ہالی وڈ میں جنسیت سے متعلق کچھ اعداد و شمار
-
0:01 - 0:05آج میں آپ کی توجہ ایک بہت اہم
معاشرتی مسئلے کی طرف کروانا چاہتی ہوں۔ -
0:05 - 0:07مگر، یہ ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں،
-
0:07 - 0:09نہ ہجرت ہے،
-
0:09 - 0:11نہ ہی ملیریا۔
-
0:11 - 0:14میں بات کرنا چاہتی ہوں فلموں کے بارے میں۔
-
0:14 - 0:18انتہائی سنجیدہ حقیقیت ہے کہ
فلمیں بہت ہی اہم حیثیت رکھتی ہیں۔ -
0:18 - 0:23فلموں سے، ہم بے انتہا محظوظ ہوسکتے ہیں،
-
0:23 - 0:27اور کہانیوں کے ذریعے ہم
کسی اور دنیا میں جا سکتے ہیں۔ -
0:27 - 0:29کہانیاں سننا سنانا بہت اہم ہے۔
-
0:29 - 0:33کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں،
معاشرتی اقدار کیا ہیں، -
0:33 - 0:35ان سے سبق ملتے ہیں،
-
0:35 - 0:38یہ ہماری تاریخ کی حفاظت کرتی ہیں
اور اسے ہم تک پہنچاتی ہیں۔ -
0:38 - 0:40کہانیاں حیران کن ہوتی ہیں۔
-
0:40 - 0:43مگر یہ کہانیاں اپنے ذریعے سب کو
-
0:43 - 0:48سامنے آنے کا ایک سا موقع نہیں دیتیں،
-
0:48 - 0:50خصوصاً وہ کہانیاں جو
-
0:50 - 0:54امریکی فلموں کی صورت اختیار کر گئی ہوں۔
-
0:55 - 0:57فلم اور بہت سی کہانیوں میں،
حیرت انگیز حد تک -
0:57 - 1:00خواتین کو کنارے سے لگایا گیا ہے
-
1:00 - 1:02یا مکمل غائب کیا گیا ہے۔
-
1:03 - 1:05اور اس چیز کا احساس مجھے 10 برس قبل ہوا
جب میں نے پہلی بار -
1:05 - 1:09عام ناضرین کے لئے بنائی گئی فلموں میں
کرداروں کی جنس پر اپنی تحقیق کی۔ -
1:09 - 1:13تب سے اب تک ہم 30 سے زائد
تحقیقات کرچکے ہیں۔ -
1:13 - 1:15میری ٹیم تھک گئی ہے۔
-
1:15 - 1:18اور میں اپنی زندگی مختص کرچکی ہوں
-
1:18 - 1:21ایک محقق اورمتحرک کارکن کی حیثیت سے
-
1:21 - 1:23تاکہ لڑ سکوں ہالی وڈ میں موجود
-
1:23 - 1:25شمولیت کے اس بحران سے۔
-
1:25 - 1:29تو آج، میں آپ کو اس بحران کے
بارے میں بتانا چاہوں گی۔ -
1:29 - 1:31میں بولنا چاہتی ہوں فلموں میں
غیرمساوی جنسی تقسیم پر۔ -
1:31 - 1:34میں بتانا چاہتی ہوں کہ یہ اب تک
کیسے باقی ہے، -
1:34 - 1:38اور پھر میں بتاوں گی کہ ہمیں
اسے کیسے ختم کرنا ہے۔ -
1:38 - 1:42بہرحال، اس سے پہلے کچھ کہوں
ایک تنبیہ کرنا چاہوں گی: -
1:42 - 1:45میری معلومات بہت ہی
دلبرداشتہ کر دینے والی ہیں۔ -
1:45 - 1:47تو میری پیشگی معذرت قبول کیجئے،
-
