موجود بچے پناہ گزین ہیں،
وہ بچے ہیں۔
وہ مستحق ہیں ان تمام موقعوں کے، کہ وہ
پھلیں پھولیں، امید رکھیں، خواب دیکھیں --
کامیاب ہونے کے۔
میری کہانی بالکل یہاں کاکوما
پناہ گزین کیمپ میں شروع ہوئی،
امید کی ایک جگہ۔
شکریہ۔
(تالیاں)