Return to Video

خواتین پاکستان میں کیسے سیاسی تبدیلی لا رہی ہیں

  • 0:01 - 0:03
    میں آج آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ
  • 0:03 - 0:07
    پاکستان میں مقامی سطح پر
    تبدیلی کیسے آ رہی ہے،
  • 0:07 - 0:12
    کیونکہ خواتین سیاسی عمل میں
    اپنی جگہ پا رہی ہیں۔
  • 0:12 - 0:17
    میں آپ سب کو اس جگہ کے سفر پر
    لے کے جانا چاہتی ہوں جہاں میں پلی بڑھی
  • 0:17 - 0:21
    شمال مغربی پاکستان، جو دیر کہلاتا ہے۔
  • 0:21 - 0:24
    دیر سترہویں صدی میں معرض وجود میں آیا
  • 0:24 - 0:30
    1969 میں پاکستان میں انضمام ہونے تک
    یہ ایک شاہی ریاست تھی۔
  • 0:30 - 0:35
    ہمارے راجہ، نواب شاہ جہان،
    سفیدرنگ پہننے کا حق محفوظ رکھتے تھے،
  • 0:35 - 0:39
    اعزازی رنگ، مگر صرف ان کے اپنے لئے
  • 0:39 - 0:43
    وہ اپنے لوگوں کو تعلیم دینے پر
    یقین نہیں رکھتے تھے۔
  • 0:43 - 0:47
    1979 میں میری پیدائش کے وقت
  • 0:47 - 0:51
    صرف 5 فیصد لڑکے اور1 فیصد لڑکیاں
  • 0:51 - 0:54
    ہی تعلیم حاصل کر پاتے۔
  • 0:54 - 1:00
    میں ان ایک فیصد میں سے ایک تھی۔
  • 1:01 - 1:05
    بڑے ہوتے ہوئے میں اپنے والد کے
    بہت قریب ہو گئی۔
  • 1:05 - 1:10
    وہ فارمیسی کے ڈاکٹر ہیں،
    اور انہوں نے مجھے سکول بھیجا،
  • 1:10 - 1:15
    ہر روز جب میرا سبق ختم ہو جاتا
    میں ان کے کلینک چلی جاتی تھی.
  • 1:15 - 1:20
    وہ ایک شاندار انسان اور برادری کے
    بہت باعزت رہنما ہیں۔
  • 1:20 - 1:24
    وہ ایک رفاہ عامہ کا ادارہ چلا رہے تھے۔
  • 1:24 - 1:27
    اور میں ان کے ساتھ سیاسی اور سماجی
    اجتماعات میں جاتی تھی
  • 1:27 - 1:32
    مقامی مردوں سے ہمارے سماجی اور
    معاشی مسائل پر بات چیت کرنے کے لئے۔
  • 1:32 - 1:37
    تاہم، جب میں 16 سال کی تھی،
  • 1:37 - 1:42
    میرے والد نے مجھے عوامی اجتماعات میں
    اپنے ساتھ آنے سے روک دیا۔
  • 1:42 - 1:47
    اب، میں ایک نوجوان خاتون تھی
    اور میری جگہ گھر میں تھی۔
  • 1:47 - 1:49
    میں بہت پریشان تھی۔
  • 1:49 - 1:53
    لیکن خاندان کے زیادہ تر لوگ،
    اس فیصلے سے بہت خوش تھے۔
  • 1:54 - 1:56
    یہ میرے لئے بہت مشکل تھا
  • 1:56 - 2:01
    کہ گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیکار
    بیٹھ جاؤں۔
  • 2:01 - 2:04
    اس میں دو سال لگے
  • 2:04 - 2:08
    کہ آخر کار میرا خاندان مان گیا کہ
    میرے والد میرا رابطہ بحال کر سکتے ہیں
  • 2:08 - 2:10
    خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ،
  • 2:10 - 2:15
    تاکہ وہ اپنے مسائل مجھے بتا سکیں اور
    ہم مل کر ان کو حل کر سکیں۔
  • 2:15 - 2:18
