Return to Video

ہمارے نظام شمسی کے نویں سیارے کی تلاش

  • 0:01 - 0:04
    میں آپ کو 200 سال پہلے کی
    ایک کہانی سنانے جا رہا ہوں۔
  • 0:04 - 0:08
    1820 میں، فرانسیسی ماہرفلکیات
    ایلکسس بووارڈ
  • 0:08 - 0:13
    کسی سیارے کی دریافت کرنے والا
    انسانی تاریخ کا تقریبا دوسرا شخص بن گیا۔
  • 0:13 - 0:17
    وہ رات کےآسمان پر یورینس کے
    مقام کو تلاش کرتا تھا
  • 0:17 - 0:18
    ستاروں کے پرانے جدولوں کے استعمال سے،
  • 0:18 - 0:21
    اور یہ سورج کے پاس سے اس طرح سے نہیں گزرا
  • 0:21 - 0:23
    جس طرح اس کی پیش گوئیوں نے کہا تھا۔
  • 0:23 - 0:25
    کبھی کبھی یہ تھوڑا بہت تیز ہوتا تھا،
  • 0:25 - 0:27
    کبھی کبھی تھوڑا بہت آہستہ۔
  • 0:27 - 0:31
    بوورڈ جانتا تھا کہ اس کی
    پیش گوئیاں بالکل درست ہیں۔
  • 0:31 - 0:34
    تو مطلب یہ ہوا کہ وہ پرانے
    ستاروں کے جدول خراب تھے۔
  • 0:34 - 0:36
    اس نے اس وقت کے ماہرینِ فلکیات کو کہا،
  • 0:36 - 0:39
    "بہتر پیمائش کریں۔"
  • 0:39 - 0:40
    تو انہوں نے کیں۔
  • 0:40 - 0:42
    ماہرین فلکیات نے اگلی دو دہائیاں گزار دیں
  • 0:42 - 0:46
    محتاط انداز میں پورے آسمان میں یورینس
    کے مقام کا پتہ لگاتے ہوئے،
  • 0:46 - 0:50
    لیکن یہ پھر بھی بوورڈ کی
    پیش گوئیوں کے مطابق نہیں تھا۔
  • 0:50 - 0:52
    1840 تک، یہ واضح ہوچکا تھا۔
  • 0:52 - 0:55
    مسئلہ ان پرانے ستاروں کے
    جدولوں کا نہیں تھا،
  • 0:55 - 0:58
    مسئلہ پیش گوئیوں کے ساتھ تھا۔
  • 0:58 - 1:00
    اور ماہرینِ فلکیات وجہ جانتے تھے۔
  • 1:00 - 1:04
    انہیں ادراک ہوا کہ ایک دوردراز،
    بڑا سا سیارہ ہونا چاہئے
  • 1:04 - 1:05
    یورینس کے مدار کے بالکل پیچھے
  • 1:05 - 1:07
    جو اس کے مدار میں گڑبڑ کر رہا تھا،
  • 1:07 - 1:10
    بعض اوقات اسے تھوڑا زیادہ تیزی سے کھینچتا،
  • 1:10 - 1:13
    بعض اوقات اسے پیچھے روک لیتا۔
  • 1:13 - 1:15
    1840 میں کافی مایوسی ہوئی ہو گی
  • 1:15 - 1:18
    اس دوردراز، بڑے سیارے کی کشش ثقل کے
    اثرات کو دیکھنے کے بعد
  • 1:18 - 1:22
    لیکن تب تک معلوم نہیں تھا کہ
    حقیقت میں اس کو کیسے ڈھونڈنا ہے۔
  • 1:22 - 1:24
    میرا یقین کریں، یہ واقعی زچ کرنے والا ہے۔
  • 1:24 - 1:26
    (قہقہے)
  • 1:26 - 1:28
    لیکن 1846میں،
    ایک اور فرانسیسی ماہر فلکیات،
  • 1:28 - 1:29
    اربن لی وریئر نے،
  • 1:29 - 1:30
    ریاضی کے ذریعے کام کیا
  • 1:30 - 1:33
    اورپتہ لگایا کہ سیارے کے
    مقام کا تعین کیسے کیا جائے۔
  • 1:33 - 1:36
    اس نے اپنی پیش گوئی
    برلن رصد گاہ کو بھیجی،
  • 1:36 - 1:38
    انہوں نے اپنی دوربین کھولی
  • 1:38 - 1:41
    اورپہلی ہی رات میں انھیں
    روشنی کا یہ مبہم سا نقطہ ملا
  • 1:41 - 1:43