1:47 - 1:50کیوں کہ میں آپ سب کا مزاج
بہت خراب کرنے والی ہوں۔ -
1:50 - 1:54لیکن آخر میں اسے صحیح بھی کردوں گی،
-
1:54 - 1:56کیوںکہ میں اس امید کی کرن کے
بارے میں بھی بتاوں گی -
1:56 - 1:59کہ اس مسئلے کو کیسے ٹھیک کیا جائے
-
1:59 - 2:01جس کا شکار ہم بہت عرصے سے ہیں۔
-
2:01 - 2:05تو چلئے، آغاز کرتے ہیں،
اس معاملے کی شدت سے۔ -
2:05 - 2:09ہر سال، میری تحقیقاتی ٹیم
امریکہ کی 100 کامیاب -
2:09 - 2:11فلموں کا تجزیہ کرتی ہے۔
-
2:11 - 2:15ہم اسکرین پر آنے والے ہر بولتے یا
نام رکھنے والے کردار پر نظر ڈالتے ہیں۔ -
2:15 - 2:18تو میری تحقیق کا حصہ بننے کے لئے،
-
2:18 - 2:22کسی بھی کردار کو کم سے کم
ایک لفظ بولنا ہوتا ہے۔ -
2:22 - 2:25یہ تو ایک بہت ہی چھوٹا پیمانہ ہے۔
-
2:25 - 2:26(قہقہہ)
-
2:26 - 2:29تو اب تک، ہم 800 فلمیں دیکھ چکے ہیں،
-
2:29 - 2:31سال 2007 سے سال 2015 تک،
-
2:31 - 2:36اسکرین پر ہر بولتے ہوئے کردار کو فہرست میں
ڈالتے ہوئے ان کی جنس، نسل، طبقے کے مطابق، -
2:36 - 2:39جنسیاتی ترجیح اور
معذوری کے حساب سے۔ -
2:40 - 2:44دیکھتے ہیں کچھ بہت ہی
پریشان کن رجحانات۔ -
2:44 - 2:48سب سے پہلے، خواتین اب بھی
واضح حد تک فلموں سے غائب ہیں۔ -
2:48 - 2:53800 فلموں اور 35,205 بولتے کرداروں میں،
-
2:53 - 2:56ایک تہائی سے بھی کم کردار
لڑکیوں اورعورتوں کو ملے ہیں۔ -
2:56 - 2:58ایک تہائی سے بھی کم !
-
2:58 - 3:01اور اس طرز عمل میں 2007 سے
2015 تک کوئی تبدیلی نہیں، -
3:01 - 3:03اور اگر آپ نتائج کا تقابل کریں
-
3:03 - 3:071946 سے 1955 تک کی فلموں
کے ایک چھوٹے نمونے سے، -
3:07 - 3:12تو پتا چلے گا کہ آدھی صدی سے
اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ -
3:12 - 3:13آدھی صدی !
-
3:13 - 3:16مگر کہا جائے تو ہم آبادی کا آدھا ہیں۔
-
3:16 - 3:19اگر ہم معلومات کا
باریک بینی سےجائزہ لیں، -
3:19 - 3:21جو آج کا بنیادی مقصد ہے،
-
3:21 - 3:24تو تصویر اور بھی پریشان کن نظر آئے گی۔
-
3:24 - 3:27صرف پچھلے سال کی 100 بڑی فلموں میں سے،
-
3:27 - 3:3148 فلموں نے ایک بھی بولتے ہوئے
سیاہ فام افریقی-امریکی کو جگہ نہیں دی، -
3:31 - 3:32ایک نے بھی نہیں۔
-
3:33 - 3:3770 فلمیں کسی بولنے والے
ایشیائی، یا ایشیائی امریکی سے مبرا تھیں -
3:37 - 3:38جو کہ عورت یا لڑکیاں ہوں۔
-
3:38 - 3:40ایک بھی نہیں۔
