ڈیوڈ ملی بینڈ کی ٹیڈ 2017 میں گفتگو
-
0:01 - 0:04میں آپ سے مہاجرین کے عالمی بحران
کے بارے میں بات کروں گا -
0:04 - 0:08اور میرا مقصد آپ کو دکھانا ہے کہ یہ بحران
-
0:08 - 0:11قابلِ حل ہے، نا قابلِ انتظام نہیں،
-
0:12 - 0:17لیکن ساتھ میں آپ کو یہ بھی دکھانا کہ یہ
ہمارے بارے میں بھی ہے اور یہ کہ ہم کون ہیں -
0:17 - 0:21جیسا یہ اگلے محاذ پر موجود
مہاجرین کا امتحان ہے۔ -
0:21 - 0:24میرے لیے یہ صرف ایک پیشہ ورانہ
ذمہ داری نہیں ہے، -
0:24 - 0:29کیونکہ میں دنیا بھر کے مہاجرین اور بے گھر
افراد کے لیے ایک این جی او چلاتا ہوں۔ -
0:29 - 0:30یہ ذاتی مسئلہ ہے۔
-
0:31 - 0:33مجھے یہ تصویر بہت پسند ہے۔
-
0:34 - 0:36دائیں طرف والا خوبصورت آدمی،
-
0:36 - 0:37میں نہیں ہوں۔
-
0:38 - 0:41یہ میرے والد رالف ہیں، لندن میں، 1940 میں
-
0:41 - 0:43اپنے والد سیموئیل کے ساتھ ۔
-
0:44 - 0:46وہ بیلجیم سے آئے ہوئے یہودی مہاجرین ہیں۔
-
0:46 - 0:50وہ نازیوں کے حملے کے دن ہی
فرار ہو گئے تھے۔ -
0:50 - 0:52اور مجھے یہ تصویر بھی بہت پسند ہے۔
-
0:53 - 0:55یہ مہاجرین کے بچوں کا ایک گروہ ہے
-
0:55 - 0:58جو پولینڈ سے 1946 میں لندن پہنچے تھے۔
-
0:59 - 1:02اور ان کے درمیان میں میری والدہ میرین ہیں۔
-
1:03 - 1:06انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی
-
1:06 - 1:07ایک نئے ملک میں
-
1:07 - 1:08اپنے بل بوتے پر
-
1:08 - 1:1012 سال کی عمر میں۔
-
1:11 - 1:13مجھے یہ پتہ ہے:
-
1:13 - 1:16اگر برطانیہ مہاجرین کو نہ داخل ہونے دیتا
-
1:16 - 1:171940 کی دہائی میں،
-
1:18 - 1:21میں یقیناً آج یہاں نہ ہوتا۔
-
1:22 - 1:26لیکن 70 سال بعد،
وقت ایک بار پھر اسی جگہ آ کھڑا ہوا ہے۔ -
1:27 - 1:30دیواروں کے بننے کی باتیں،
-
1:30 - 1:32معاندانہ سیاسی بیان بازی،
-
1:32 - 1:36جلتی ہوئی انسانی اقدار اور اصول
-
1:37 - 1:41انہی ممالک میں جنہوں نے 70 سال پہلے
کہا تھا اب کبھی نہیں -
1:41 - 1:45بے وطن اور نا امید جنگ کے متاثرین سے۔
-
1:47 - 1:49پچھلے سال، ہر ایک منٹ میں،
-
1:50 - 1:5424 لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے
-
1:54 - 1:56تنازعے، تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے:
-
1:57 - 2:00شام میں ایک اور کیمیائی حملے کی وجہ سے،
-
2:00 - 2:03افغانستان میں طالبان کی یلغار سے،
-
2:03 - 2:09شمال مشرقی نائیجیریا میں لڑکیاں سکولوں سے
بے دخل ہوئیں بوکو حرام کی وجہ سے۔ -
2:10 - 2:13یہ وہ لوگ نہیں جو کسی دوسرے ملک جا رہے ہیں
-
2:13 - 2:15بہتر زندگی کی تلاش میں۔
-
2:15 - 2:17وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
-
2:19 - 2:20یہ ایک اصل سانحہ ہے
-