    آہستہ آہستہ آسمان میں حرکت کرتا ہوا
  • 1:43 - 1:44
    اور نیپچون دریافت کیا۔
  • 1:44 - 1:50
    یہ آسمان پرلی وریئر کے
    پیش گوئی کردہ مقام کے اتنا قریب تھا۔
  • 1:50 - 1:54
    پیش گوئی اور تغیر اور نیا نظریہ اور
  • 1:54 - 1:57
    فاتح دریافتیں اتنی کلاسیکی ہیں
  • 1:58 - 2:00
    اور لی ویریئر اس سے اتنا مشہور ہو گیا،
  • 2:00 - 2:03
    کہ لوگوں نے فوراً ہی اس فعل میں
    شامل ہونے کی کوشش کی۔
  • 2:03 - 2:06
    پچھلے 163 سالوں میں،
  • 2:06 - 2:11
    درجنوں ماہرفلکیات نے کسی طرح کا
    مبینہ مداری تغیر استعمال کیا ہے
  • 2:11 - 2:16
    نظام شمسی میں کسی نئے سیارے کے
    وجود کی پیش گوئی کرنے کے لیے۔
  • 2:16 - 2:19
    وہ ہمیشہ غلط رہے ہیں۔
  • 2:19 - 2:22
    ان غلط پیش گوئیوں میں
    سب سے زیادہ مشہور
  • 2:22 - 2:24
    پرسیول لویل کی پیش کردہ ہے،
  • 2:24 - 2:29
    جس کویقین تھا کہ یورینس اورنیپچون سے
    بالکل آگے کوئی سیارہ ہو گا،
  • 2:29 - 2:31
    جو ان مداروں کے ساتھ گڑبڑ کر رہا ہے۔
  • 2:31 - 2:33
    اوراسی طرح جب 1930میں پلوٹو دریافت کیا گیا
  • 2:33 - 2:35
    لوئل آبزرویٹری میں،
  • 2:35 - 2:39
    سب نے سوچا کہ یہ ضرور وہی سیارہ ہو گا
    جس کی لویل نے پیش گوئی کی تھی۔
  • 2:39 - 2:42
    وہ غلط تھے۔
  • 2:42 - 2:46
    معلوم ہوا، یورینس اورنیپچون بالکل
    وہیں ہیں جہاں انھیں ہونا چاہیے۔
  • 2:46 - 2:47
    اس میں 100سال لگ گئے،
  • 2:47 - 2:49
    لیکن بوورڈ بالآخر ٹھیک تھا۔
  • 2:49 - 2:53
    ماہرین فلکیات کو بہتر پیمائش
    کرنے کی ضرورت تھی۔
  • 2:53 - 2:55
    اور جب انہوں نے ایسا کیا،
  • 2:55 - 2:58
    تو ان بہتر پیمائشوں سے یہ معلوم ہوا کہ
  • 2:58 - 3:03
    یورینس اورنیپچون کےمدار سے آگے
    کوئی سیارہ موجود نہیں ہے۔
  • 3:03 - 3:06
    پلوٹو ہزاروں گنا چھوٹا ہے جس سے
  • 3:06 - 3:08
    ان کے مدار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
  • 3:08 - 3:12
    لہذا اگرچہ پلوٹو وہ سیارہ نہیں نکلا تھا
  • 3:12 - 3:13
    جو یہ اصل میں سمجھا جاتا تھا،
  • 3:14 - 3:17
    لیکن یہ اس چیز کی پہلی دریافت تھی جو اب
  • 3:17 - 3:22
    سیاروں سے ماوراء مدار میں ہزاروں ننھی،
    برفیلی چیزوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • 3:22 - 3:25
    یہاں آپ مدار دیکھ سکتے ہیں مشتری،
  • 3:25 - 3:27
    زحل، یورینس اور نیپچون کے،
  • 3:27 - 3:30
    اوراس چھوٹے سے دائرے کے
    مرکز میں زمین ہے
  • 3:30 - 3:33
    اور سورج اور تقریبا وہ سب کچھ
    جسے آپ جانتے ہیں اور پیار کرتے ہیں۔
  • 3:33 - 3:35
    اور کنارے پر وہ پیلے رنگ کے دائرے
  • 3:35 - 3:38
    وہ برفیلے اجسام ہیں جو
    سیاروں سے آگے ہیں۔
  • 3:38 - 3:40
