ہینس روزلنگ پیش کرتے ہیں وہ بہترین اعداد و شمار جن کا مشاہدہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا
-
0:00 - 0:04کوئی 10 سال پہلے میں نے سویڈن کے انڈر گریجویٹ طلبہ کو
-
0:04 - 0:08عالمی ترقی پڑھانے کا کام اپنے ذمہ لیا۔ یہ افریقہ میں بھوک کے متعلق تحقیق کرنے والے افریقی
-
0:08 - 0:12اداروں کے ساتھ 20 سال تک وابستگی کے بعد کی بات ہے، لہٰذا مجھ سے یہ توقع کی
-
0:12 - 0:16جا رہی تھی کہ مجھے دنیا کے متعلق تھوڑا بہت علم ہوگا۔
-
0:16 - 0:21میں نے اپنی میڈیکل یونیورسٹی، کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ، میں انڈر گریجویٹ کی
-
0:21 - 0:25سطح کا ایک کورس، عالمی صحت، پڑھانا شروع کر دیا۔ لیکن جب آپ کو اس قسم کا موقع
-
0:25 - 0:28ملتا ہے، تو آپ کچھ گھبرا جاتے ہیں۔ میں نے سوچا، ہمارے پاس آنے والے ان طلبہ
-
0:28 - 0:31کے پاس سویڈش کالجوں کے تعلیمی نظام کے اعلٰی ترین گریڈ ہیں ۔۔ لہٰذا ہوسکتا ہے وہ ہر اس چیز
-
0:31 - 0:34کے متعلق جانتے ہوں جن کا میں انہیں درس دوں گا۔ چنانچہ میں نے ان کی آمد
-
0:34 - 0:38پر ایک پیشگی امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔
-
0:38 - 0:41اور ایک سوال جس سے میں نے خود بھی بہت کچھ سیکھا یہ تھا:
-
0:41 - 0:45"ان پانچ جوڑوں میں سے کس ملک میں سب سے زیادہ بچوں کی شرحِ اموات ہے؟"
-
0:45 - 0:49اور میں نے انہیں اکٹھا رکھا تھا، چنانچہ ملکوں کے ہر جوڑے میں سے،♫
-
0:49 - 0:54ایک دوسرے کے مقابلے دوگنی شرح اموات رکھتا ہے۔ اور اس کا مطلب ہے
-
0:54 - 0:59کہ اعداد و شمار کی غیر یقینی صورت حال سے یہ کہیں زیادہ بڑا فرق ہے۔
-
0:59 - 1:01میں یہاں آپ کا امتحان نہیں لوں گا، لیکن یہ ملک ترکی تھا،
-
1:01 - 1:06جس میں سب سے زیادہ شرح ہے، پھر پولینڈ، روس، پاکستان اور جنوبی افریقہ ہیں۔
-
1:06 - 1:09اور سویڈش طلبہ کے نتائج یہ تھے۔ میں نے اسے کامیابی سے کر لیا چنانچہ
-
1:09 - 1:12میرے اعتماد کو سہارا ملا، جو پہلے کافی کم تھا، اور میں خوش ہو گیا،
-
1:12 - 1:16بلاشبہ: پانچ ممکنہ میں سے 1.8 درست جواب۔ اس سے مراد ہے کہ بین الاقوامی صحت
-
1:16 - 1:19کے پروفیسر کی جگہ کی واقعی ضرورت تھی ۔۔۔
-
1:19 - 1:21(قہقہے) اور میرے کورس کی بھی۔
-
1:21 - 1:25لیکن ایک دن رات گئے جب میں رپورٹ مرتب کر رہا تھا مجھے حقیقت میں
-
1:25 - 1:29اپنی دریافت کا احساس ہوا۔ میں نے ظاہر کیا تھا کہ سویڈن کے اعلٰی ترین طلبہ
-
1:29 - 1:34کی دنیا کے متعلق معلومات، شماریات کی رو سے چمپانزیوں
-
1:34 - 1:36سے بھی غیر معمولی حد تک کم تھیں۔
-
1:36 - 1:38(قہقہے)۔
-
1:38 - 1:42کیونکہ چمپانزی نصف درست جواب دیتے اگر میں انہیں سری لنکا
-
1:42 - 1:45اور ترکی کے نام سے دو کیلے دے دیتا۔ ان معاملوں میں وہ نصف درست ہوتے۔
-
1:45 - 1:49لیکن طلبہ اس سطح تک نہیں پہنچے۔ میرے لئے مسئلہ لاعلمی نہیں تھا:
-
1:49 - 1:52یہ پہلے سے قائم شدہ تصورات تھے۔
-
1:52 - 1:56میں نے کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ کے پروفیسروں کا بھی ایک غیر اخلاقی مطالعہ سرانجام دیا۔
-
1:56 - 1:57(قہقہے)
-
1:57 - 1:59۔۔ جو طب کے میدان میں نوبل انعام دیتے ہیں،
-
1:59 - 2:01اور وہ اس معاملے میں چمپانزی کے برابر تھے۔
-
2:01 - 2:04(قہقہے)۔
-
2:04 - 2:08اس موقع پر مجھے احساس ہوا کہ رابطے کی واقعی ضرورت تھی،
-
2:08 - 2:11کیونکہ دنیا کی معلومات اور ہر ملک میں بچوں کی صحت کے