    تو ان کی مہربانی سے،
  • 2:18 - 2:21
    میں نے اپنا رابطہ خواتین اور لڑکیوں سے
    بحال کرنا شروع کیا
  • 2:21 - 2:25
    تاکہ ہم ان کے مسائل مل کر حل کر سکیں۔
  • 2:25 - 2:28
    جب بھی خواتین میرے پاس آتی تھیں،
  • 2:28 - 2:33
    تو وہ اپنے حقائق اور نظریات بتاتی تھیں،
  • 2:33 - 2:37
    اور پھر، بارہا مجھے یہ پتہ چلا،
  • 2:37 - 2:40
    کہ خواتین اپنی طاقت کو کم سمجھتی ہیں،
  • 2:40 - 2:43
    اور اپنی صلاحیت اور عزت نفس کو بھی۔
  • 2:43 - 2:49
    تاہم، خواتین اور لڑکیوں سے
    رابطہ بحالی کے دوران
  • 2:49 - 2:51
    یہ مجھ پر بہت واضح ہو گیا
  • 2:51 - 2:56
    کہ اگراچھی زندگی بنانے کی کوئی بھی امید ہے
  • 2:56 - 2:59
    ان خواتین، لڑکیوں اور
    ان کے خاندانوں کے لیے،
  • 2:59 - 3:01
    تو ہمیں اپنے حقوق کے لئے
    کھڑا ہونا پڑے گا --
  • 3:01 - 3:06
    کسی اور کی مدد کا انتظار کیئے بغیر۔
  • 3:06 - 3:10
    تو میں نے بہت بڑا جوا کھیلا
  • 3:10 - 3:14
    اور میں نے 1994 میں اپنا ادارہ بنایا
  • 3:14 - 3:20
    خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے
    ایک اپنا پلیٹ فارم۔
  • 3:20 - 3:23
    میں نے بہت سی خواتین اور لڑکیوں
    کو اپنے ساتھ ملایا۔
  • 3:23 - 3:26
    یہ مشکل تھا۔
  • 3:26 - 3:30
    بہت سی خواتین جو میرے ساتھ کام کر رہی تھیں
    ان کو اپنی شادی کے بعد جانا پڑتا تھا،
  • 3:30 - 3:33
    کیوں کہ ان کے شوہر
    ٗان کو کام نہیں کرنے دیتے تھے۔
  • 3:34 - 3:38
    میری ایک دوست کو ٗاس کے
    خاندان نے کسی اور کو سونپ دیا
  • 3:38 - 3:43
    اس کے بھائی کے کیے گئے جرم
    کے معاوضے کے طور پر۔
  • 3:43 - 3:45
    میں اس کی مدد نہ کر سکی۔
  • 3:45 - 3:50
    اٗس وقت میں نے خود کو
    بہت زیادہ بے یار و مدد گار محسوس کیا۔
  • 3:50 - 3:56
    لیکن اس واقعہ نے میری جدوجہد کو جاری رکھنے
    کے میرے ارادے کو اور زیادہ پختہ کر دیا۔
  • 3:56 - 4:00
    میں نے ایسے بہت سے واقعات دیکھے ہیں۔
  • 4:00 - 4:05
    کہ جہاں خواتین خاموشی سے سہتی ہیں
    اور ظلم برداشت کرتی ہیں
  • 4:05 - 4:07
    لیکن جب میں ایک عورت کو دیکھتی ہوں
  • 4:07 - 4:11
    جو ہار ماننے کے بجائے اپنی حالت کو بدلنے
    کے لئے جدوجہد کر رہی ہو،
  • 4:11 - 4:14
    یہ میری حوصلہ افزائی کرتا ہے
  • 4:14 - 4:18
    تو میں نے عوامی نمائندگی کیلئے انتخاب لڑا
  • 4:18 - 4:21
    لوئر دیر سے ایک آزاد امیدوار کے طور پر
  • 4:21 - 4:25
    2001 کے مقامی انتخابات میں۔
  • 4:26 - 4:31
    تمام اعتراضات اور مشکلات کے باوجود جن کا
    اس عمل میں میں نے سامنا کیا، میں جیت گئی۔
  • 4:31 - 4:37
    (تالیاں)