    یہ برفیلے اجسام دھکیلے اورکھینچے جاتے ہیں
  • 3:40 - 3:42
    سیاروں کے ثقالتی میدانوں کے ذریعے
  • 3:42 - 3:45
    جو مکمل طور پر قابل پیشن گوئی ہے۔
  • 3:45 - 3:51
    ہر چیز سورج کے گرد ویسے ہی گھومتی ہے
    جس طرح اسے گھومنا چاہیے۔
  • 3:51 - 3:52
    تقریباً۔
  • 3:52 - 3:54
    چنانچہ 2003 میں،
  • 3:54 - 3:56
    میں نے پورے نظام شمسی میں
  • 3:56 - 4:00
    اس وقت کی سب سے دور
    جانی جانے والی چیز دریافت کی۔
  • 4:00 - 4:02
    یہ کافی مشکل ہے کہ اس
    تنہا چیز کو نہ دیکھنا
  • 4:02 - 4:04
    اور کہنا جی ہاں، بالکل، تو لویل غلط تھا،
  • 4:04 - 4:06
    نیپچون سے آگے کوئی سیارہ نہیں تھا،
  • 4:06 - 4:09
    لیکن یہ، یہ نیا سیارہ ہو سکتا ہے۔
  • 4:09 - 4:11
    اصل سوال ہمارے پاس یہ تھا،
  • 4:11 - 4:13
    سورج کے گرد اس کا مدار
    کس طرح کا ہے؟
  • 4:13 - 4:15
    کیا یہ سورج کے گرد دائرے میں گھومتا ہے
  • 4:15 - 4:16
    جس طرح ایک سیارے کو گھومنا چاہئے؟
  • 4:16 - 4:20
    یا یہ برفیلے اجسام کی اس پٹی کا
    صرف ایک عام رکن ہے
  • 4:20 - 4:24
    جوتھوڑا سا باہر کی طرف دھکیل دیا گیا
    اور اب یہ واپس اندر جا رہا ہے؟
  • 4:24 - 4:27
    یہ بالکل وہی سوال ہے
  • 4:27 - 4:32
    جس کا ماہرفلکیات 200 سال قبل یورینس کے
    بارے میں جواب دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
  • 4:32 - 4:35
    انہوں نے یورینس کے نظرانداز کردہ
    مشاہدات کو استعمال کر کے،
  • 4:35 - 4:38
    جو اس کی دریافت سے 91 سال پہلے کے تھے،
  • 4:38 - 4:40
    اس کے پورے مدار کا پتہ لگایا۔
  • 4:40 - 4:42
    ہم اتنا پیچھے نہیں جا سکتے تھے،
  • 4:42 - 4:46
    لیکن ہمیں ہمارے اس وجود کے
    13 سال پہلے کے مشاہدات ملے
  • 4:46 - 4:49
    جن سے ہمیں یہ جاننےمیں مدد ملی کہ
    یہ سورج کے گرد کیسے گھومتا ہے۔
  • 4:49 - 4:50
    تو سوال یہ ہے کہ،
  • 4:50 - 4:53
    کیا یہ سورج کے گرد، کسی اور سیارے
    کی طرح، گول مدار میں ہے
  • 4:53 - 4:54
    یا پھر واپس اندر جا رہا ہے،
  • 4:54 - 4:56
    ان عام برفیلے اجسام کی طرح؟
  • 4:56 - 4:58
    اور جواب ہے
  • 4:58 - 4:59
    نہیں۔
  • 4:59 - 5:02
    اس کا کافی لمبا مدار ہے
  • 5:02 - 5:06
    جس کو سورج کے گرد چکرلگانے میں
    10،000 سال لگتے ہیں۔
  • 5:06 - 5:08
    ہم نے اس وجود کا نام سیڈنا رکھا
  • 5:08 - 5:10
    سمندر کی انوئٹ دیوی کے نام پر،
  • 5:10 - 5:14
    ان سرد، برفیلے مقامات کےاعزاز میں
    جہاں یہ اپنا سارا وقت گزارتی ہے۔
  • 5:14 - 5:16
    اب ہم جانتے ہیں کہ سیڈنا،
  • 5:16 - 5:17
    پلوٹو کے حجم کا تقریباً تیسرا حصہ ہے۔
  • 5:17 - 5:20
    اور یہ نسبتا عام رکن ہے
  • 5:20 - 5:22
    ان برفیلے اجسام کا جو نیپچون سے آگے ہیں۔
  • 5:22 - 5:26