2:22 - 2:27کہ دنیا کا سب سے مشہور مہاجر بذاتِ خود
آپ سے بات کرنے یہاں نہیں آ سکتا۔ -
2:27 - 2:29آپ میں سے بہت سے اس تصویر کو جانتے ہیں۔
-
2:30 - 2:32یہ ایک بے جان لڑکے کا جسم دکھا رہا ہے
-
2:32 - 2:35پانچ سالہ ایلان کردی کا،
-
2:35 - 2:39ایک شامی مہاجر جو 2015 میں
بحیرہ روم میں جاں بحق ہوا۔ -
2:39 - 2:43یہ ان 3700 لوگوں کا حصہ ہے جو
یورپ آنے کی کوشش میں مارے گئے۔ -
2:44 - 2:46اگلے سال 2016 میں،
-
2:47 - 2:495000 لوگ مارے گئے۔
-
2:50 - 2:52اب ان کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے،
-
2:53 - 2:56لیکن لاکھوں دوسرے لوگوں کے لیے
ابھی دیر نہیں ہوئی۔ -
2:56 - 2:58ابھی فریڈریک جسیے لوگوں کے لیے
دیر نہیں ہوئی۔ -
2:59 - 3:02میری اس سے تنزانیہ میں ناریگوس کی
مہاجر خیمہ بستی میں ملاقات ہوئی۔ -
3:02 - 3:03اس کا تعلق برونڈی سے ہے۔
-
3:04 - 3:06وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کہاں
اپنی تعلیم مکمل کر سکتا ہے۔ -
3:06 - 3:09اس نے گیارہ سال کی پڑھائی مکمل کر لی ہے۔
وہ بارہواں سال چاہتا ہے۔ -
3:09 - 3:14اس نے مجھے کہا، "میری دعا ہے کہ
میری زندگی یہیں ختم نہ ہو -
3:14 - 3:15اسی مہاجر کیمپ میں۔"
-
3:16 - 3:18اور ابھی حلود کے لیے بھی دیر نہیں ہوئی۔
-
3:19 - 3:22اس کے والدین فلیسطینی مہاجرین تھے
-
3:22 - 3:25جو یرموک کی مہاجر خیمہ بستی میں رہتے تھے
دمشق کے باہر۔ -
3:25 - 3:27وہ مہاجر والدین کے ہاں پیدا ہوئی،
-
3:27 - 3:30اور اب وہ خود ایک مہاجر ہے لبنان میں۔
-
3:31 - 3:34اب وہ بین الاقوامی بچاو کمیٹی کے لیے
کام کرتی ہیں دوسرے مہاجرین کی مدد کے لیے، -
3:35 - 3:38لیکن ان کے لیے کچھ بھی یقینی نہیں
-
3:38 - 3:40مستقبل کے بارے میں،
-
3:40 - 3:42وہ کہاں ہے اور اس میں کیا ہو گا۔
-
3:42 - 3:46یہ گفتگو فریڈرک کے بارے میں ہے،
حالہ کے بارے میں ہے -
3:46 - 3:48اور ان جیسے لاکھوں کے بارے میں ہے:
-
3:48 - 3:50وہ بے گھر کیوں ہیں،
-
3:50 - 3:55وہ کیسے زندہ رہتے ہیں، ان کو کیا مدد چاہیے
اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ -
3:56 - 3:57مجھے اس پر پختہ یقین ہے،
-
3:58 - 4:01کہ اکیسیویں صدی کا سب سے بڑا سوال
-
4:02 - 4:05اجنبیوں کے بارے میں ہمارے فرائض ہے۔
-
4:05 - 4:09مستقبل کے "آپ" آپ کی ذمہ داریوں
کے بارے میں ہے -
4:09 - 4:10اجنبیوں کے معاملے میں۔
-
4:10 - 4:12کسی سے بہتر آپ کو پتہ ہے،
-
4:12 - 4:16دنیا پہلے سے زیادہ جڑی ہوئی ہے،
-
4:17 - 4:18لیکن زیادہ خطرے کی بات یہ ہے
-
4:18 - 4:21کہ ہمیں آپس کی تقسیم سے فرصت نہیں۔
-
4:22 - 4:24اور ہمارے لیے اس سے بہتر کوئی امتحان نہیں
-
4:24 - 4:26کہ ہم مہاجرین سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔
-