-
2:11 - 2:14اعداد و شمار ہر کوئی جانتا ہے۔
-
2:14 - 2:19ہم نے یہ سافٹ ویٹر بنایا جس میں یوں نظر آتا ہے: یہاں ہر بلبلہ ایک ملک ہے۔
-
2:19 - 2:25یہاں پر یہ ملک چین ہے۔ یہ بھارت ہے۔
-
2:25 - 2:31بلبلے کا سائز آبادی کو ظاہر کرتا ہے اور اس خطِ مستقیم پر میں نے شرحِ بارآوری رکھی ہے۔
-
2:31 - 2:34کیونکہ میرے طلبہ نے دنیا کے متعلق وہی کچھ کہا جو ان کے تصور میں تھا
-
2:34 - 2:36اور میں نے ان سے پوچھا
-
2:36 - 2:38"تمہارا دنیا کے متعلق حقیقت میں کیا خیال ہے؟"
-
2:38 - 2:42سب سے پہلے تو میں یہ دریافت کیا کہ درسی کتاب بنیادی طور پر ٹن ٹن تھی۔
-
2:42 - 2:43(قہقہے)۔
-
2:43 - 2:46اور ان کا جواب تھا، "دنیا ابھی تک 'ہم' اور 'وہ' پر مشتمل ہے۔
-
2:46 - 2:49اور ہم مغربی دنیا ہیں جبکہ وہ تیسری دنیا ہیں۔"
-
2:49 - 2:52"اور مغربی دنیا سے تمہاری کیا مراد ہے؟" میں نے پوچھا۔
-
2:52 - 2:57"اس سے مراد طویل عمر اور مختصر گھرانہ ہے، اور تیسری دنیا میں مختصر زندگی اور طویل گھرانہ ہے۔"
-
2:57 - 3:03چنانچہ میں نے وہاں یہی کچھ دکھایا۔ میں نے شرحِ بارآوری کو یہاں رکھا یعنی فی عورت بچوں کی تعداد،
-
3:03 - 3:07ایک، دو، تین، چار تقریباً آٹھ تک بچے فی عورت۔
-
3:07 - 3:13ہمارے پاس تمام ممالک میں گھرانوں کے سائز کے بڑے اچھے اعداد و شمار 1962 یا تقریباً 1960 سے
-
3:13 - 3:16موجود ہیں۔ غلطی کا امکان کم ہے۔ یہاں میں پیدائش کے وقت متوقع عمر رکھتا ہوں،
-
3:16 - 3:20جو بعض ممالک میں 30 سال سے لے کر تقریباً 70 سال تک ہے۔
-
3:20 - 3:231962 میں یہاں حقیقت میں ایسے ملکوں کا ایک گروپ موجود تھا،
-
3:23 - 3:28جو صنعتی ملک تھے اور ان میں چھوٹے گھرانے اور طویل عمریں پائی جاتی تھیں۔
-
3:28 - 3:30اور یہ ترقی پذیر ملک تھے:
-
3:30 - 3:33ان کے بڑے گھرانے تھے اور نسبتاً مختصر زندگیاں تھیں۔
-
3:33 - 3:37اب 1962 سے کیا فرق پڑا ہے؟ ہم فرق دیکھنا چاہتے ہیں۔
-
3:37 - 3:40کیا طلبہ درست ہیں؟ کیا ابھی تک دو قسموں کے ملک پائے جاتے ہیں؟
-
3:41 - 3:44یا کیا ان ترقی پذیر ممالک میں گھرانوں کا سائز مختصر ہوگیا ہے اور وہ یہاں رہتے ہیں؟
-
3:44 - 3:46یا کیا ان کی عمریں طویل ہو گئی ہیں اور وہ وہاں رہتے ہیں؟
-
3:46 - 3:49چلیں دیکھتے ہیں۔ ہم نے اس وقت دنیا کو روک دیا۔ یہ سب اقوامِ متحدہ کے شماریات ہیں
-
3:49 - 3:52جو دستیاب ہیں۔ یہ رہے۔ کیا آپ انہیں دیکھ سکتے ہیں؟
-
3:52 - 3:55وہ رہا چین، جہاں صحت کی سہولیات بہتر ہو رہی ہیں، بہتری آ رہی ہے۔
-
3:55 - 3:58تمام سبز لاطینی امریکا کے ملک مختصر گھرانوں کی جانب گامزن ہیں۔
-
3:58 - 4:01زرد رنگ میں یہاں عرب ممالک ہیں،
-
4:01 - 4:05ان کے گھرانے بڑے ہیں لیکن ان کی طویل زندگی نہیں لیکن بڑے گھرانے بھی نہیں۔
-
4:05 - 4:08افریقی وہاں نیچے سبز رنگ میں ہیں۔ وہ ابھی تک وہیں ہیں۔
-
4:08 - 4:11یہ بھارت ہے۔ انڈونیشیا بھی تیزی سے اس سمت بڑھ رہا ہے۔
-
4:11 - 4:12(قہقہے)۔
-
4:12 - 4:15اور 80 کی دہائی میں، آپ بنگلہ دیش کو ابھی تک وہاں افریقی ممالک کی صف میں دیکھ سکتے ہیں۔
-
4:15 - 4:18لیکن اب، بنگلہ دیش ۔۔ یہ ایک معجزہ ہے جو 80 کی دہائی میں ہوا:
-
4:18 - 4:21اماموں نے خاندانی منصوبہ بندی کی تبلیغ شروع کر دی۔
-
4:21 - 4:26وہ اس کونے میں پہنچ گیا۔ اور 90 کی دہائی میں ہم نے بھیانک ایچ آئی وی بیماری دیکھی
-
4:26 - 4:29جس نے افریقی ممالک کی متوقع عمر کو کم کر دیا
-
4:29 - 4:33اور وہ سب کونے میں اوپر آگئے،