    نسبتا عام، اس عجیب وغریب مدار کو چھوڑ کر۔
  • 5:26 - 5:28
    آپ شاید اس مدار کو دیکھیں اور کہیں،
  • 5:28 - 5:31
    "ہاں، یہ عجیب ہے،
    سورج کے گرد چکر لگانے میں 10،000سال،"
  • 5:31 - 5:33
    لیکن حقیقتاً یہ عجیب حصہ نہیں ہے۔
  • 5:33 - 5:35
    عجیب بات یہ ہے کہ ان 10،000 سالوں میں،
  • 5:35 - 5:39
    سیڈنا کبھی بھی نظام شمسی میں
    کسی اور چیز کے قریب نہیں آتی۔
  • 5:39 - 5:41
    یہاں تک کہ سورج کے
    بالکل قریب پہنچنے پر بھی،
  • 5:41 - 5:44
    سیڈنا نیپچون سے اس سے بھی زیادہ دور ہے
  • 5:44 - 5:47
    جتنا کہ نیپچون زمین سے ہے۔
  • 5:47 - 5:49
    اگر سیڈنا کا ایسا مدار ہوتا،
  • 5:49 - 5:52
    جو سورج کے گرد گھومتے وقت
    ایک بار نیپچون کے مدار کو چھوتا،
  • 5:52 - 5:55
    تواس کی وضاحت کرنا واقعتاً آسان ہوتی۔
  • 5:55 - 5:57
    یہ بس ایک ایسا وجود ہوتی
  • 5:57 - 5:59
    جو سورج کے گرد گول مدار میں گھومتی
  • 5:59 - 6:00
    برفیلے اجسام کے اس خطے میں،
  • 6:00 - 6:03
    جو ایک بار نیپچون کے تھوڑا بہت
    قریب آ گئی ہوتی،
  • 6:03 - 6:07
    اور پھر باہر دھکیل دی جاتی اور اب
    واپس اندر جانے کے راستے پر یے۔
  • 6:07 - 6:12
    لیکن سیڈنا نظام شمسی میں جانی جانے والی
    کسی بھی ایسی چیز کے قریب کبھی نہیں آتی
  • 6:12 - 6:14
    جو اسے یوں دھکیل سکے۔
  • 6:14 - 6:17
    نیپچون ذمہ دار نہیں ہو سکتا،
  • 6:17 - 6:20
    لیکن کوئی تو ذمہ دار ہونا چاہیے۔
  • 6:20 - 6:23
    1845 کے بعد یہ پہلا موقع تھا
  • 6:23 - 6:28
    جب ہم نے بیرونی نظام شمسی سے
    کسی چیز کی کشش ثقل کے اثرات دیکھے
  • 6:28 - 6:30
    اور نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہے۔
  • 6:30 - 6:33
    میں واقعی سوچتا تھا کہ میں
    جانتا ہوں کہ جواب کیا ہے۔
  • 6:33 - 6:37
    یقیناً، یہ کافی دور،
    کوئی بڑا سیارہ ہو سکتا تھا
  • 6:37 - 6:38
    بیرونی نظام شمسی میں،
  • 6:38 - 6:41
    لیکن اس وقت تک،
    یہ خیال اتنا مضحکہ خیز تھا
  • 6:41 - 6:43
    اور اس قدر بد نام ہو چکا تھا
  • 6:43 - 6:45
    کہ میں نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔
  • 6:45 - 6:46
    لیکن ساڑھے چار ارب سال پہلے،
  • 6:46 - 6:51
    جب سورج سینکڑوں دوسرے ستاروں کے
    ایک کویا میں وجود میں آیا،
  • 6:51 - 6:52
    تو ان ستاروں میں سے کوئی ایک
  • 6:52 - 6:55
    سیڈنا کے تھوڑا بہت قریب آ گیا ہو گا
  • 6:55 - 6:59
    اور اس کے مدار میں خلل ڈال کر اسے
    ایسا بنا دیا جیسا کہ آج ہے۔
  • 6:59 - 7:03
    جب ستاروں کا وہ جھرمٹ
    کہکشاں میں منتشر ہو گیا،
  • 7:03 - 7:06
    تو سیڈنا کا مدار ایک پرانے ریکارڈ
    کے طور پر رہ گیا ہو گا
  • 7:06 - 7:09
    سورج کی اس قدیم تاریخ کے۔