-
3:40 - 3:4484 فلموں میں ایک بھی ایسا خاتون کردار
نہیں تھا جسے کوئی معذوری ہو۔ -
3:44 - 3:51اور 93 مبرا تھیں کسی بھی بولتے ہوئے
ہم جنس پرست یا مخنث کردار سے۔ -
3:51 - 3:54یہ کم کر کے دکھانا نہیں ہے۔
-
3:54 - 3:56یہ مکمل غائب کر دینا ہے،
-
3:56 - 4:01اور میں اسے کہتی ہوں کسی کو
نظرسے اوجھل کر دینے کی وبا۔ -
4:01 - 4:04تو جب ہم کسی عام کردار سے
مرکزی کردار کی طرف جاتے ہیں تو، -
4:05 - 4:07کہانی اب بھی مسائل کا شکار ہے۔
-
4:07 - 4:09پچھلے سال سو فلموں میں سے،
-
4:09 - 4:13صرف 32 میں کسی خاتون کو مرکزی یا
معاون کردار دیا گیا تھا۔ -
4:13 - 4:15سو میں سے صرف تین فلمیں ایسی تھیں جن میں
-
4:15 - 4:19کوئی ظاہراً کم اہمیت کی حامل خاتون
کہانی کا محور تھی، -
4:19 - 4:22اور صرف ایک متنوع خاتون جو
-
4:22 - 4:26فلم کے ریلیز ہونے کے وقت 45 سال
یا اس سے زیادہ عمر کی تھیں۔ -
4:26 - 4:28اب ذرا اس تناظر پر نظر کیجئے۔
-
4:29 - 4:31جو اعداد آپ نے دیکھے ان کے علاوہ
-
4:31 - 4:34فلم میں موجود مرد حضرات کے مقابلے میں
زیادہ خواتین کو جنسی کشش کو ابھارنے -
4:35 - 4:36کے ذریعے کے طور پر پیش کیا گیا۔
-
4:36 - 4:39حقیقت میں، وہ مردوں سے تین گنا زیادہ
-
4:39 - 4:41جنسی کشش ابھارتے لباسوں، یا ادھ ننگی حالت
-
4:41 - 4:42میں پیش کی جاتی ہیں،
-
4:42 - 4:45اور کوشش ہوتی ہے کہ دبلی پتلی دکھیں۔
-
4:45 - 4:48چند بار اینیمیٹڈ فلموں میں تو
خواتین اتنی دبلی ہوتی ہیں کہ -
4:48 - 4:53ان کی کمر کا سائز ان کے بازو
جتنا دکھا دیا جاتا ہے۔ -
4:53 - 4:55(قہقہہ)
-
4:55 - 4:58کہنا پڑتا ہے کہ ان لڑکیوں کی کمر میں
رحم یا کسی بھی دوسرے عضو -
4:58 - 5:01کی جگہ تک نہیں ہوتی۔
-
5:01 - 5:03(قہقہہ)
-
5:03 - 5:04تو، مذاق سے قطع نظر،
-
5:04 - 5:06نظریات کی تائید، اور تحقیق سے ثابت ہے کہ،
-
5:06 - 5:09دبلے بدن کو خوبصورتی کے ایک
عنصر کے طور پر دکھانا -
5:09 - 5:13کچھ خواتین میں اپنے جسم سے متعلق
غیر تسلی بخش خیالات، اور اپنے بدن سے متعلق -
5:13 - 5:17احساس کمتری جیسے خیالات کی وجہ بن سکتا ہے۔
-
5:17 - 5:19یقیناً، ہم جو کچھ اسکرین پر دیکھتے ہیں
-
5:19 - 5:21اور جو کچھ حقیقی دنیا میں نظر آتا ہے،
-
5:21 - 5:23وہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔
-
5:23 - 5:24وہ ہرگز ایک سا نہیں ہوتا!