4:27 - 4:30حقائق کچھ یوں ہیں: ساڑھے چھ کروڑ افراد
-
4:30 - 4:33پچھلے سال بے گھر ہوئے
تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے۔ -
4:33 - 4:35اگر یہ کوئی ملک ہوتا،
-
4:35 - 4:38تو یہ دنیا کا 21واں بڑا ملک ہوتا۔
-
4:39 - 4:44ان میں سے زیادہ تر افراد، تقریباً چار کروڑ
اپنے ملک میں بے گھر ہیں، -
4:44 - 4:45لیکن تقریباً ڈھائی کروڑ مہاجرین ہیں۔
-
4:45 - 4:48اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی ہمسایہ ملک
کی سرحد پار کرتے ہیں۔ -
4:49 - 4:53ان میں سے اکثر، غریب ممالک میں رہ رہے ہیں،
-
4:53 - 4:56نسبتاً غریب یا کم - درمیانی - آمدنی
والے ممالک، جیسے لبنان، -
4:56 - 4:57جہاں حلود رہتی ہے۔
-
4:59 - 5:03لبنان میں، چار میں سے ایک شخص مہاجر ہے،
-
5:04 - 5:07یعنی تمام آبادی کا چوتھائی حصہ ۔
-
5:07 - 5:09اور مہاجرین لمبے عرصے تک رہتے ہیں۔
-
5:09 - 5:11بے گھری کا اوسط دورانیہ
-
5:11 - 5:1210سال ہے۔
-
5:13 - 5:18میں مشرقی کینیا میں دنیا کے سب سے بڑے
مہاجر کیمپ میں گیا۔ -
5:18 - 5:19اس کا نام داداب ہے۔
-
5:19 - 5:21یہ 92-1991 میں بنایا گیا
-
5:21 - 5:25ایک "عارضی خیمہ بستی" کے طور پر
خانہ جنگی سے بھاگتے صومالی لوگوں کے لیے۔ -
5:26 - 5:27میں سائلو سے ملا۔
-
5:28 - 5:31میں نے نا سمجھی سے سائلو کو کہا،
-
5:31 - 5:33"تمہارا کیا خیال ہے تم کبھی
اپنے گھر صومالیہ جاو گی؟" -
5:34 - 5:36اور اس نے کہا، "کیا مطلب، گھر جاو گی؟
-
5:36 - 5:38میں یہں پیدا ہوئی تھی۔"
-
5:39 - 5:41اور پھر جب میں نے خیمہ بستی
کی انتظامیہ سے پوچھا -
5:41 - 5:45یہاں موجود 330,000 لوگوں میں سے
کتنے اسی خیمہ بستی میں پیدا ہوئے، -
5:45 - 5:46انہوں نے جواب دیا:
-
5:47 - 5:49۔ 100,000
-
5:50 - 5:52یہ ہے طویل مدتی بے گھری کا مطلب۔
-
5:53 - 5:56اچھا، اب اس کی وجوہات گہری ہیں:
-
5:56 - 5:58کمزور ریاستیں جو اپنے لوگوں کی
مدد نہیں کر سکتیں، -
5:59 - 6:01ایسا بین الاقوامی سیاسی نظام
-
6:01 - 6:04جو 1945 کے بعد سے کمزور تر ہے
-
6:04 - 6:08اورالہیات، حکمرانی پر اختلافات،
بیرونی دنیا سے معاملات -
6:08 - 6:11مسلم دنیا کے نمایاں حصوں میں رہے ہیں۔
-
6:13 - 6:16اچھا اب یہ طویل مدتی،
نسلوں چلنے والے مسائل ہیں۔ -
6:16 - 6:20اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مہاجرین کا بحران
ایک رجحان ہے اور کوئی وقتی ابال نہیں۔ -
6:20 - 6:25اور یہ پیچیدہ ہے، اور جب آپ کے پاس بڑے،
لمبے، طویل مدتی، گھمبیر مسائل ہوں، -
6:25 - 6:27لوگ سوچتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
-
6:28 - 6:30جب پوپ فرانسس لیمپیاڈوزا گئے،
-
6:31 - 6:33اٹلی کے ساحل پر، 2014 میں،
-
6:33 - 6:36تو انہوں نے ہم سب اور عالمی آبادی کو