  • 7:09 - 7:11
    میں اس خیال سے اتنا پرجوش ہوا،
  • 7:11 - 7:12
    اس خیال سے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں
  • 7:12 - 7:14
    سورج کی پیدائش کی پرانی تاریخ کو،
  • 7:14 - 7:16
    کہ میں نے اگلی دہائی گزار دی
  • 7:16 - 7:19
    سیڈنا جیسا مدار رکھنے والے
    مزید وجودوں کی تلاش میں۔
  • 7:19 - 7:22
    اس دس سالہ مدت میں،
    مجھے کوئی ایک بھی نہ ملا۔
  • 7:22 - 7:23
    (قہقہے)
  • 7:23 - 7:27
    لیکن میرے ساتھیوں، چاڈ ٹریجیلو اور
    اسکاٹ شیپارڈ نے بہتر کام کیا،
  • 7:27 - 7:30
    اوراب انہیں سیڈنا جیسا مدار رکھنے والے
    متعدد وجود مل گئے ہیں،
  • 7:30 - 7:32
    جو کہ کافی کمال ہے۔
  • 7:32 - 7:33
    لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات
  • 7:33 - 7:36
    یہ ہے کہ انہیں پتہ چلا کہ یہ سارے وجود
  • 7:36 - 7:40
    نہ صرف ان دوردراز، لمبے مداروں پر ہیں
  • 7:40 - 7:45
    بلکہ وہ اس مبہم مداری پیرامیٹر کی
    ایک مشترکہ قدر بھی رکھتے ہیں
  • 7:45 - 7:50
    جسے آسمانی میکانکس میں ہم
    حضیضِ شمس کی دلیل کہتے ہیں۔
  • 7:50 - 7:53
    جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ سب
    حضیضِ شمس کی دلیل میں موجود ہے،
  • 7:53 - 7:54
    تووہ فورا اوپر نیچے کودنے لگے،
  • 7:54 - 7:57
    کہتے ہوئے کہ یہ ضرور کسی
    دوردراز، بڑے سیارے کی وجہ سے ہے،
  • 7:57 - 8:01
    جو واقعی کمال ہے، سوائے اس کے
    کہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
  • 8:01 - 8:04
    میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی
    کوشش کرتا ہوں کہ کیوں۔
  • 8:04 - 8:07
    تصور کریں کہ ایک شخص
    کسی پلازے میں چل رہا ہے
  • 8:07 - 8:10
    اوراپنی دائیں سمت 45 درجے پر دیکھ رہا ہے۔
  • 8:10 - 8:13
    بہت ساری وجوہات ہیں جو ہو سکتی ہیں،
  • 8:13 - 8:15
    وضاحت کرنا بہت آسان ہے،
    کوئی بڑی بات نہیں۔
  • 8:15 - 8:17
    اب تصور کریں کہ بہت سارے مختلف افراد،
  • 8:17 - 8:21
    سب پلازے میں مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں،
  • 8:21 - 8:24
    لیکن سب اس سمت 45 درجے کی جانب
    دیکھ رہے ہیں جس میں وہ چل رہے ہیں۔
  • 8:24 - 8:26
    ہر شخص مختلف سمت میں جا رہا ہے،
  • 8:26 - 8:28
    ہر ایک مختلف سمت میں دیکھ رہا ہے،
  • 8:28 - 8:32
    لیکن وہ سب حرکت کی سمت کے
    45 درجے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
  • 8:32 - 8:34
    کیا چیز ایسا کر سکتی تھی؟
  • 8:34 - 8:36
    مجھے کوئی اندازہ نہیں۔
  • 8:36 - 8:40
    ایسا ہونے کی کسی بھی وجہ کے
    بارے میں سوچنا بہت مشکل ہے۔
  • 8:40 - 8:41
    (قہقہے)
  • 8:41 - 8:44
    اور یہ بنیادی طور پر وہی ہے جو
  • 8:44 - 8:48