-
4:33 - 4:37جہاں ہمارے پاس طویل زندگیاں اور مختصر گھرانہ ہے، اور ہمارے پاس ایک مکمل نئی دنیا ہے۔
-
4:37 - 4:50(تالیاں)۔
-
4:50 - 4:55میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور ویت نام کے درمیان براہ راست موازنہ کرتا ہوں۔
-
4:55 - 5:001964: امریکا میں مختصر گھرانے اور طویل عمر پائی جاتی تھی؛
-
5:00 - 5:04ویت نام میں بڑے گھرانے اور مختصر زندگیاں تھیں۔ اور پھر یہ ہوا:
-
5:04 - 5:10جنگ کے دوران اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اموات کے باوجود،
-
5:10 - 5:13متوقع عمر میں بہتری نظر آئی۔ سال کے اختتام تک،
-
5:13 - 5:16ویت نام میں خاندانی منصوبہ بندی کا آغاز ہو چکا تھا اور وہ مختصر گھرانوں کی جانب مائل ہوئے۔
-
5:16 - 5:19اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں طویل عمر،
-
5:19 - 5:22اور گھرانے کا وہی سائز رہا۔ اور اب 80 کی دہائی میں،
-
5:22 - 5:25انہوں نے کمیونسٹ منصوبہ بندی ترک کردی اور مارکیٹ پر مبنی معیشت میں شامل ہوگئے،
-
5:25 - 5:29جو کہ سماجی زندگی سے بھی تیز رفتار ہے۔ اور آج، 2003 میں ویت نام میں ہمارے پاس
-
5:29 - 5:34وہی متوقع عمر اور گھرانے کا وہی سائز ہے جو 1974 میں
-
5:34 - 5:41جنگ کے اختتام پر امریکا میں پایا جاتا تھا۔
-
5:41 - 5:45میرا خیال ہے کہ اگر ہم اعداد و شمار کو نہ دیکھیں تو ہم سب
-
5:45 - 5:49ایشیا میں آنے والی غیر معمولی تبدیلی کا غلط تخمینہ لگائیں گے, جو کہ
-
5:49 - 5:53اقتصادی تبدیلی میں ہمارے مشاہدے سے قبل سماجی تبدیلی میں تھا۔
-
5:53 - 5:58آئیں ایک اور طریقے کو دیکھتے ہیں جس میں ہم دنیا میں آمدنی کی تقسیم
-
5:58 - 6:05کو دکھا سکتے ہیں۔ یہ دنیا میں لوگوں کی آمدنی کی تقسیم ہے۔
-
6:05 - 6:10ایک ڈالر، 10 ڈالر یا 100 ڈالر یومیہ۔
-
6:10 - 6:14امیر اور غریب کے درمیان مزید کوئی فرق نہیں رہا۔ یہ ایک مفروضہ ہے۔
-
6:14 - 6:18یہاں تھوڑا سا ابھار ہے۔ لیکن ہر جگہ لوگ ہیں۔
-
6:19 - 6:23اور اگر ہم دیکھیں کہ آمدنی کہاں ختم ہوتی ہے ۔۔ آمدنی ۔۔
-
6:23 - 6:29یہ دنیا کی 100 فیصد سالانہ آمدنی ہے۔ اور امیر ترین 20 فیصد،
-
6:29 - 6:36اس میں سے تقریباً 74 فیصد لے جاتے ہیں۔ اور غریب ترین 20 فیصد
-
6:36 - 6:41تقریباً دو فیصد لے کر جاتے ہیں۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی پذیر
-
6:41 - 6:45ممالک کا تصور انتہائی مشکوک ہے۔ ہم امداد کے متعلق یوں سوچتے ہیں کہ یہ لوگ
-
6:45 - 6:50یہاں ان لوگوں کو امداد دے رہے ہیں۔ لیکن درمیان میں، ہمارے پاس دنیا کی بیشتر
-
6:50 - 6:54آبادی ہے اور اب ان کے پاس 24 فیصد آمدنی ہے۔
-
6:54 - 6:58ہم نے یہ بات دیگر صورتوں میں سن رکھی ہے۔ اور یہ کون لوگ ہیں؟
-
6:58 - 7:02مختلف ملک کہاں ہیں؟ میں آپ کو افریقہ دکھا سکتا ہوں۔
-
7:02 - 7:07یہ ہے افریقہ۔ جہاں دنیا کی 10 فیصد آبادی زیادہ تر غربت میں زندگی بسر کرتی ہے۔
-
7:07 - 7:12یہ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) ہے۔ امیر ملک۔ اقوام متحدہ کو عطیہ دینے والے ملکوں کا کلب۔
-
7:12 - 7:17اور وہ یہاں اس طرف ہیں۔ افریقہ اور او ای سی ڈی ممالک کے درمیان کافی کچھ مشترک ہے۔
-
7:17 - 7:20اور یہ لاطینی امریکا ہے۔ اس کے پاس اس دنیا میں سب کچھ ہے،
-
7:20 - 7:23لاطینی امریکا میں غریب ترین لوگوں سے لے کر امیر ترین لوگ بستے ہیں۔
-
7:23 - 7:28اور ان سب سے بڑھ کر، ہم مشرقی یورپ، مشرقی ایشیا،