موردِ الزام ٹھرایا -
6:36 - 6:40جسے انہوں نے کہا "بے حسی کی عالمگیریت"۔
-
6:40 - 6:42یہ ایک مضطرب کرنے والا جملہ ہے۔
-
6:42 - 6:45اس کا مطلب ہے کہ ہمارے دل
پتھر کے ہو گئے ہیں۔ -
6:47 - 6:48اب، میں نہیں جانتا، آپ مجھے بتائیں۔
-
6:48 - 6:52کیا آپ کو پوپ سے بحث کی اجازت ہے،
چاہے ٹیڈ کانفرنس ہو؟ -
6:53 - 6:54لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ٹھیک نہیں۔
-
6:54 - 6:56میرا خیال ہے لوگ واقعی
تبدیلی لانا چاہتے ہیں، -
6:56 - 7:00لیکن انہیں بس معلوم نہیں کہ کیا اس بحران
کے کوئی حل ہیں۔ -
7:00 - 7:02اور میں آج آپ کو جو بتانا چاہتا ہوں
-
7:02 - 7:05کہ اگرچہ مسائل واقعی حقیقی ہیں،
ان کے حل بھی حقیقی ہیں۔ -
7:06 - 7:07حل نمبر ایک:
-
7:07 - 7:11ان مہاجرین کو جن ممالک میں یہ رہتے ہیں
انہیں وہاں کام کرنا چاہیے، -
7:11 - 7:14اور جن ممالک میں یہ رہتے ہیں انہیں
بڑے پیمانے پر معاشی امداد کی ضرورت ہے۔ -
7:14 - 7:16یوگینڈا میں 2014 میں
انہوں نے ایک تحقیق کی: -
7:17 - 7:20دارالکحومت کمپالا میں موجود
80 فیصد مہاجرین کو -
7:20 - 7:22انسان دوست امداد کی ضرورت نہیں تھی
کیونکہ وہ کام کرتے تھے۔ -
7:22 - 7:24انہیں کام حاصل کرنے میں مدد دی گئی تھی۔
-
7:24 - 7:26حل نمبر 2:
-
7:26 - 7:30بچوں کی تعلیم ایک لازمی ضرورت ہے،
کوئی آسائش نہیں، -
7:30 - 7:32جب آپ طویل مدت سے بے گھر ہوں۔
-
7:33 - 7:38بچے دوبارہ زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں جب
انہیں باقاعدہ سماجی اور جذباتی سہارا ملے -
7:38 - 7:39ریاضی اور خواندگی کے ساتھ ۔
-
7:39 - 7:41میں نے یہ خود دیکھا ہے۔
-
7:43 - 7:46لیکن دنیا کے آدھے مہاجرین بچے جو
ابتدائی سکول کی عمر کے ہوتے ہیں -
7:46 - 7:48بالکل کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے،
-
7:48 - 7:51اور تین چوتھائی ثانوی سکول کی عمر کے
کوئی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ -
7:51 - 7:53یہ پاگل پن ہے۔
-
7:54 - 7:56حل نمبر 3:
-
7:56 - 8:00زیادہ تر مہاجرین شہری علاقوں میں ہیں،
شہروں میں، خیمہ بستیوں میں نہیں۔ -
8:00 - 8:02اگر میں اور آپ کسی شہر میں مہاجر ہوتے
توہم کیا چاہتے؟ -
8:02 - 8:05ہمیں پیسے چاہیے ہوتے، کرایہ دینے کے لیے
اور کپڑے خریدنے کے لیے۔ -
8:07 - 8:09یہ انسانی ہمدردی کے نظام کا مستقبل ہے،
-
8:09 - 8:10یا اس کا ایک نمایاں حصہ:
-
8:10 - 8:13لوگوں کو نقدی دیں تاکہ
مہاجرین کی طاقت میں اضافہ ہو -
8:13 - 8:15اور مقامی معیشت کو فائدہ ہو۔
-
8:15 - 8:17اور ایک اور چوتھا حل بھی ہے،
-
8:17 - 8:20یہ متنازعہ ہے
لیکن اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔ -
8:20 - 8:23سب سے غیر محفوظ مہاجرین کو ایک