  • 4:37 - 4:42
    اور میں نے عوامی نمائندہ کے طور
    پر چھ سال تک فرائض انجام دئیے،
  • 4:42 - 4:44
    لیکن بد قسمتی سے،
  • 4:44 - 4:47
    ہم خواتین کو اور وہ بھی منتخب خواتین کو،
  • 4:47 - 4:52
    کونسل میں باقی تمام اراکین کے ساتھ
    بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی
  • 4:52 - 4:56
    اور نہ ہی کاروائی میں
    حصہ لینے کی اجازت تھی۔
  • 4:56 - 4:59
    ہمیں علیحدہ سے صرف خواتین کے لیے
    بنائے گئے کمرے میں بیٹھنا پڑتا،
  • 4:59 - 5:04
    بالکل بے خبر کہ کونسل میں کیا ہو رہا ہے۔
  • 5:04 - 5:07
    مردوں نے مجھے بتایا
  • 5:07 - 5:12
    کہ ‘‘تم خواتین منتخب اراکین،
  • 5:12 - 5:15
    کو خواتین کے لیے
    سلائی مشینیں خریدنی چاہیں‘‘۔
  • 5:15 - 5:20
    جب کہ میں جانتی تھی کہ ان کی سب سے
    بڑی ضرورت صاف پانی تک رسائی تھی۔
  • 5:20 - 5:24
    تو مجھ سے جو بن پڑا میں نے کیا
  • 5:24 - 5:29
    خواتین کے اصل مسائل کو ترجیحات میں
    شامل کرنے کے لئے.
  • 5:30 - 5:36
    میں نے اپنے علاقے میں دو خشک کنووؑں پر
    پانچ ہینڈ پمپس لگوائے
  • 5:36 - 5:41
    ہم نےانہیں دوبارہ قابل استعمال بنایا.
  • 5:41 - 5:47
    جلد ہی، ہم نے پانچ ہزار خاندانوں تک
    پانی کی فراہمی یقینی بنا دی.
  • 5:47 - 5:51
    ہم نے ثابت کیا کہ جو کچھ مرد کر سکتے ہیں،
  • 5:51 - 5:54
    ہم خواتین بھی کر سکتی ہیں.
  • 5:54 - 5:57
    میں نے دوسری منتخب خواتین اراکین
    کے ساتھ اتحاد بنایا،
  • 5:57 - 5:59
    اور پچھلے سال،
  • 5:59 - 6:04
    ہم خواتین کو تمام اراکین کے ساتھ کونسل میں
    بیٹھنے کی اجازت مل گئی.
  • 6:04 - 6:12
    (تالیاں)
  • 6:12 - 6:18
    اور قانون سازی، منصوبہ بندی اور
    بجٹ میں حصہ لینے کی بھی،
  • 6:18 - 6:21
    تمام فیصلوں میں.
  • 6:21 - 6:24
    میں نے دیکھا کہ تعداد میں ایک طاقت ہے۔
  • 6:24 - 6:26
    آپ اپنے آپ کو جانتے ہیں۔
  • 6:26 - 6:31
    کم نمائندگی کا مطلب ہے
    کوئی بھی تمہارے لئے نہیں لڑے گا۔
  • 6:31 - 6:34
    پاکستان ہے--
  • 6:34 - 6:40
    8000 میل دورجہاں آج میں
    آپ کے ساتھ موجود ہوں۔
  • 6:40 - 6:45
    مجھے امید ہے جو میں آپ کو اب بتانے
    والی ہوں بہت دیر تک آپ کو یاد رہے گا،
  • 6:46 - 6:52
    اگرچہ ہمارے درمیان بہت زیادہ
    زمینی اور ثقافتی فرق موجود ہے۔
  • 6:52 - 6:54
    جب خواتین میرے پاس آتی ہیں،
  • 6:54 - 7:00
    تو اپنے ساتھ آدھی آبادی کی
    حقیقتیں اور امیدیں لے کر آتی ہیں۔
  • 7:00 - 7:06
    2007 میں، ہم نے طالبان کا عروج دیکھا
  • 7:06 - 7:11
    سوات، دیر اور قریب کے اضلاع میں
  • 7:11 - 7:14
    یہ بہت خوفناک تھا.