    حضیضِ شمس کی دلیل کے مطابق
    جھ۔نڈ کا بننا ہمیں بتا رہا تھا۔
  • 8:48 - 8:51
    سائنس دان عام طور پر کشمکش میں پڑ گئے
    اور سوچنے لگے کہ یہ صرف ایک اتفاق ہو گا
  • 8:51 - 8:53
    اور کچھ غلط مشاہدات ہوں گے۔
  • 8:53 - 8:54
    انہوں نے ماہرین فلکیات سے کہا،
  • 8:54 - 8:57
    "بہتر پیمائش کریں۔"
  • 8:57 - 9:00
    پھر بھی میں نے حقیقت میں ان
    پیمائشوں پر بہت محتاط نظر ڈالی،
  • 9:00 - 9:01
    اور وہ صحیح تھیں۔
  • 9:01 - 9:03
    یہ تمام وجود واقعی
  • 9:03 - 9:06
    حضیضِ شمس کی دلیل کی
    ایک مشترکہ قدر رکھتے تھے،
  • 9:06 - 9:08
    اور انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
  • 9:08 - 9:11
    کوئی چیز ایسا کروا رہی تھی۔
  • 9:11 - 9:15
    اس پہیلی کا آخری ٹکڑا 2016 میں سامنے آیا،
  • 9:15 - 9:18
    جب میرے ساتھی کونسٹنٹن بٹیگین،
  • 9:18 - 9:21
    جو مجھ سے تین دروازوں کے
    فاصلے پر کام کرتے ہیں، اور میں نے
  • 9:21 - 9:23
    محسوس کیا کہ ہر شخص
    اس وجہ سے کشمکش میں تھا
  • 9:23 - 9:28
    کیونکہ حضیضِ شمس کی دلیل
    تو صرف اس کہانی کا حصہ تھی۔
  • 9:28 - 9:30
    اگر آپ ان وجودوں کو
    صحیح طریقے سے دیکھیں،
  • 9:30 - 9:34
    تووہ اصل میں خلا میں
    ایک ہی سمت میں کھڑے ہیں،
  • 9:34 - 9:38
    اور وہ سب خلا میں ایک ہی
    سمت میں جھکے ہوئے ہیں۔
  • 9:38 - 9:42
    یہ ایسے ہی ہے جیسے پلازہ میں موجود وہ
    سب لوگ ایک ہی سمت میں چل رہے ہیں
  • 9:42 - 9:46
    اوروہ سب دائیں سمت میں
    45 درجے پر دیکھ رہے ہیں۔
  • 9:46 - 9:47
    اس کی وضاحت کرنا آسان ہے۔
  • 9:47 - 9:50
    وہ سب کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔
  • 9:50 - 9:54
    بیرونی نظام شمسی میں موجود یہ چیزیں
    کسی چیز پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔
  • 9:54 - 9:57
    لیکن کیا چیز؟
  • 9:57 - 10:00
    کونسٹنٹن اورمیں نے ایک سال گزارا
  • 10:00 - 10:05
    کوشش میں کہ کسی دوردراز، بڑے سیارے
    کے علاوہ کوئی اور وضاحت پیش کریں
  • 10:05 - 10:06
    بیرونی نظام شمسی میں۔
  • 10:06 - 10:12
    ہم تاریخ کے 33ویں اور 34ویں فرد نہیں بننا
    چاہتے تھے اس سیارے کی تجویز پیش کرنے والے
  • 10:12 - 10:15
    کہ جنہیں پھر بتایا جائے کہ ہم غلط ہیں۔
  • 10:15 - 10:17
    لیکن ایک سال کے بعد،
  • 10:17 - 10:18
    کوئی اورچارہ نہیں تھا۔
  • 10:18 - 10:20
    ہم کوئی اور وضاحت نہیں پیش کر سکے
  • 10:20 - 10:23
    سوائے اس کے کہ دوردراز،
  • 10:23 - 10:26
    ایک لمبے مدار پر ایک جسیم سیارہ موجود ہے،
  • 10:26 - 10:28
    جو نظام شمسی کے باقی حصے
    کی طرف جھکا ہوا ہے،
  • 10:28 - 10:31
    جو ان وجودوں کو ایسے نقوش
    اپنانے پر مجبور کر رہا ہے
  • 10:31 - 10:33