نیا آغاز دینے کی ضرورت ہے -
8:23 - 8:25اور ایک نئی زندگی ایک نئے ملک میں،
-
8:26 - 8:27جس میں مغرب شامل ہے۔
-
8:28 - 8:32ان کی تعداد نسبتاً کم ہے،
چند لاکھ، کروڑوں نہیں، -
8:32 - 8:35لیکں یہ علامتی طور ہر بہت اہم ہے۔
-
8:36 - 8:39اب وہ وقت نہیں کہ مہاجرین پر
پابندیاں لگائی جائیں، -
8:39 - 8:40جیسا ٹرمپ کی انتظامیہ نے تجویز کیا ہے۔
-
8:40 - 8:44یہ وقت ہے لوگوں کو گلے لگانے کا جو
دہشت کا شکار ہیں۔ -
8:44 - 8:45اور یاد رکھیے --
-
8:45 - 8:48(تالیاں)
-
8:52 - 8:56یاد رکھیے، جو بھی آپ سے پوچھتا ہے،
"کیا ان کی اچھی طرح سے جانچ ہوئی ہے؟" -
8:56 - 8:59یہ یقیناً پوچھنے کے لیے ایک اچھا اور
مناسب سوال ہے۔ -
9:00 - 9:04سچ تو یہ ہے کہ نو آبادکاری کے لیے
آنے والے مہاجرین کی -
9:04 - 9:08ہمارے ممالک میں آنے والے کسی بھی دوسرے
گروہ کی نسبت زیادہ اچھی جانچ کی جاتی ہے۔ -
9:08 - 9:10تو اگرچہ یہ پوچھنے کے لیے ایک
مناسب سوال ہے، -
9:10 - 9:14یہ مناسب نہیں کہ یہ کہا جائے کہ مہاجرین
کا مطلب ہے دہشت گرد۔ -
9:15 - 9:16اب، ہوتا کیا ہے --
-
9:16 - 9:20(تالیاں)
-
9:20 - 9:23کیا ہوتا ہے جب مہاجرین کو کام نہیں ملتا،
-
9:23 - 9:25وہ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے،
-
9:25 - 9:28انہیں نقدی نہیں مل سکتی، انہیں باعزت زندگی
کا قانونی راستہ نہیں ملتا؟ -
9:28 - 9:30پھر ہوتا کیا ہے وہ پرخطر راستے چنتے ہیں۔
-
9:30 - 9:35میں دو سال پہلے لیسبوس گیا،
انتہائی خوبصورت یونانی جزیرہ۔ -
9:35 - 9:37یہ 90,000 لوگوں کا گھر ہے۔
-
9:37 - 9:41ایک سال میں یہاں سے کوئی
پانچ لاکھ مہاجرین گزرے۔ -
9:41 - 9:43اور میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں
جو میں نے دیکھا -
9:43 - 9:46جب میں جزیرے کے شمالی حصے کی طرف گیا:
-
9:46 - 9:50ان لوگوں کی جیکٹوں کا ایک انبار جو
کنارے تک پہنچ پائے۔ -
9:51 - 9:52اور جب میں نے غور سے دیکھا،
-
9:52 - 9:55وہاں بچوں کی چھوٹی جیکٹیں بھی تھیں،
-
9:55 - 9:56پیلے رنگ کی۔
-
9:56 - 9:58اور میں نے یہ تصویر اتاری۔
-
9:58 - 10:02شاید آپ اس کی لکھائی ٹھیک سے نہ دیکھ سکیں
لیکن میں اسے پڑھ دیتا ہوں۔ -
10:02 - 10:05"تنبیہ: یہ ڈوبنے سے نہیں بچاتی۔"
-
10:06 - 10:07تو اکیسیویں صدی میں،
-
10:08 - 10:11بچوں کو ایسی
زندگی بچاو جیکٹیں دی جا رہی ہیں -
10:11 - 10:13یورپ میں عافیت میں پہنچنے کے لیے
-
10:13 - 10:16ایسی جیکٹین جو ان کی زندگی نہیں بچائیں گی
-
10:16 - 10:19اگر وہ کشتی سے گر گئے
جس پر وہ سورا ہیں۔ -
10:21 - 10:24یہ محض کوئی بحران نہیں ہے،
یہ ایک امتحان ہے۔ -
10:26 - 10:29یہ تہذیبوں کا امتحان ہے جس کا وہ
ہمیشہ سے سامنا کرتی آ رہی ہیں۔ -