  • 7:14 - 7:18
    طالبان معصوم لوگوں کو قتل کرتے تھے.
  • 7:18 - 7:20
    تقریبا ہر روز،
  • 7:20 - 7:24
    لوگ اپنے پیاروں کے مردہ جسم
    گلیوں سے اٹھا تے تھے.
  • 7:24 - 7:27
    زیادہ تر سماجی اور سیاسی رہنماوؑں کو
  • 7:27 - 7:30
    جو سماج کی بہتری کے لئے
    کام اور جدوجہد کر رہے تھے
  • 7:30 - 7:34
    دھمکیاں دی گئی اور نشانہ بنایا گیا۔
  • 7:34 - 7:36
    یہاں تک کہ مجھے بھی نکلنا پڑا،
  • 7:36 - 7:42
    اپنے بچوں کو اپنے سسرالیوں کے پاس چھوڑ کر.
  • 7:42 - 7:49
    میں نے دیر میں دفتر بند کیا اور
    پشاور منتقل ہو گئی،
  • 7:49 - 7:51
    جو کہ صوبائی دارالحکومت ہے.
  • 7:51 - 7:57
    میں شدید اذیت کا شکار تھی اور
    مسلسل سوچتی تھی کہ آگے کیا کرنا ہے.
  • 7:57 - 8:02
    اور زیادہ تر خاندان کے لوگ اور دوست
  • 8:02 - 8:05
    مشورہ دے رہے تھے کہ
    ‘‘شاد کام کرنا چھوڑ دو۔
  • 8:05 - 8:08
    کیونکہ خطرہ بہت ہی سنگین ہے۔"
  • 8:08 - 8:12
    لیکن میں ڈٹی رہی۔
  • 8:12 - 8:20
    2009 میں ملک میں اندرونی مہاجرین کا
    ایک تاریخی المیہ دیکھا،
  • 8:20 - 8:23
    سوات، دیر اور قریبی اضلاع سے
  • 8:23 - 8:28
    میں نے تقریبا ہر روز خیمہ بستیوں کا
    دورہ کرنا شروع کیا،
  • 8:28 - 8:31
    یہاں تک کہ اندرونی طور پر بے گھر افراد
  • 8:31 - 8:34
    اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے لگے
  • 8:34 - 8:38
    میں نے زچہ بچہ کی صحت کا خیال
    رکھنے والے چار یونٹ قائم کئے
  • 8:38 - 8:43
    خصوصی طور پر10,000 سے زیادہ خواتین
    اور بچوں کا خیال رکھنے کیلئے
  • 8:43 - 8:45
    خیمہ بستیوں کے قریب۔
  • 8:45 - 8:50
    لیکن، ان تمام دوروں کے دوران،
  • 8:50 - 8:56
    میں نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی ضروریات
    کی طرف بہت ہی کم توجہ دی گئی۔
  • 8:56 - 8:59
    اور میں اس کی وجہ تلاش کر رہی تھی۔
  • 8:59 - 9:05
    اور مجھے پتہ چلا کہ اس کی وجہ
    خواتین کی بہت ہی کم نمائندگی ہے
  • 9:05 - 9:10
    ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر،
    نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی پلیٹ فارم پہ بھی۔
  • 9:10 - 9:13
    اور یہ وہ وقت تھا جب مجھے احساس ہوا
  • 9:13 - 9:16
    کہ مجھے اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے
  • 9:16 - 9:20
    خواتین میں سیاسی قیادت کی تعمیر
    اور اس کی مضبوطی پر
  • 9:20 - 9:23
    ان کی سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لیے،
  • 9:23 - 9:26
    تاکہ وہ اپنے مستقبل کے لیے
    اپنی آواز کو اٹھا سکیں۔
  • 9:26 - 9:31