-
7:28 - 7:33اور جنوبی ایشیا کو رکھتے ہیں۔ اور اگر وقت میں واپس جائیں تو کیسا محسوس ہوگا،
-
7:33 - 7:38مثلاً 1970 میں؟ اس وقت یہ زیادہ بڑا ابھار تھا۔
-
7:38 - 7:42اور ہمارے پاس مکمل غربت میں زندگی گزارنے والے ایشیائی باشندے تھے۔
-
7:42 - 7:49دنیا کا مسئلہ ایشیا میں پائی جانے والی غربت تھی۔ اور اب اگر میں دنیا کو آگے بڑھاؤں
-
7:49 - 7:52آپ دیکھیں گے کہ آبادی کے اضافے کے ساتھ، ایشیا میں کروڑوں لوگ غربت کے چنگل سے نکل
-
7:52 - 7:55گئے ہیں جبکہ کچھ دوسرے لوگ غربت میں جا پھنسے ہیں، اور یہی ہمارا آج کا
-
7:55 - 7:58نمونہ ہے۔
-
7:58 - 8:02اور عالمی بینک کا بہترین تخمینہ یہ ہے کہ ایسا ہی ہوگا،
-
8:02 - 8:06اور ہماری دنیا منقسم نہیں ہوگی۔ دنیا میں زیادہ تر لوگ درمیان میں رہیں گے۔
-
8:06 - 8:08بلاشبہ، یہاں یہ ایک لوگارتھمی پیمانہ ہے،
-
8:08 - 8:13لیکن معیشت کا ہمارا تصور فیصد کے ہمراہ نمو پر مبنی ہے۔ ہم اسے
-
8:13 - 8:19صدویہ (فیصد کی شرح) کے ایک امکان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر میں اسے تبدیل کردوں، اور میں
-
8:19 - 8:23گھرانے کی آمدنی کی بجائے فی کس مجموعی ملکی پیداوار(GDP) لوں، اور میں ان
-
8:23 - 8:29انفرادی اعداد و شمار کو مجموعی ملکی پیداوار کے علاقائی اعداد و شمار میں بدل دوں،
-
8:29 - 8:33اور میں علاقوں کو یہاں نیچے لے جاؤں، تو بلبلے کا سائز پھر بھی آبادی ہی رہے گا۔
-
8:33 - 8:36اور آپ کے پاس او ای سی ڈی وہاں ہیں، اور سب صحارا افریقہ وہاں ہے،
-
8:36 - 8:39اور ہم عرب ممالک کو وہاں لے جاتے ہیں،
-
8:39 - 8:43افریقہ اور ایشیا دونوں سے آتے ہوئے، اور ہم انہیں الگ رکھ دیتے ہیں،
-
8:43 - 8:48اور ہم اس خطِ مستقیم کو پھیلا سکتے ہیں، اور میں اسے یہاں اک نئی جہت دے سکتا ہوں،
-
8:48 - 8:51جس میں سماجی اقدار کو وہاں جمع کرتے ہوئے، بچوں کی بقا۔
-
8:51 - 8:56اب میں نے اس خط مستقیم پر رقم رکھ دی، اور میرے پاس بچوں کی بقا کا امکان ہے۔
-
8:56 - 9:00بعض ممالک میں، 99.7 فیصد بچے صرف پانچ سال کی عمر تک زندہ رہتے ہیں؛
-
9:00 - 9:04دیگر میں صرف 70 سال تک۔ اور یہاں او ای سی ڈی، لاطینی امریکا،
-
9:04 - 9:08مشرقی یورپ، مشرقی ایشیا، عرب ممالک، جنوبی ایشیا
-
9:08 - 9:12اور سب صحارا افریقہ کے ممالک میں فرق نظر آتا ہے۔
-
9:12 - 9:17بچوں کی بقا اور رقم کے درمیان ایک جہت بہت مضبوط ہے۔
-
9:17 - 9:25لیکن میں سب صحارا افریقہ کے ممالک کو تقسیم کرنا چاہوں گا۔ وہاں صحت ہے اور اوپر بہتر صحت ہے۔
-
9:25 - 9:30میں یہاں جا کر سب صحارا افریقہ کے ممالک کو تقسیم کر سکتا ہوں۔
-
9:30 - 9:35اور جب یہ پھٹتا ہے تو اس ملک کے بلبلے کا سائز اس کی آبادی کے برابر ہے۔
-
9:35 - 9:39وہاں نیچے سیرا لیون۔ ماریشس وہاں اوپر۔ ماریشس وہ پہلا ملک تھا
-
9:39 - 9:42جس نے تجارتی پابندیوں سے جان چھڑا لی، اور وہ اپنی چینی فروخت کرنے کے قابل ہوئے۔
-
9:43 - 9:48وہ یورپ اور لاطینی امریکا کے عوام کے ساتھ مساوی شرائط پر اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات فروخت کرسکتے تھے۔
-
9:48 - 9:52افریقہ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اور گھانا یہاں مرکز میں ہے۔
-
9:52 - 9:55سیرا لیون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد۔
-
9:55 - 10:00یہاں یوگنڈا میں ترقیاتی امداد۔ وہاں سرمایہ کاری کا وقت
-
10:00 - 10:03آپ وہاں تعطیلات منانے جا سکتے ہیں۔ افریقہ کے اندر بہت بڑا فرق ہے