-
5:24 - 5:26سچ میں، اگر ہم پردہ سیمیں
کی دنیا میں جیتے ہوتے، -
5:26 - 5:30تو اب تک آبادی کے بد ترین
مسائل سے دوچار ہوچکے ہوتے۔ -
5:30 - 5:32تو، جیسے ہی مجھے ان اطوار
کا پتہ چلا، تو -
5:32 - 5:34میں نے وجہ جاننا چاہی،
-
5:34 - 5:38پتہ یہ چلا کہ اسکرین پر
اس ناانصافی کی دو وجوہات ہیں: -
5:38 - 5:41کہانی نویسوں کی اپنی جنس
اور ناظرین کے غلط تصورات۔ -
5:41 - 5:43جلدی سے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
-
5:43 - 5:46اگر میرے نشاندہی کئے ہوئے
کسی انداز کو آپ بدلنا چاہیں، -
5:46 - 5:48تو صرف آپ کو خاتون ڈائریکٹرز
رکھنا ہوں گی۔ -
5:48 - 5:50معلوم ہوتا ہے کہ خاتون ڈائریکٹرز
-
5:50 - 5:55کو جوڑا جاتا ہے مختصرفلموں اور
آزاد فلموں سے، -
5:55 - 5:57اسکرین پرزیادہ لڑکیوں اور خواتین سے،
-
5:57 - 5:59اور ان کے گرد گھومتی مزید کہانیوں سے،
-
5:59 - 6:0440 سال یا اس سے زیادہ عمر کی
خواتین کی کہانیوں سے، -
6:04 - 6:07جو میرے خیال سے سامعین کے لئے
اچھی خبر ہے۔ -
6:07 - 6:09زیادہ نظرانداز کئے گئے ۔۔
-
6:09 - 6:10(قہقہہ)
-
6:10 - 6:11معذرت چاہتی ہوں۔
-
6:11 - 6:13(قہقہہ)
-
6:13 - 6:15معذرت، جس کی ضرورت نہیں۔
-
6:15 - 6:18مزید نظرانداز شدہ کردار
رنگ ونسل کی بنیاد پر، -
6:18 - 6:20اور سب سے ضروری،
-
6:20 - 6:22پس کیمرا کام کرنے والی مزید خواتین
-
6:22 - 6:24فلمسازی کے اہم عہدوں پر۔
-
6:24 - 6:28یہ ہے زیر نظر مسئلے کا آسان حل۔
-
6:28 - 6:29واقعی ہے؟
-
6:29 - 6:31حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
-
6:31 - 6:34800 فلمیں، 2007-2015،
-
6:34 - 6:36886 ڈائریکٹرز۔
-
6:36 - 6:39صرف 4.1 فیصد خواتین ہیں۔
-
6:39 - 6:42جن میں صرف تین افریقی-امریکی یا
سیاہ فام ہیں، -
6:42 - 6:45اور فقط ایک خاتون ایشیائی تھی۔
-
6:46 - 6:49آخر خواتین ڈائریکٹرز کو لینے میں
-
6:49 - 6:51ایسی کیا مشکل ہے جب کہ
-
6:51 - 6:53اگر وہ اس مسئلے کے حل کا ایک حصہ ہیں؟
-
6:54 - 6:55تو، اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے،
-
6:55 - 6:57ہم نے ایک تجزیہ کیا۔
-
6:57 - 6:59ہم نے فلم انڈسٹری کے درجن بھر لوگوں
سے انٹرویو کئے -
6:59 - 7:02اور ان سے ڈائرکٹرز کے متعلق پوچھا۔
-
7:02 - 7:06پتہ چلا کہ عورتیں ہوں یا مرد، وہ
-
7:06 - 7:07جب بھی ڈائرکٹر کا تصور کرتے ہیں،
-
7:07 - 7:09تو ذہن میں ایک مرد ہی آتا ہے۔
-
7:09 - 7:12ان کے خیال میں رہنمائی کی صلاحیت
-
7:12 - 7:14صرف مردوں کی فطرت سے جڑی ہے۔
-
7:14 - 7:17تو جب وہ ایک ڈائرکٹر بھرتی
کرنے کا سوچتے ہیں -
7:17 - 7:20جو عملے پر حکم چلا سکے،
جہاز کی رہنمائی کرسکے، -
7:20 - 7:22ایک صاحب بصیرت یا مدبّر کے طور پر،
-
7:22 - 7:24اور وہ سب جو ہم سن چکے ہیں --
-
7:24 - 7:27تو ان کی سوچ اور پسند ایک
مرد کو ہی سامنے لے کر آتی ہے۔ -
7:28 - 7:30ایک ڈائرکٹر یا ایک رہنما کا تصور