    تو ہم نے تقریبا 300 باصلاحیت نوجوان
    خواتین کو تربیت دینا شروع کی
  • 9:31 - 9:35
    2015 میں ہونے والے مقامی انتخابات کے لیے۔
  • 9:35 - 9:37
    اورپھر پتا ہے کیا ہوا؟
  • 9:37 - 9:40
    کہ ان میں سے 50 فیصد جیت گئیں۔
  • 9:40 - 9:47
    (تالیاں)
  • 9:47 - 9:50
    اور اب وہ کونسلز میں بیٹھ رہی ہیں،
  • 9:50 - 9:57
    اور قانون سازی، منصوبہ بندی اور بجٹ میں
    ایک متحرک کردار ادا کر رہی ہیں۔
  • 9:57 - 10:01
    ان میں سے زیادہ اپنے بجٹ کو لگا رہی ہیں
  • 10:01 - 10:06
    خواتین کی صحت، تعلیم، ہنرمندی بڑھانے
    اور صاف پانی پر۔
  • 10:06 - 10:09
    اب یہ تمام منتخب خواتین
  • 10:09 - 10:13
    اپنے تمام مسائل پر مل کر گفتگو کرتی ہیں
    اور حل کرتی ہیں۔
  • 10:13 - 10:17
    میں آپ کو دو خواتین کے بارے میں بتاتی ہوں
    جن کے ساتھ میں کام کر رہی ہوں:
  • 10:17 - 10:19
    سائرہ شمس.
  • 10:19 - 10:24
    آپ اس 26 سالہ نوجوان خاتون
    کو دیکھ سکتے ہیں۔
  • 10:24 - 10:30
    اس نے 2015 میں لوئر دیر سے
    مقامی انتخاب لڑا اور جیت گئی۔
  • 10:30 - 10:34
    انہوں نے سماجی ڈھانچا کے لئے
    دو منصوبے مکمل کئے ہیں،
  • 10:34 - 10:39
    آپ جانتے ہیں، خواتین،
    اور سماجی ڈھانچے کے منصوبے ۔۔۔
  • 10:39 - 10:44
    بعض لوگوں کے خیال میں یہ مردوں کے کام ہیں۔
  • 10:44 - 10:48
    لیکن نہیں یہ خواتین کے کام بھی ہیں
    اور ہم یہ کر سکتی ہیں۔
  • 10:48 - 10:54
    تو اس نے بچیوں کے اسکول کو جانے والی
    دو سڑکیں بھی صحیح کروائیں،
  • 10:54 - 10:56
    جانتے ہوئے کہ آسان رسائی کے بغیر
    یہ اسکول،
  • 10:56 - 10:59
    دیر کی لڑکیوں کے لئے بیکار ہیں۔
  • 10:59 - 11:03
    اور ایک اور نوجوان خاتون عاصمہ گل ہیں۔
  • 11:03 - 11:07
    وہ نوجوان قائدین کے فورم کی ایک بہت ہی
    متحرک رکن ہیں جو کہ ہم نے بنایا ہے۔
  • 11:07 - 11:11
    وہ عوامی انتخاب نہیں لڑ سکیں
  • 11:11 - 11:17
    وہ ہمارے علاقے کی پہلی
    خاتون صحافی بن گئیں ہیں۔
  • 11:17 - 11:23
    وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق اور معاملات
    پر بولتی بھی ہیں اور لکھتی بھی ہیں۔
  • 11:23 - 11:27
    سائرہ اور عاصمہ زندہ مثالیں ہیں
  • 11:27 - 11:33
    نمائندگی اور شمولیت کی اہمیت کی۔
  • 11:33 - 11:35
    مجھے یہ بھی بتانے دیجئے۔
  • 11:35 - 11:38
    2013 کے پاکستان کے عوامی انتخابات میں
  • 11:38 - 11:42
    اور 2015 کے مقامی انتخابات میں،
  • 11:42 - 11:47
    دیر میں 100 سے بھی کم خواتین ووٹرز تھیں،
  • 11:47 - 11:48
    لیکن پتہ ہے کیا ہوا؟
  • 11:48 - 11:53
    میں آپ کو بہت فخر سے بتانا چاہتی ہوں کہ