-
10:03 - 10:08جو ہم بمشکل ہی کبھی سمجھتے ہیں ۔۔ کہ ہر جگہ مساوات ہے۔
-
10:08 - 10:12میں جنوبی ایشیا کو یہاں تقسیم کر سکتا ہوں۔ بھارت وسط میں ایک بڑا بلبلہ ہے۔
-
10:12 - 10:16لیکن افغانستان اور سری لنکا کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔
-
10:16 - 10:20میں عرب ممالک کو تقسیم کر سکتا ہوں۔ وہ کیسے ہیں؟ وہی موسم، وہی ثقافت،
-
10:20 - 10:24وہی مذہب۔ بہت بڑا فرق۔ حتٰی کہ ہمسایوں کے درمیان بھی۔
-
10:24 - 10:29یمن، خانہ جنگی۔ متحدہ عرب امارات، رقم جو مساویانہ طور پر بہتر انداز سے استعمال کی گئی۔
-
10:29 - 10:36مفروضے کی طرح نہیں۔ اور اس میں ان غیر ملکی محنت کشوں کے تمام بچے بھی شامل ہیں جو ملک میں ہیں۔
-
10:36 - 10:40اعداد و شمار اکثر آپ کے تصور سے بہتر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اعداد و شمار بری چیز ہیں۔
-
10:41 - 10:43اس میں ایک غیر یقینی پن کا امکان ہے، لیکن ہم یہاں فرق دیکھ سکتے ہیں:
-
10:43 - 10:46کمبوڈیا، سنگاپور۔ اعداد و شمار کی کمزوری کے مقابلے میں
-
10:46 - 10:49فرق بہت بڑے ہیں۔ مشرقی یورپ:
-
10:49 - 10:55طویل عرصے تک سوویت معیشت میں شامل رہا لیکن دس سال بعد وہ باہر نکل آئے
-
10:55 - 10:58بہت بہت مختلف۔ اور وہ لاطینی امریکا ہے۔
-
10:58 - 11:02آج، ہمیں لاطینی امریکا میں صحت مند ملک تلاش کرنے کے لئے کیوبا نہیں جانا پڑتا۔
-
11:02 - 11:07آئندہ چند سالوں میں کیوبا کے مقابلے میں چلی میں بچوں کی شرحِ اموات کم ہوگی۔
-
11:07 - 11:10اور یہاں ہمارے پاس او ای سی ڈی کے زیادہ آمدنی والے ملک ہیں۔
-
11:10 - 11:14اور ہم یہاں دنیا کا مکمل نمونہ حاصل کرتے ہیں،
-
11:14 - 11:19جو کم و بیش اس طرح کا ہے۔ اور اگر ہم اس پر نظر ڈالیں،
-
11:19 - 11:25یہ کیسا لگتا ہے ۔۔ 1960 کی دنیا، یہ آگے بڑھ رہی ہے۔ 1960۔
-
11:25 - 11:28یہ ماؤزے تنگ ہے۔ وہ چین میں صحت لایا۔ اور پھر وہ مرگیا۔
-
11:28 - 11:33اور پھر ڈان ژیاؤ پنگ جس نے چین کو رقم دی اور انہیں واپس مرکزی دھارے میں لایا۔
-
11:33 - 11:37اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح ملک مختلف سمتیں اختیار کرتے ہیں،
-
11:37 - 11:41لہٰذا اس طرح کسی بھی ملک کی مثال لینا مشکل ہے جو
-
11:41 - 11:46دنیا کا نمونہ ظاہر کر سکے۔
-
11:46 - 11:52میں آپ کو واپس 1960 میں لانا چاہوں گا۔
-
11:52 - 12:02میں جنوبی کوریا، جو یہ ہے، کا برازیل سے موازنہ کرنا چاہتا ہوں،
-
12:02 - 12:07میرے لئے لیبل یہاں سے ختم ہو گیا ہے۔ اور میں وہاں موجود یوگنڈا
-
12:07 - 12:12کا موازنہ کرنا چاہتا ہوں۔ اور میں اسے آگے لے جا سکتا ہوں، اس طرح۔
-
12:12 - 12:21اور آپ کو دکھائی دے رہا ہوگا کہ جنوبی کوریا کیسے تیزی سے پیش رفت کرتا چلا جا رہا ہے،
-
12:21 - 12:24جبکہ برازیل کی رفتار کافی سست ہے۔
-
12:24 - 12:30اور اگر ہم دوبارہ واپس جائیں اور ان کے راستے بنا دیں، اس طرح،
-
12:30 - 12:34تو آپ دوبارہ دیکھیں گے کہ ترقی کی رفتار
-
12:34 - 12:40بہت، بہت مختلف ہے اور ملک کم و بیش اسی شرح سے بڑھ رہے ہیں
-
12:40 - 12:44جیسا کہ رقم اور صحت، لیکن یوں لگتا ہے کہ پہلے امیر ہونے کی بجائے
-
12:44 - 12:48اگر آپ پہلے صحت مند ہوں تو آپ کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہو سکتی ہے۔
-
12:49 - 12:53اور آپ کو یہ دکھانے کے لئے، آپ متحدہ عرب امارات کے راستے پر رکھ سکتے ہیں۔