-
7:30 - 7:34ایک عورت سے جوڑتے ہوئے
نامناسب سا لگتا ہے۔ -
7:34 - 7:36یہ کردار ملتے جلتے نہیں لگتے،
-
7:36 - 7:40یہی بات نفسیاتی بنیادوں پر کی گئی
تحقیق سے بھی ثابت ہے۔ -
7:40 - 7:43پردہ سیمیں پر ناانصافی کی دوسری وجہ
-
7:43 - 7:46ناضرین کے غلط تصورات ہیں۔
-
7:46 - 7:48مجھےاس مجمع کو بتانے کی
ضرورت نہیں: -
7:48 - 7:51اس ملک کے 50 فیصد وہ لوگ
جو فلم کے ٹکٹ خریدتے ہیں -
7:51 - 7:53لڑکیاں اور خواتین ہیں۔
-
7:53 - 7:54صحیح؟
-
7:54 - 7:59مگرپھر بھی ہمیں قابل قدر و منافع بخش
ناظر کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ -
8:00 - 8:02مزید، کچھ اور غلط تصورات بھی ہیں
-
8:02 - 8:05کہ کیا ایک عورت فلم کا آغاز کر سکتی ہے۔
-
8:05 - 8:08فلم کا آغاز کرنے کا مطلب ہے اگر عورت
مرکزی کردار ہے، -
8:08 - 8:10لگایا ہوا سرمایہ اس طرح
واپس نہیں آسکتا -
8:10 - 8:13جیسا کہ ایک مرد کو مرکزی
کردار دینے پر آتا ہے۔ -
8:13 - 8:17یہ خام خیالی دراصل کافی مہنگی ہے۔
-
8:17 - 8:18صحیح؟
-
8:18 - 8:21خصوصاً فرنچائزوں کی کامیابی
کے اس دور میں -
8:21 - 8:23جیسے "ہنگر گیمز"،
-
8:23 - 8:24"پچ پرفیکٹ"
-
8:24 - 8:29یا وہ چھوٹے بجٹ کی آزاد فلم،
": سٹار وارز: دی فورس اویکنز". -
8:30 - 8:33ہمارے اپنے معاشی تجزیئے کے مطابق
مرکزی کردار میں جنسی تفریق سے -
8:33 - 8:37امریکہ کی حد تک معاشی کامیابی
پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ -
8:37 - 8:38تو پھر کس کا پڑتا ہے؟
-
8:38 - 8:40صرف تخلیق پر لگایا گیا سرمایہ
-
8:40 - 8:46یا اس کے ساتھ ساتھ فلم کی ملکی سطح
پر تقیسیم کاری کتنی زیادہ ہے۔ -
8:46 - 8:48یہ مرکزی کردار کی جنس نہیں ہے۔
-
8:49 - 8:53تو اس مقام پر تو ہم سب کو ہی
ٹھیک ٹھاک اداس ہوجانا چاہئے۔ -
8:53 - 8:55پچاس سال میں کوئی تبدیلی نہیں،
-
8:55 - 8:57محض چند خواتین ڈائرکٹرز
کیمرے کے پیچھے مصروف عمل ہیں -
8:57 - 9:01اور تفریحی شعبہ ہمیں ایک ناظر کی حیثیت
سے بھی قابل بھروسہ نہیں سمجھتا۔ -
9:02 - 9:05میں نے آپ کو بتایا تھا کہ
امید کی ایک کرن موجود ہے، -
9:05 - 9:06اور وہ یقیناً ہے۔
-
9:07 - 9:10اصل میں اس مسئلے کے حل کے لئے
-
9:10 - 9:12کچھ سادے مگر ٹھوس طریقے ہیں
-
9:12 - 9:13جن میں کہانی نویسوں سے لے کر،
-
9:13 - 9:15اعلٰی عہدیدار اور صارفین کی شمولیت ہو
-
9:15 - 9:18جیسے اس کمرے میں موجود افراد ۔
-
9:18 - 9:20ان میں سے چند پر بات کرتے ہیں۔
-
9:20 - 9:22پہلا، جسے میں کہتی ہوں،
"پانچ کا اضافہ کیجئے۔" -
9:22 - 9:25کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر ہم
اگلے سال کی 100 کامیاب فلمیں لیں -
9:25 - 9:28اور ان میں محض پانچ خواتین کے
بولتے کردار بڑھا دیں -
9:29 - 9:30ان میں سے ہرفلم میں،
-
9:30 - 9:32تو یہ ایک نئی رسم ہو گی۔
-
9:32 - 9:34اگر ہم یہ کام تین متواتر