    اس سال عوامی انتخابات میں،
  • 11:53 - 11:56
    دیر میں 93 ہزار خواتین نے
    اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا۔
  • 11:56 - 12:04
    (تالیاں)
  • 12:04 - 12:08
    تو ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔
  • 12:08 - 12:10
    مگر یہ تاریخی تبدیلی ہے۔
  • 12:10 - 12:15
    ایک نشانی ہے کہ خواتین کھڑی ہو رہی ہیں،
    سامنے آرہی ہیں اور یہ بات عیاں کر رہی ہیں
  • 12:15 - 12:25
    کہ ہم سب کو خواتین قیادت کی تشکیل کے لئے
    اپنا کردا ادا کرنا چاہئے۔
  • 12:25 - 12:29
    پاکستان میں اور یہاں امریکہ میں،
  • 12:29 - 12:31
    اور دنیا میں ہر جگہ،
  • 12:31 - 12:36
    اس کا مطلب ہے خواتین سیاست میں،
    خواتین کاروبار میں
  • 12:36 - 12:42
    اور خواتین با اثر عہدوں پر،
    اہم فیصلے کرتے ہوئے۔
  • 12:42 - 12:46
    یہاں تک پہنچنے میں مجھے 23 سال لگے۔
  • 12:46 - 12:51
    لیکن میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی
    لڑکی یا خاتون کو
  • 12:51 - 12:56
    زندگی کے 23 سال لگیں اپنی آواز
    دوسروں تک پہنچانے میں۔
  • 12:56 - 13:00
    مجھ پر کچھ بہت ہی تاریک دن آ ئے۔
  • 13:00 - 13:04
    لیکن میں نے اپنی زندگی کا
    ہر جاگتا لمحہ خرچ کیا ہے
  • 13:04 - 13:09
    ہر عورت کے حقوق کے لئے تاکہ وہ
    وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکے۔
  • 13:09 - 13:13
    میرے ساتھ ایک ایسی دنیا کا تصورکیجئے
  • 13:13 - 13:16
    جہاں ہم میں سے ہزاروں لوگ اٹھ کھڑے ہوں
  • 13:16 - 13:21
    اور وہ دوسری نوجوان خواتین
    کی مل کر مدد کریں،
  • 13:21 - 13:27
    مواقع پیدا کریں اور چننے کا حق دیں
    جو سب کو فائدہ دے۔
  • 13:27 - 13:32
    اور یہی چیز میرے دوستو
    اس دنیا کو تبدیل کر سکتی ہے۔
  • 13:32 - 13:34
    آپ کا شکریہ.
  • 13:34 - 13:42
    (تالیاں)
Title:
خواتین پاکستان میں کیسے سیاسی تبدیلی لا رہی ہیں
Speaker:
شاد بیگم
Description:

فلاحی کارکن شاد بیگم نے اپنی زندگی خواتین کو با اختیار بنانے میں گزاری تا کہ وہ مکمل صلاحیتوں کے ساتھ ذندہ رہ سکیں۔ ایک ذاتی گفتگو میں، وہ اپنی ان تھک جدوجہد کے بارے میں بتا رہی ہیں جو انھوں نے خواتین کی زندگی بہتر بنانے کے لئے شمال مغربی پاکستان میں کی جو کہ ایک بہت ہی مذہبی اورقدامت پسند برادری ہے -- وہ تمام دنیا کی خواتین کو سیاسی نمائندگی حاصل کرنے کے لئے پکارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمیں کسی اور کا انتظار کئے بغیر اپنے حقوق کے لیے خود ہی کھڑا ہونا پڑے گا۔‘‘

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
13:55

Urdu subtitles

Revisions