10:30 - 10:31یہ ہماری انسانیت کا امتحان ہے۔
-
10:32 - 10:34یہ مغربی دنیا میں موجود
ہم لوگوں کا امتحان ہے -
10:34 - 10:37کہ ہم کیا ہیں اور ہماری اقدار کیا ہیں۔
-
10:39 - 10:42یہ ہمارے کردار کا امتحان ہے،
صرف ہماری پالیسیوں کا نہیں۔ -
10:43 - 10:45اور مہاجرین کا معاملہ کافی مشکل ہے۔
-
10:45 - 10:47وہ دنیا کے دور دراز حصوں سے آتے ہیں۔
-
10:48 - 10:50وہ صدمات سے گزر چکے ہوتے ہیں۔
-
10:50 - 10:52وہ اکثر کسی اور مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں۔
-
10:52 - 10:55یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں
ان کی مدد کرنی چاہیے، -
10:55 - 10:57نہ کہ ان کی مدد نہ کریں۔
-
10:57 - 11:01اور وجہ ہے کہ ہم ان کی مدد کریں کہ
یہ ہمارے بارے میں کیا بتاتا ہے۔ -
11:02 - 11:04یہ ہماری روایات کو ظاہر کرتا ہے۔
-
11:05 - 11:10بے غرضی اور ہم خیالی
تہذیب کی دو بنیادیں ہیں۔ -
11:11 - 11:14بے غرضی اور ہم خیالی کو عمل میں تبدیل کریں
-
11:14 - 11:17اور ہمیں زندگی گزارنے کے لیے
ہمارا بنیادی اخلاقی عقیدہ ملتا ہے۔ -
11:17 - 11:19اور اس جدید دنیا میں
ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ -
11:19 - 11:23ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں ہے کہ
جوبا، جنوبی سوڈان میں کیا ہو رہا ہے، -
11:23 - 11:25یا الیپو، شام میں۔
-
11:25 - 11:28یہ یہاں ہے، ہمارے سمارٹ فون میں
-
11:28 - 11:29ہمارے ہاتھ میں۔
-
11:29 - 11:32بے خبری بالکل کوئی عذر نہیں ہے۔
-
11:32 - 11:36مدد کرنے میں ناکامی یہ دکھاتا ہے کہ ہمیں
ٹھیک اور غلط کی ذرا بھی تمیز نہیں۔ -
11:37 - 11:40یہ، یہ بھی دکھاتا ہے کہ کیا ہم اپنی
تاریخ کو جانتے ہیں۔ -
11:41 - 11:43وجوہات کہ دنیا بھر میں
مہاجرین کو حقوق حاصل ہیں -
11:43 - 11:46وہ ہے غیر معمولی مغربی قیادت
-
11:46 - 11:49مرد و خواتین سیاستدانوں کی جانب سے
دوسری جنگ عظیم کے بعد -
11:49 - 11:51جس کا نتیجہ عالمی انسانی حقوق ہیں۔
-
11:52 - 11:55اگر ہم مہاجرین کے حقوق کو ردی سمجھیں تو
ہم اپنی تارخ کو ردی سمجھ رہے ہیں۔ -
11:56 - 11:58یہ ہے --
-
11:58 - 11:59(تالیاں)
-
11:59 - 12:03
-
12:03 - 12:06
-
12:06 - 12:08
-
12:09 - 12:13
-
12:14 - 12:17
-
12:18 - 12:20
-
12:21 - 12:25
-
12:27 - 12:29
-
12:29 - 12:32
-
12:32 - 12:34
-
12:35 - 12:37
-
12:38 - 12:40
-
12:40 - 12:43
-
12:43 - 12:45
-
12:45 - 12:49
-
12:49 - 12:50
-
12:50 - 12:52
-
12:53 - 12:55
-
12:55 - 12:58
-
12:58 - 13:01
-
13:02 - 13:03
-
13:04 - 13:07
-
13:08 - 13:11
-
13:11 - 13:13
-
13:13 - 13:17
-
13:17 - 13:19
-
13:22 - 13:24
-
13:24 - 13:26
-
13:26 - 13:28
-
13:29 - 13:32
-
13:32 - 13:34