سالوں تک کرتے رہیں، -
9:34 - 9:36تو ہم تقریباً نصف صدی میں پہلی بار
-
9:36 - 9:41جنسیت کی بنیاد پر تقسیم میں برابری
کی سطح پر آ سکیں گے۔ -
9:42 - 9:45اس طریقہ کار میں بہت سے فائدے ہیں۔
-
9:45 - 9:49پہلا، اس سے مرد اداکاروں کی نوکری
پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ -
9:49 - 9:50خدانخواستہ۔
-
9:50 - 9:53(قہقہہ)
-
9:53 - 9:57دوسرے، یہ اصل میں کافی کم خرچ ہے۔
اس میں کوئی خاص خرچ بڑھنے والا نہیں ہے۔ -
9:57 - 9:59تیسرا، باصلاحیت لوگوں
کے لئے راستہ کھلے گا۔ -
9:59 - 10:01اور چوتھا، یہ تخلیق کے عمل کو
انسانی بنیادوں پر رکھے گا۔ -
10:01 - 10:05کیوں؟ کیونکہ اس سے یقینی ہو گا کہ
عورتیں بھی سیٹ پر موجود ہیں۔ -
10:05 - 10:08دوسرا حل، صف اول کے
باصلاحیت لوگوں کے لئے۔ -
10:09 - 10:12ہم جانتے ہیں کہ صف اول کے اداکار
اپنے معاہدوں میں شرائط رکھ سکتے ہیں، -
10:12 - 10:16خصوصاً وہ جو ہالی وڈ کی بہترین
فلموں کا حصہ ہوتے ہیں۔ -
10:16 - 10:18کیا ہو اگر وہ صف اول کے فنکار
-
10:18 - 10:22اپنے معاہدوں یا شمولیت کی دستاویز میں
-
10:22 - 10:24صرف ایک شق کا اضافہ کردیں؟
-
10:24 - 10:26اب، اس بات کا کیا مطلب ہے؟
-
10:26 - 10:28شائد آپ یہ نہ جانتے ہوں،
-
10:28 - 10:29ایک عام فیچر فلم میں تقریباً
-
10:29 - 10:3240 سے 45 بولتے ہوئے کردار ہوتے ہیں۔
-
10:33 - 10:36میرا ماننا ہے کہ ان میں سے صرف
8 سے 10 کردار دراصل -
10:36 - 10:39کہانی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
-
10:39 - 10:41"ایونیجر" کے علاوہ، ہیں نا؟
-
10:41 - 10:43"ایونیجر" میں کچھ زیادہ ہیں۔
-
10:44 - 10:46باقی 30 یا جتنے بھی کردار ہوتے ہیں،
-
10:46 - 10:48تو کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ چھوٹے کردار
-
10:49 - 10:51کسی طرح ماحول اور منظر سے
یا پھر کہانی کے مقام سے -
10:51 - 10:55مطابقت نہ رکھ رہے ہوں۔
-
10:55 - 10:59صف اول کے فنکاروں کی اپنے معاہدوں میں
مسابقت کی ایک چھوٹی سی شق -
10:59 - 11:01یہ باور کرا سکتی ہے کہ وہ کردار
-
11:01 - 11:04اس دنیا سے مطابقت رکھتے ہوں
جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ -
11:04 - 11:07تو پھر کوئی وجہ نہیں ہوگی جب کوئی ادارہ،
-
11:07 - 11:09کوئی اسٹوڈیو یا تخلیق کار کمپنی
-
11:09 - 11:13معاہدوں کی اسی زبان کو اپنا نہیں سکے
-
11:13 - 11:16اپنے معاملات کو طے کرنے کے دوران۔
-
11:16 - 11:17تیسرا حل:
-
11:17 - 11:20یہ تفریح کی صنعت کے لئے ہے,
-
11:20 - 11:21خصوصاً ہالی وڈ کے لئے،
-
11:21 - 11:24کہ وہ ڈائرکٹرز کی بھرتی کے وقت
-
11:24 - 11:28'رونی اصول' کو اختیار کریں۔
-
11:28 - 11:30جیسے کہ اب این ایف ایل کے لئے
'رونی اصول' مقرر ہے تو -
11:30 - 11:34جب ایک ٹیم ادارے سے باہر کا
کوچ بھرتی کرنا چاہے، تو انھیں -
11:34 - 11:38ایک اقلیتی پس منظر رکھنے والے