    بیرونی نظام شمسی میں۔
  • 10:33 - 10:35
    اندازہ لگائیں کہ اس جیسا سیارہ
    اور کیا کرتا ہے۔
  • 10:35 - 10:37
    سیڈنا کا وہ عجیب مدار یاد کریں،
  • 10:37 - 10:40
    کس طرح وہ سورج سے
    ایک سمت میں کھینچ لیا گیا تھا؟
  • 10:40 - 10:44
    اس جیسا سیارہ سارا دن اسی طرح کے
    مدار بناتا رہتا۔
  • 10:44 - 10:46
    ہمیں معلوم تھا کہ ہم کسی کھوج میں ہیں۔
  • 10:46 - 10:49
    توآج ہم یہاں ہیں۔
  • 10:49 - 10:53
    ہم بنیادی طور پر1845 کے پیرس میں ہیں۔
  • 10:53 - 10:54
    (قہقہے)
  • 10:54 - 11:00
    ہم ایک دوردراز بڑے سیارے کی
    کشش ثقل کے اثرات دیکھتے ہیں،
  • 11:00 - 11:02
    اورہم حساب کتاب کرنے کی
    کوشش کر رہے ہیں
  • 11:02 - 11:05
    جاننے کے لئے کہ کہاں دیکھنا ہے،
    کس طرف اپنی دوربینوں کا رخ کرنا ہے،
  • 11:05 - 11:07
    تاکہ اس سیارے کو ڈھونڈ سکیں۔
  • 11:07 - 11:09
    ہم نے کافی تعداد میں
    کمپیوٹر سمولیشن کیے ہیں،
  • 11:09 - 11:11
    کئی مہینےتجزیاتی حساب کتاب میں
    گزارے ہیں،
  • 11:11 - 11:14
    اور یہ ہے جو اب تک میں
    آپ کو بتا سکتا ہوں۔
  • 11:14 - 11:17
    پہلے، یہ سیارہ،
    جسے ہم سیارہ نمبر نو کہتے ہیں،
  • 11:17 - 11:21
    کیونکہ یہ وہی ہے،
  • 11:21 - 11:24
    سیارہ نمبر نو کا حجم زمین کے
    مقابلے میں چھے گنا زیادہ ہے۔
  • 11:24 - 11:26
    یہ پلوٹو سے قدرے چھوٹا نہیں ہے،
  • 11:26 - 11:29
    آئیے سب بحث کرتے ہیں کہ
    آیا یہ سیارہ ہے یا نہیں۔
  • 11:29 - 11:32
    یہ ہمارے پورے نظام شمسی کا
    پانچواں بڑا سیارہ ہے۔
  • 11:32 - 11:36
    حوالے کے لئے، میں آپ کو
    سیاروں کے حجم دکھاتا ہوں۔
  • 11:36 - 11:40
    پیچھے کی طرف، آپ وسیع وعریض
    مشتری اور زحل دیکھ سکتے ہیں۔
  • 11:40 - 11:43
    ان کے آگے، تھوڑے سے چھوٹے،
    یورینس اور نیپچون ہیں۔
  • 11:43 - 11:46
    اوپر کونے میں، ارضی سیارے، عطارد،
    زہرہ، زمین اور مریخ ہیں۔
  • 11:46 - 11:48
    یہاں تک کہ آپ نیپچون سے آگے
  • 11:48 - 11:51
    برفیلے اجسام کی پٹی بھی دیکھ سکتے ہیں،
    جس کا ایک رکن پلوٹو ہے،
  • 11:51 - 11:53
    اسے ڈھونڈنے میں قسمت آپ کا ساتھ دے۔
  • 11:53 - 11:57
    اور سیارہ نمبر نو یہ ہے۔
  • 11:57 - 11:59
    سیارہ نمبر نو بڑا ہے۔
  • 11:59 - 12:00
    سیارہ نمبر نو اتنا بڑا ہے،
  • 12:00 - 12:03
    تو آپ کو شاید تعجب ہوگا کہ
    ہمیں ابھی تک یہ کیوں نہیں ملا۔
  • 12:03 - 12:04
    ٹھیک ہے سیارہ نمبرنو بڑا ہے،
  • 12:04 - 12:07
    لیکن یہ بہت، بہت زیادہ دور بھی ہے۔
  • 12:07 - 12:11
    یہ نیپچون سے بھی
    تقریباً 15 گنا زیادہ دور ہے۔
  • 12:11 - 12:14
    اوریہ اسے نیپچون سے بھی لگ بھگ
    50،000 گنا مبہم بنا دیتا ہے۔
  • 12:14 - 12:17