-
13:36 - 13:38
-
13:38 - 13:39
-
13:40 - 13:43
-
13:43 - 13:45
-
13:45 - 13:47
-
13:48 - 13:51
-
13:51 - 13:53
-
13:54 - 13:55
-
13:56 - 13:58
-
13:58 - 14:02
-
14:02 - 14:06
-
14:06 - 14:08
-
14:08 - 14:10
-
14:10 - 14:13
-
14:13 - 14:15
-
14:16 - 14:17
-
14:19 - 14:21
-
14:21 - 14:22
-
14:24 - 14:26
-
14:26 - 14:30
-
14:32 - 14:35
-
14:37 - 14:39
-
14:39 - 14:41
-
14:42 - 14:44
-
14:45 - 14:48
-
14:48 - 14:50
-
14:51 - 14:53
-
14:53 - 14:55
-
14:56 - 14:57
-
14:58 - 15:00
-
15:01 - 15:03
-
15:03 - 15:05
-
15:06 - 15:09
-
15:09 - 15:13
-
15:13 - 15:15
-
15:16 - 15:18
-
15:19 - 15:21
-
15:21 - 15:22
-
15:23 - 15:27
-
15:28 - 15:30
-
15:30 - 15:32
-
15:33 - 15:37
-
15:37 - 15:38
-
15:39 - 15:41
-
15:41 - 15:44
-
15:44 - 15:45
-
15:45 - 15:48
-
15:48 - 15:50
-
15:51 - 15:52
-
15:53 - 15:56
-
15:57 - 15:59
-
15:59 - 16:01
-
16:01 - 16:03
-
16:03 - 16:04
-
16:04 - 16:07
-
16:07 - 16:08
-
16:08 - 16:13
-
16:13 - 16:14
-
16:15 - 16:18
-
16:18 - 16:19
-
16:19 - 16:21
-
16:21 - 16:25
-
16:25 - 16:29
-
16:29 - 16:32
-
16:32 - 16:34
-
16:34 - 16:37
-
16:45 - 16:48
-
16:48 - 16:50
-
16:50 - 16:53
-
16:53 - 16:55
-
16:55 - 16:59
-
16:59 - 17:01
-
17:01 - 17:03
-
17:03 - 17:06
-
17:07 - 17:10
-
17:10 - 17:14
-
17:14 - 17:16
-
17:16 - 17:19
-
17:19 - 17:21
-
17:21 - 17:24
-
17:24 - 17:26
-
17:27 - 17:29
-
17:29 - 17:30
-
17:30 - 17:33
-
17:34 - 17:37
-
17:37 - 17:39
-
17:39 - 17:42
-
17:42 - 17:46
-
17:46 - 17:48
-
17:48 - 17:51
-
17:51 - 17:53
-
17:53 - 17:54
-
17:54 - 17:56
-
17:56 - 17:58
-
17:58 - 17:59
-
17:59 - 18:01
-
18:01 - 18:03
-
18:03 - 18:07
-
18:07 - 18:08
-
18:08 - 18:10
-
18:10 - 18:14
-
18:14 - 18:15
-
18:15 - 18:17
-
18:17 - 18:20
-
18:20 - 18:22
-
18:22 - 18:26
- Title:
- ڈیوڈ ملی بینڈ کی ٹیڈ 2017 میں گفتگو
- Speaker:
- ڈیوڈ ملی بینڈ
- Description:
-
ڈیوڈ ملی بینڈ کی ٹیڈ 2017 میں گفتگو
- Video Language:
- English
- Team:
closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 18:38
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye approved Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye accepted Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Shadia Ramsahye edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character | |
![]() |
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The refugee crisis is a test of our character |