امیدوار کا انٹرویو کرنا ہوتا ہے۔ -
11:38 - 11:42یہی اصول ہالی وڈ کی فلموں
پر نافذ کیا جاسکتا ہے۔ -
11:42 - 11:43کیسے؟
-
11:43 - 11:45ان صف اول کی فلموں کے لئے،
-
11:45 - 11:48نمائندے اور اعلیٰ عہدیدار یہ یقین کر لیں
-
11:48 - 11:54کہ خواتین اور رنگدار نسلوں کے لوگ
نہ صرف انتخاب کی فہرست کا حصہ ہوں، -
11:54 - 11:57بلکہ اس نوکری کے لئے ان کا
انٹرویو بھی ضرور ہو۔ -
11:57 - 11:59اب، ہوسکتا ہے کوئی کہے،
-
11:59 - 12:00بھئی یہ کیوں ضروری ہے؟
-
12:00 - 12:05کیوںکہ اس سے بھرتی کرنے والے
خواتین ڈائرکٹرز سے متعارف ہوسکیں گے -
12:05 - 12:10جو کہ دوسری صورت میں معاندانہ
بھرتیوں کا شکار ہوجایا کرتی ہیں۔ -
12:10 - 12:12چوتھا حل
-
12:12 - 12:14میرے اور آپ جیسے صارفین سے متعلق ہے۔
-
12:15 - 12:18اگرہم خواتین پر یا ان کی بنائی ہوئی
مزید فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں، -
12:18 - 12:20تو ہمیں ان کا ساتھ دینا ہوگا۔
-
12:20 - 12:23یعنی آزاد تھیٹرز کا رخ بھی کرنا ہوسکتا ہے
-
12:23 - 12:25بجائے ملٹی پلیکس سنیما گھروں کے۔
-
12:25 - 12:28یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں گہرائی میں
جا کر آن لائن تلاش کا سہارا لینا پڑے -
12:28 - 12:31تاکہ خواتین ڈائرکٹرز کی فلمیں
تلاش کرسکیں۔ -
12:31 - 12:34یا پھرایک چیک لکھ کر کسی ایسی فلم
کی مالی مدد بھی کی جائے، -
12:34 - 12:38جو خصوصاً کسی ایسی خاتون ڈائرکٹر
کی ہو جو اقلیتی طبقے سے ہو۔ -
12:38 - 12:40ٹھیک ہے؟
-
12:40 - 12:42ہمیں ان کمپنیوں کو لکھنا ہوگا،
فون کرنا ہوں گے۔ -
12:42 - 12:44جو فلمیں بناتی ہیں یا
تقسیم کرتی ہیں، -
12:44 - 12:47اور ہمیں اپنے سوشل میڈیا
اکاونٹس پر پوسٹ کرنا ہوگا -
12:47 - 12:50جب ہم خواتین کی ایک نمایاں
شمولیت دیکھنا چاہیں گے -
12:50 - 12:52پردہ سیمیں پر،
-
12:52 - 12:55اور سب سے ضروری،
کیمرہ کے پیچھے موجود خواتین۔ -
12:56 - 13:01ہمیں اپنی آوازوں کو قابل سماعت بنانا ہو گا
اور اپنے پیسوں کا بدل حاصل کرنا ہو گا۔ -
13:01 - 13:07اب حقیقتاً، ہم میں یہ صلاحیت ہے
کہ اس موضوع پر دنیا کو بدل سکیں۔ -
13:08 - 13:10امریکہ اور اس کے موضوعات،
-
13:10 - 13:12خصوصاً اس کی فلمیں،
-
13:12 - 13:17پوری دنیا کی توجہ اپنی
طرف مبذول کرا چکی ہیں۔ -
13:17 - 13:18عالمی سطح پر۔
-
13:19 - 13:23اس کا مطلب ہے کہ اس کی فلمی صنعت
بے مثال صلاحیت رکھتی ہے -
13:23 - 13:28اس دنیا کو برابری کی تعلیم
دینے والی کہانیوں -
13:28 - 13:30سے متعارف کرانے کی۔
-
13:31 - 13:32سوچئے کیا ہو، اگر فلم انڈسٹری
-
13:32 - 13:36اپنی اقدار کو ویسا ہی بنا لے جیسا کہ
-
13:36 - 13:38پردے پردکھایا جاتا ہے۔
-
13:38 - 13:40اسی کی وجہ سے پروان چڑھ سکتی ہیں
-
13:40 - 13:44شمولیت اورقبولیت لڑکیوں اور عورتوں کے لئے،
-
13:44 - 13:45مختلف رنگ و نسل کے لئے،