    اور یہ بھی کہ آسمان واقعی
    ایک بہت بڑی جگہ ہے۔
  • 12:17 - 12:20
    ہم اسے مخصوص کر چکے ہیں
    جہاں ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہے
  • 12:20 - 12:22
    آسمان کے نسبتا چھوٹے حصے میں،
  • 12:22 - 12:24
    لیکن ابھی بھی ہمیں برسوں لگیں گے
  • 12:24 - 12:26
    منظم طریقے سے آسمان کے
    رقبے کا احاطہ کرنے میں
  • 12:26 - 12:28
    بڑی دوربینوں کی مدد سے جو ہمیں چاہیں
  • 12:28 - 12:32
    کچھ ایسا دیکھنے کے لئے جو
    اس قدر دور اور اس قدر مبہم ہو۔
  • 12:32 - 12:35
    خوش قسمتی سے، ہمیں ایسا نہیں کرنا پڑے گا۔
  • 12:35 - 12:40
    بالکل اسی طرح جیسے بوورڈ نے یورینس کے
    غیر شناخت شدہ مشاہدات کا استعمال کیا تھا
  • 12:40 - 12:42
    جو اس کی دریافت سے 91 سال پہلے کے تھے،
  • 12:42 - 12:46
    مجھے یقین ہے کہ ایسی غیرشناخت شدہ
    تصاویر موجود ہیں
  • 12:46 - 12:50
    جو سیارہ نمبر نو کا مقام دکھاتی ہیں۔
  • 12:50 - 12:53
    یہ ایک کافی بڑا حسابی منصوبہ ہونے والا ہے
  • 12:53 - 12:55
    کہ تمام پرانے اعداد و شمار کی
    جانچ پڑتال کی جائے
  • 12:55 - 12:59
    اور ایک مبہم حرکت پذیر سیارہ ڈھونڈا جائے۔
  • 12:59 - 13:01
    لیکن ہم شروع کر چکے ہیں۔
  • 13:01 - 13:03
    اور مجھے لگتا ہے کہ ہم قریب ہیں۔
  • 13:03 - 13:06
    تومیں کہوں گا، تیار ہوجائیں۔
  • 13:06 - 13:10
    ہم لی وریئرکے ریکارڈ سے مماثل نہیں ہیں کہ
  • 13:10 - 13:11
    "ایک پیش گوئی کریں،
  • 13:11 - 13:13
    ایک ہی رات میں سیارہ تلاش کر دیں
  • 13:13 - 13:15
    وہیں قریب جہاں ہم نے پیش گوئی کی"۔
  • 13:15 - 13:19
    لیکن مجھے پورا یقین ہے
    کہ اگلے چند سالوں میں
  • 13:19 - 13:21
    کوئی نہ کوئی ماہر فلکیات کہیں نہ کہیں
  • 13:21 - 13:24
    روشنی کا ایک مبہم نقطہ ڈھونڈ لے گا،
  • 13:24 - 13:26
    آہستہ آہستہ آسمان میں حرکت کرتا ہوا
  • 13:26 - 13:29
    اور فاتحانہ طور پر اعلان کرے گا ایک نئے،
  • 13:29 - 13:32
    اور ممکنہ طور پر آخری نہیں،
  • 13:32 - 13:34
    حقیقی سیارے کی تلاش کا ہمارے نظام شمسی کے۔
  • 13:34 - 13:35
    شکریہ.
  • 13:35 - 13:39
    (تالیاں)
Title:
ہمارے نظام شمسی کے نویں سیارے کی تلاش
Speaker:
مائیک براؤن
Description:

کیا ہمارے نظام شمسی میں چھوٹی، دوردراز چیزوں کے عجیب وغریب مدار ہمیں ایک بڑی دریافت کی طرف لے جا سکتے ہیں؟ سیاروں کے ماہرفلکیات مائک براؤن ہمارے نظام شمسی کے دوردراز مقامات میں چھپے ایک نئے، بڑے سیارے کے وجود کی تجویز پیش کرتے ہیں -- اور ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کی موجودگی کے آثار پہلے ہی سے کس طرح سے ہمارے سامنے موجود ہیں۔

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
13:52

Urdu subtitles

Revisions