-
12:53 - 12:56وہ یہاں سے آئے جو ایک معدنی ملک ہے۔ انہوں نے تمام تیل سے استفادہ کیا،
-
12:56 - 13:00انہوں نے رقم حاصل کر لی لیکن صحت تو سپر مارکیٹ میں نہیں خریدی جا سکتی۔
-
13:00 - 13:04آپ کو صحت میں سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو بچوں کو اسکول میں داخل کرانا پڑتا ہے۔
-
13:04 - 13:07آپ کو صحت کے عملے کو تربیت دینی پڑتی ہے۔ آپ کو آبادی کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہوتا ہے۔
-
13:07 - 13:10اور شیخ سید نے اس کام کو کافی اچھے طریقے سے سر انجام دیا۔
-
13:10 - 13:14اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے باوجود، وہ اپنے ملک کو یہاں اوپر لے آیا۔
-
13:14 - 13:18لہٰذا ہمارے پاس دنیا کی کہیں زیادہ مرکزی حیثیت موجود ہے،
-
13:18 - 13:20جہاں تمام ملکوں میں ماضی کی نسبت رقم کو بہتر جگہ استعمال
-
13:20 - 13:25کرنے کا رجحان ہے۔ اب کم و بیش یہی صورتحال ہے اگر آپ
-
13:25 - 13:32ملکوں کے اوسط اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں۔ وہ اس طرح ہیں۔
-
13:32 - 13:37اوسط اعداد و شمار کا استعمال ایک خطرناک عادت ہے کیونکہ ملکوں کے درمیان بہت
-
13:37 - 13:43سے فرق پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ، اگر میں جا کر یہاں دیکھوں تو
-
13:43 - 13:49ہمیں نظر آئے گا کہ یوگنڈا آج وہاں پہنچا ہے جہاں جنوبی کوریا 1960 میں کھڑا تھا۔
-
13:49 - 13:54اگر میں یوگنڈا کو تقسیم کردوں، تو یوگنڈا کے اندر بھی کافی فرق ہے۔ یہ یوگنڈا کے پانچ حصے ہیں۔
-
13:54 - 13:57یوگنڈا کے امیر ترین 20 فی صد باشندے یہاں ہیں۔
-
13:57 - 14:01غریب وہاں نیچے ہیں۔ اگر میں جنوبی افریقہ کو تقسیم کردوں، تو یہ بھی ایسا ہی ہے۔
-
14:01 - 14:06اگر میں نیچے جاؤں اور نائیجر کو دیکھوں، جہاں بھیانک قحط پڑا تھا،
-
14:06 - 14:11آخر میں، یہ اسی طرح ہے۔ نائیجر کے غریب ترین 20 فی صد وہاں ہیں،
-
14:11 - 14:14اور جنوبی افریقہ کے امیر ترین 20 فی صد وہاں ہیں،
-
14:14 - 14:19اور ہمارے پاس اس موضوع پر تبادلۂ خیال کا رجحان ہے کہ افریقہ کے لئے کیا حل ہونے چاہئیں۔
-
14:19 - 14:22دنیا کی ہر چیز افریقہ میں موجود ہے۔ اور آپ ان پانچوں حصوں میں ایچ آئی وی [دوا] تک
-
14:22 - 14:26سب کی رسائی کے متعلق اسی حکمت عملی سے تبادلۂ خیال نہیں کرسکتے جو یہاں
-
14:26 - 14:30نیچے ہے۔ دنیا کی بہتری تناظر میں ہونی چاہیے اور
-
14:30 - 14:35اسے علاقائی سطح پر کرنا غیر متعلقہ ہے۔
-
14:35 - 14:38ہمیں تفصیلات پر زیادہ توجہ صرف کرنی چاہیے۔
-
14:38 - 14:42ہم دیکھتے ہیں کہ طلبہ اسے استعمال کرتے ہوئے انتہائی پرجوش ہوجاتے ہیں۔
-
14:42 - 14:47اور یہاں تک کہ مزید پالیسی ساز اور تجارتی شعبہ جات اس بات کو دیکھنا چاہیں گے
-
14:47 - 14:51کہ دنیا کیسے بدل رہی ہے۔ اب، ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟
-
14:51 - 14:55ہم اپنے پاس موجود اعداد و شمار کو آخر استعمال کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے پاس اقوامِ متحدہ،
-
14:55 - 14:57قومی شماریاتی اداروں اور
-
14:57 - 15:01یونیورسٹیوں اور دیگر غیر سرکاری اداروں میں اعداد و شمار موجود ہیں۔
-
15:01 - 15:03کیونکہ یہ اعداد و شمار مختلف ڈیٹا بیسز میں پوشیدہ ہیں۔
-
15:03 - 15:08اور عوام اور انٹرنیٹ موجود ہے لیکن ہم ابھی تک اسے مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کر پائے۔