-
13:45 - 13:47مختلف جنسیاتی ترجیح رکھنے والوں کے لئے،
-
13:47 - 13:49معذور افراد کے لئے،
-
13:49 - 13:53اور دنیا کے بہت سے دوسرے افراد کے لئے۔
-
13:54 - 14:00اس سب کے لئے فلم انڈسٹری کو صرف
اپنے پوشیدہ ہتھیار کو استعمال کرنا ہوگا، -
14:00 - 14:02اور وہ ہے کہانیوں کا پیش کرنا۔
-
14:03 - 14:06جیسا کہ اپنی گفتگو کے شروع میں،
-
14:06 - 14:08میں نے کہا تھا کہ فلمیں --
-
14:08 - 14:11ہمیں دوسری دنیا میں لے جا سکتی ہیں،
-
14:11 - 14:16مگر اب میں یہ کہنا چاہوں گی،
کہ فلمیں ہمیں تبدیل کرسکتی ہیں۔ -
14:17 - 14:19اس کمرے میں موجود ہم میں سے کسی نے بھی
-
14:19 - 14:23کبھی تجربہ یا تصور نہیں کیا کہ
کسی کہانی کا منظر نامہ -
14:23 - 14:26خواتین کرداروں سے مکمل مزئین ہو،
-
14:26 - 14:28ہم میں سے کسی نے بھی نہیں،
-
14:28 - 14:31کیوں کہ اعداد ابھی بدلے نہیں ہیں۔
-
14:31 - 14:35کیا ہو گا اگر سامعین اور ناظرین
کی اگلی نسلیں -
14:35 - 14:39فلموں کے ایک بالکل الگ تصور
کے ساتھ بڑی ہوں؟ -
14:39 - 14:41تب کیا ہوگا؟
-
14:41 - 14:43میں آج یہاں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ
-
14:43 - 14:47فلم میں ہم جو دیکھتے ہیں وہ نہ صرف
بدل دینا ممکن ہے بلکہ -
14:47 - 14:51میں اسے بدل دینے کے لئے بیتاب ہوں۔
-
14:51 - 14:56تو آئیں اس بات پر متفق ہوں
کہ آج سے ہی اس پرعمل کریں -
14:56 - 14:59اس غائب کر دینے کے روئیے
کو ختم کرنے کے لئے۔ -
15:00 - 15:02اور اس بارے میں آج عملی قدم
اٹھانے پر متفق ہوجائیں -
15:02 - 15:07کہ امریکہ اور دنیا بھر کے ناظرین و سامعین
-
15:07 - 15:10مزید بہتری کا حق رکھتے اور چاہتے ہیں۔
-
15:10 - 15:12اور آج مان لیجئے
-
15:12 - 15:18کہ ناظرین و سامعین کی اگلی نسل،
-
15:18 - 15:21ان کہانیوں کو دیکھنے کا حق رکھتی ہے
-
15:21 - 15:24جو ہم کبھی نہ دیکھ سکے۔
-
15:24 - 15:25شکریہ
-
15:25 - 15:31(تالیاں)
- Title:
- ہالی وڈ میں جنسیت سے متعلق کچھ اعداد و شمار
- Speaker:
- اسٹیسی اسمتھ
- Description:
-
فلم میں عورتیں اور لڑکیاں کہاں ہیں؟ سماجی سائنسندان اسٹیسی اسمتھ تجزیہ کر رہی ہیں کہ کس طرح میڈیا خواتین کی نمائندگی کم سے کم کر کے پیش کرتا ہے -- اور جو پیش کرتا ہے اس کے کس انداز سے منفی اثرات ہیں جو کہ دیکھنے والوں تک منتقل ہورہے ہیں۔ وہ لے کر آئی ہیں تلخ معلومات، ہالی وڈ میں موجود جنسی تفریق کے بارے میں، جہاں پردہ سیمیں پر مرد عورتوں کو پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں، تین بمقابلہ ایک۔ (اور پردے کے پیچھے کام کرنے والوں میں تو یہ تعداد اس سے بھی بدتر ہے۔)
- Video Language:
- English
- Team:
- closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 15:44
Umar Anjum approved Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The data behind Hollywood's sexism |