-
15:08 - 15:11دنیا میں بدلتی ہوئی معلومات جو ہم نے دیکھیں ان میں سرکاری امداد یافتہ
-
15:11 - 15:15شماریات شامل نہیں۔ بعض ایسے ویب صفحات ہیں، جیسا کہ یہ، لیکن وہ کچھ مواد ڈیٹا بیسز
-
15:15 - 15:21سے حاصل کرتے ہیں لیکن لوگ ان کی قیمت لگا دیتے ہیں اور ان میں
-
15:21 - 15:26احمقانہ پاس ورڈ اور بیزار کن شماریات ڈال دیتے ہیں۔
-
15:26 - 15:29(قہقہے)۔ (تالیاں)۔
-
15:29 - 15:33اور اس سے کام نہیں چلے گا۔ پھر، کس چیز کی ضرورت ہے؟ ہمارے پاس ڈیٹابیسز ہیں۔
-
15:33 - 15:37آپ کو نئی ڈیٹا بیس کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس ڈیزائن کے حیران کن آلات ہیں،
-
15:37 - 15:40اور ان میں نئے کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہم نے ایک غیر انتفاعی (نفع نہ کمانے والا) کام شروع کیا
-
15:40 - 15:45جسے ہم نے اعداد و شمار کو ڈیزائن سے منسلک کا نام دیا۔ ہم اسے فرق کا دھیان رکھنا (Gapminder) کہتے ہیں۔
-
15:45 - 15:48جو لندن زیر زمین ریلوے سے ادھار لیا گیا ہے جہاں وہ آپ کو خبردار کرنے کے لئے لکھتے ہیں،
-
15:48 - 15:51"فرق کا دھیان رکھیں۔" چنانچہ ہمارے نزدیک فرق کا دھیان رکھنا (Gapminder) نام موزوں تھا۔
-
15:51 - 15:55اور ہم نے وہ سافٹ ویئر لکھنا شروع کیا جو اعداد و شمار کو اس طرح منسلک کر سکتا تھا۔
-
15:55 - 16:01اور یہ اتنا مشکل نہیں تھا۔ اس میں چند سال لگے اور ہم نے اسے فعال سطح پر تیار کر لیا ہے۔
-
16:01 - 16:03آپ کوئی اعداد و شمار لے کر اس میں ڈال سکتے ہیں۔
-
16:03 - 16:08ہم اقوام متحدہ کے بعض اداروں کے اعداد و شمار کو آزاد کر رہے ہیں۔
-
16:08 - 16:12بعض ممالک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ڈیٹا بیسز دنیا کے پاس جا سکتی ہیں،
-
16:12 - 16:15لیکن ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک تلاش کا فعل ہے۔
-
16:15 - 16:20تلاش کا فعل جہاں ہم اعداد و شمار کی نقل کو ایک قابلِ تلاش بناوٹ میں ڈال کر
-
16:20 - 16:23اسے دنیا کے لئے پیش کر سکیں۔ اور جب ہم یہ کام کرنے لگیں تو ہم کیا باتیں سنیں گے؟
-
16:23 - 16:27میں نے بنیادی شماریاتی اکائیوں کے متعلق بشریات (انسانیات) نگاری کی ہے۔ ہر کسی کا کہنا ہے،
-
16:28 - 16:32"یہ ناممکن ہے۔ یہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری معلومات کی تفصیل اتنی
-
16:32 - 16:35غیر معمولی ہے کہ اسے باقی چیزوں کی مانند تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
-
16:35 - 16:40ہم یہ اعداد و شمار طلبہ اور دنیا کے تاجروں کو مفت نہیں دے سکتے۔"
-
16:40 - 16:43لیکن ہم یہی تو دیکھنا چاہتے ہیں، کیا نہیں؟
-
16:43 - 16:46سرکاری امداد سے تیار ہونے والے اعداد و شمار یہاں نیچے موجود ہیں۔
-
16:46 - 16:49اور ہم انٹرنیٹ پر پھول کھلانا چاہتے ہیں۔
-
16:49 - 16:54اور ان میں سے ایک اہم نقطہ انہیں قابلِ تلاش بنانا ہے اور پھر لوگ مختلف ڈیزائن آلات
-
16:54 - 16:56کے ذریعے اسے وہاں متحرک بنا سکتے ہیں۔
-
16:56 - 17:01اور میرے پاس آپ کیلئے ایک کافی اچھی خبر ہے۔ میرے پاس اچھی خبر یہ ہے کہ
-
17:01 - 17:05اقوامِ متحدہ شماریات کے موجودہ نئے سربراہ کا کہنا ہے یہ ناممکن نہیں۔
-
17:05 - 17:07ان کا صرف یہ کہنا ہے، "ہم یہ نہیں کر سکتے۔"
-
17:07 - 17:11(قہہقے)۔
-
17:11 - 17:13اور وہ کافی سمجھدار شخص ہے، ہے نا؟
-
17:13 - 17:15(قہقہے)۔
-
17:15 - 17:19چنانچہ آنے والے سالوں میں ہم اعداد و شمار میں بہت سی تبدیلیاں دیکھیں گے۔
-
17:19 - 17:23ہم آمدنی کی تقسیم کو مکمل طور پر نئے طریقوں سے دیکھ سکیں گے۔
-
17:23 - 17:28یہ 1970 میں چین میں آمدنی کی تقسیم ہے۔
-
17:29 - 17:34یہ 1970 میں ریاستہائے امریکا میں آمدنی کی تقسیم ہے۔
-
17:34 - 17:38تقریباً ان میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ اور اس کی کیا وجہ ہے؟
-
17:38 - 17:43اصل میں یہ ہوا ہے: کہ چین میں نمو جاری ہے، یہ اب مزید برابر نہیں رہی،
-
17:43 - 17:47اور یہ یہاں نظر آ رہی ہے، امریکا کو نظر انداز کرتے ہوئے۔
-
17:47 - 17:49بالکل کسی بھوت کی مانند، کیا نہیں؟
-
17:49 - 17:51(قہقہے)۔
-
17:51 - 18:01یہ کافی خوفناک منظر ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ تمام معلومات بہت اہم ہیں۔
-
18:01 - 18:07ہمیں واقعی اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے دیکھنے کی بجائے،
-
18:07 - 18:12میں اسے فی 1,000 انٹرنیٹ صارفین کو دکھانا چاہوں گا۔
-
18:12 - 18:17اس سافٹ ویئر میں، ہم تمام ملکوں سے باآسانی 500 کے قریب متغیرات تک رسائی کرتے ہیں۔
-
18:17 - 18:21اس کو تبدیل کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے،
-
18:21 - 18:26لیکن خطوطِ مستقیم پر، آپ کوئی بھی متغیرہ کافی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
-
18:26 - 18:31اور اصل چیز ڈیٹابیسز کی مفت دستیابی، انہیں
-
18:31 - 18:34قابلِ تلاش بنانا، اور دوسرے کلک سے، انہیں خاکوں کی بناوٹ میں تبدیل کرنا
-
18:34 - 18:39ہے جہاں آپ انہیں آسانی سے سمجھ لیں۔
-
18:39 - 18:42اب، ماہرینِ شماریات اسے پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ
-
18:42 - 18:51اس سے حقیقت ظاہر نہیں ہوگی؛ ہمارے پاس شماریاتی، تجزیاتی طریقے ہونا ضروری ہیں۔
-
18:51 - 18:54لیکن یہ مفروضہ قائم کرنے کی بات ہے۔
-
18:54 - 18:58میں اب دنیا کے ساتھ رابطہ ختم کرتا ہوں۔ وہ، انٹرنیٹ آ رہا ہے۔
-
18:58 - 19:02انٹرنیٹ کے استعمال کنندگان کی تعداد یوں بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ فی کس مجموعی ملکی پیداوار ہے۔
-
19:02 - 19:07اور یہ نئی ٹیکنالوجی کی آمد آمد ہے، لیکن حیران کن حد تک یہ ملکوں کی معیشت میں کیسے
-
19:07 - 19:12اپنی جگہ بنائے گی۔ اسی وجہ سے 100 ڈالر کا کمپیوٹر اتنا اہم ہوگا۔
-
19:12 - 19:15لیکن یہ ایک اچھا رجحان ہے۔
-
19:15 - 19:18یہ ایسا ہی ہے جیسے دنیا چپٹی ہوتی جار ہی ہو۔ کیا نہیں؟ یہ ملک
-
19:18 - 19:21معیشت سے زیادہ بوجھ اٹھا رہے ہیں اور آئندہ سال اس پر مزید کام کرنا
-
19:21 - 19:25بہت دلچسپ ہوگا کیونکہ میں چاہتا ہوں آپ سرکاری امداد سے حاصل
-
19:25 - 19:27ہونے والے تمام اعداد و شمار پر یہ کام کریں۔ آپ کا بہت شکریہ۔
-
19:28 - 19:31(تالیاں)
- Title:
- ہینس روزلنگ پیش کرتے ہیں وہ بہترین اعداد و شمار جن کا مشاہدہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا
- Speaker:
- Hans Rosling
- Description:
-
more » « less
آپ نے اس طرح پیش کی گئی معلومات کو کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ ڈراما اور کھیل کود کی نشر و اشاعت کی فوری ضرورت کے ساتھ ساتھ اعداد و شمار کے ماہر ہینس روزلنگ "ترقی پذیر دنیا" سے متعلق اساطیر کا انکشاف کر رہے ہیں۔
- Video Language:
- English
- Team:
closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 19:33