تصور کریں کہ اۤپ کسی پارٹی میں جانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں اۤپ پُرجوش ہیں مگر گھبرائے ہُوئے بھی ہیں اور یہ احساس اۤپ کو اپنے معدے پر محسوس ہورہا ہے بالکل ایسے، جیسے دل کی ایک اور دھڑکن۔ کچھ ہے جو آپ کو روک رہا ہے، روک رہا ہے حقیقی معنوں میں خوش ہونے سے۔ "نہیں، تمھیں زیادہ خوش نہیں ہونا ہے۔ احتیاط ضروری ہے، ورنہ کچھ برا ہوسکتا ہے"۔ اۤپ سوچنے لگتے ہیں، "میں وہاں جا کرکس سے بات کروں گا؟" اگر کسی نے مجھ سے بات نہ کرنا چاہی تو؟ اگر انھوں نے سوچا کہ میں عجیب ہوں، تو؟" جب اۤپ پارٹی میں پہنچ جاتے ہیں، کوئی اۤپ کے پاس اۤتا ہے اور آپ سے بات کرنا شروع کرتا ہے، اور جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے اۤپ کا ذہن دوڑنے اور دل تیزی سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے۔ اۤپ کو پسینہ اۤنے لگتا ہے، آپ کو اپنا وجود خود سے جدا محسوس ہونے لگتا ہے، جیسے جسم سے باہر ہونے کا تجربہ ہو اور اۤپ خود کو بات کرتے دیکھ رہے ہوں۔ " خود کو سنبھالو" آپ کہتے ہیں مگر ایسا کر نہیں پاتے۔ اور صورتحال مزید خراب ہونے لگتی ہے: گفتگو کے چند منٹ گزرنے پر، وہ شخص جس سے اۤپ بات کر رہے تھے چلا جاتا ہے، اور اۤپ خود کو بالکل شکست خوردہ محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب اۤپ کے ساتھ سماجی معاملات میں ایک طویل عرصے سے ہو رہا ہے. یا تصور کریں جب بھی اۤپ باہر جاتے ہیں، ایسی جگہ جہاں بہت سے لوگ جمع ہوں، آپ کو یہ گھبراہٹ بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جب آپ بہت سے لوگوں میں گھرے ہوتے ہیں، جیسے بس میں، اۤپ کو گرمی، متلی، بے چینی کا احساس ہوتا ہے، اس کیفیت کے رونما ہونے سے بچنے کے لئے، اۤپ ایسے مقامات کو نظرانداز کرنے لگتے ہیں جہاں خود کو تنہا اور الگ محسوس کریں. اۤپ یا کوئی اور دوسرا فرد ایسی دونوں صورتحال میں، ذہنی اضطرابی کیفیت کے مرض میں مبتلا ہیں، اور میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ اضطرابی بیماری بہت عام ہے اس سے کہیں زیادہ جتنا لوگ سوچتے ہیں اس وقت دنیا بھر میں ہرچودھواں فرد اضطرابی بیماری کا شکار ہے, اور ہر سال 42 بلین ڈالرز خرچ ہوجاتے ہیں، اس ذہنی بیماری کا علاج کے لیے۔ کسی کی زندگی پراس اضطراب کے اثرات سے آپ کو آگاہ کرنے کے لئے میں صرف یہ وضاحت کروں گی کہ یہ اضطراب ذہنی دباوٗ، اسکول چھوڑنے، یا خود کشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ توجہ کرنا مشکل بنا دیتی ہے، نتیجتاً ملازمت پر برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر بہت سے لو گ اس بات سے واقف نہیں ہیں، اسی لیے ،کئی بار، لوگ اپنے اضطراب کونظرانداز کرنے لگتے ہیں جیسے کہ عام پریشانی پر قابو پانا، جیسے کمزوری پر، مگر اضطراب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا اسے اہم نہ سمجھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ دراصل یہ ہے کیا!! کیا یہ آپ کی شخصیت ہے؟ کوئی بیماری ہے؟ کوئی عام احساس ہے؟ یہ ہے کیا؟ اس لیے اس میں فرق واضح کرنا ضروری ہے عام اضطراب کیا ہے؟ سے لے کر اضطرابی بیماری تک. عام اضطراب ایک احساس ہے جسے ہم سب محسوس کرتے ہیں جب ہم کسی پریشان کُن صورتحال کا شکار ہوتے ہیں مثلاََ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کسی جنگل میں ہیں، اور آپ کے رُوبرو ایک ریچھ آ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے آپ پر کچھ گھبراہٹ طاری ہوجائے، اور شاید آپ دیوانہ وار بھاگنا شروع کردیں۔ پریشانی کا یہ احساس ہونا، اچھا ہے، کیونکہ یہ آپ کی حفاظت کرتا ہے، بچاتا ہے اور آپ میں اس جگہ سے بھاگنے کا احساس پیدا کرتا ہے, ممکن ہے ریچھ کو دیکھ کر ایسے بھاگنا کوئی ایسا اچھا خیال نہ ہو۔ میرا نہیں خیال کہ آپ ریچھ بآسانی کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اضطراب ہمارے کاموں کو بروقت مکمل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور زندگی کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے مگر جب یہ اضطرابی کیفیت حد سے زیادہ بڑھ جائے اور ایسے حالات میں پیدا ہو جو دراصل پُرخطر ہوں ہی نہیں، یہی وہ وقت ہے جب ممکنہ طور پر آپ اضطرابیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ مثلاََ وہ لوگ جو عمومی اضطرابیت کا شکار ہیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں حد سے زیادہ اور مستقل طور پر پریشان رہتے ہیں، اور ان کے لئے اس پریشانی پر قابو پانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔ اوروہ اس کی دوسری علامات مثلاََ خوف اور بے چینی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں، ان کے لیے رات کو سونا بھی مشکل ہوتا ہے اوروہ اپنے کام پر توجہ بھی نہیں دے پاتے۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کس قسم کے اضطراب سے گزر رہے ہیں، کچھ ایسا ہے جس پر عمل کر کے آپ اس اضطراب میں کمی لاسکتے ہیں۔ یہ بے حد کار آمد ہے، اور آپ کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ آسان۔ اکثر اوقات ہمیں ذہنی عارضے کی دوائیں دی جاتی ہیں، لیکن یہ ہربار کی طرح لمبے عرصے تک اثر نہیں کرتیں۔ علامات پھر پیدا ہوجاتی ہیں اور آپ وہیں آجاتے ہیں، جہاں پہلے تھے۔ تو اس کے علاوہ بھی کچھ ایسا ہے جس پر غور کیا جاسکتا ہے: وہ انداز جس سے آپ مسائل سے نمٹتے ہیں وہ ایک براہِ راست اثر رکھتا ہے اس پر کہ آپ کس قدر اضطرابی کیفیت کا سامنا کر رہے ہیں، اوراگر آپ مسائل سے نمٹنے کے اسی انداز پر پر قائم رہیں تو اضطراب کو کم کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیمرج میں دورانِ تحقیق، ہمیں غریب علاقوں میں رہنے والی خواتین دکھائی گیئں جو امیرعلاقوں کی خواتین کے مقابلے میں اضطرابی کیفیت کا خطرہ زیادہ رکھتی ہیں۔ ان نتائج نے ہمیں بالکل حیران نہیں کیا، مگر جب ہم نے بغور مطالعہ کیا، تو ہمیں یہ علم ہوا کہ غریب علاقوں کی رہائشی خواتین، اگر اُن کے پاس اضطراب کے مقابلے کے خاص ذرائع ہوتے، تو انھیں اضطرابی بیماری ہوتی ہی نہیں، غریب طبقہ کی خواتین مقابلے کے ذرائع نہ ہونے کے باعث اضطرابی بیماری کا شکار ہوئیں۔ دیگر تحقیقات نے یہ واضح کیا کہ وہ افراد جنھوں نے انتہائی سخت حالات کا سامنا کیا، جنھوں نے مشکلات کا سامنا کیا، جنگوں اور قدرتی آفات سے گزرے، اگر ان کے پاس مقابلے کے ذرائع ہوتے، تو وہ صحت مند رہتے اور ذہنی عارضے سے آزاد ہوتے، جبکہ دیگرافراد، ایسی ہی مشکلات میں مگر بچاوٗ کی صلاحیتوں کے بغیر ہیجانی کیفیت کا شکار ہوکر ذہنی عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو پھر یہ چند مقابلے کے ذرائع ہیں کیا، اور ہم انھیں کیسے اپنی اضطرابی کیفیت کو کم کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ اس سے قبل میں آپ کو بتاؤں، کہ وہ ہیں کیا، میں ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گی۔ اور میرے خیال میں یہ بےحد دلچسپ ہے۔ آپ مقابلے کے یہ ذرائع یا صلاحیتیں خود اپنے اندر پیدا کرسکتے ہیں اُن کاموں کے ذریعے جو آپ کرتے ہیں؛ آپ اپنے اضطراب پر قابو پاسکتے ہیں اور اسے کم کرسکتے ہیں، جو میرے خیال میں بے حد طاقت دینے والی چیز ہے آج میں اس کیفیت سے بچاؤ کے تین ذرائع پر بات کروں گی، سب سے پہلے نکتے سے آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ زندگی پر اختیار رکھتے ہیں. وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ زیادہ اپنی زندگی کے بس میں ہیں ان کی ذہنی صحت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ زندگی آپ کے اختیار میں نہیں، تو تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ خود کو ایسے تجربات سے گزاریں جو آپ کومزید بااختیار بنائیں۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میرا کیا مطلب ہے: کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا کہ آپ نے کوئی کام شروع کر کے چھوڑ دیا کیونکہ آپ خود کو اس کے لیے تیار نہیں پاتے؟ کیا آپ کو فیصلہ کرتے ہوئے مشکل ہوتی ہے؟ جیسے کہ کیا پہنا جائے، کیا کھایا جائے؟ کس سے ملا جائے، کون سی ملازمت کی جائے؟ کیا آپ بہت زیادہ وقت ضائع کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنے میں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیئے جب کچھ نہ ہو رہا ہو؟ عدم فیصلے اور زندگی پر اختیار کی کمی کو دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے, کہ ہر عمل برے طریقے سے کیا جائے۔ مصنف اور شاعر جی کے چیسٹیرٹن کا قول ہے کہ "کوئی بھی قابلِ قدر کام پہلی بار برے طریقے سے کرنا قابلِ قدر ہے ۔" اس کا ایسا اچھے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ آپ کے فیصلہ سازی کے عمل کو تیز کرتا ہے اور آپ کو کام میں مستعد رکھتا ہے، وگرنہ، آپ کئی گھنٹے ضائع کر سکتے ہیں یہ فیصلہ کرنے میں کہ کسی کام کو کیسے انجام دیا جائے یا آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ اس سے محتاجی یہاں تک کہ کاموں کوآغاز کرنے کا خوف جنم لے سکتے ہیں۔ اکثر اوقات ہم ہر کام بہترین چاہتے ہیں، مگر بالآخرکچھ بھی کرنہیں پاتے کیونکہ جو معیار ہم نے اپنے لیے بنائے ہیں بہت اعلیٰ ہیں، مگر یہ خوفزدہ کرتے ہیں، جو ہم پر اتنا دباؤ ڈالتا ہے کہ ہم کاموں کو شروع کرنےمیں ہی دیر کردیتے ہیں، یا ہوسکتا ہے کہ ہم مکمل طور پر وہ کام کرنا ہی چھوڑ دیں۔ برے طریقے سے کام کرنا، آپ کو ہر عمل میں آزادی دیتا ہے، یعنی آپ جانتے ہیں ،یہ کیسے ہوتا ہے: اکثر ہم کوئی بہترین کام کرنا چاہتے ہیں مگر شروع نہیں کرپاتے جب تک کہ مناسب وقت نہ ہو، جب تک ہم وہ سب صلاحیتیں حاصل نہ کر لیں، مگر یہ دباوٗ اور پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے تو کیوں نہ بس اس کام کو شروع کر دیں، چاہے جیسے بھی ہو، بغیر کسی اچھے یہ برے ہونے کی فکر کے؟ یہ کسی بھی کام کو شروع کرنا بہت آسان کردے گا گویا آپ شدت کے ساتھ اسے پایہٗ تکمیل تک پہنچانا چاہ رہے ہوں، اور جب آپ پلٹ کر دیکھیں، آپ محسوس کریں گے کہ پہلے کے مقابلے میں، درحقیقت یہ کچھ ایسا برا بھی نہیں ہے۔ میری ایک قریبی دوست جو اضطرابی کیفیت کی شکار ہے اس نے اس مقولے پر عمل کرنا شروع کیا اور وہ یہ کہتی ہے کہ، "جب میں نے اس مقولے پر عمل کرنا شروع کیا، تو میری زندگی بدل گئی۔ مجھے احساس ہوا کہ پہلے کے مقابلے میں، میں اب زیادہ جلدی کام مکمل کر لیتی ہوں۔ اس شدت نے مجھ میں خطرہ مول لینے، کچھ مختلف کرنے کی کوشش کی ہمت دی، اور اس پورے عمل سے میں لطف اندوز بھی ہوسکتی ہوں۔ یہ عمل اضطراب ختم کر کے اس کی جگہ جوش بھر دیتا ہے۔" تو برے طریقے کام کریں اور اس طرح سے آپ خود کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ آپ اس پر غور کریں: اگر آپ آج سے ہی اس مقولے پر عمل شروع کریں، تو آپ کی زندگی کس قدر بدل جائے گی؟ مقابلے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو معاف کریں، اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ بے حد طاقتور چیز ہے۔ اضطرابی کیفیت کا شکار افراد یہ بات بہت سوچتے ہیں کہ وہ کیا غلط کر رہے ہیں؟ ان کی پریشانیاں، اور وہ کتنا برا محسوس کر رہے ہیں۔ تصور کریں کہ آپ کا ایک دوست ہے جو مسلسل یہ کہتا رہتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں ، وہ غلط ہے، اور وہ سب کچھ جو آپ کی زندگی میں غلط تھا۔ ممکن ہے آپ چاہیں کہ اس دوست سے فوراً پیچھا چھڑایا جائے، کیا ایسا نہیں کریں گے؟ بالکل ایسے ہی اضطراب کا شکارافراد تمام دن اپنے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ خود سے کبھی نرمی نہیں برتتے۔ تو شاید اب وقت آگیا ہے کہ خود سے نرمی برتی جائے، خود اپنی مدد کرنا شروع کی جائے، اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو معاف کردیا جائے ان غلطیوں سے لے کر، جو آپ سے چند لمحے قبل سرزد ہوئیں ہوں، ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں تک۔ اگر آپ پر گبھراہٹ کا دورہ پڑا تھا اور آپ اس پر شرمندہ ہیں، تو خود کو معاف کردیں؛ اگر آپ کسی سے بات کرنا چاہتے تھے، مگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہو سکی، تو اس کی فکر نہیں کریں، اسے جانے دیں؛ خود کو معاف کردیں ہربات اور ہر عمل کے لئے، اور اس طرح آپ کو اپنی ذات سے بہترین برتاؤ کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ جب تک یہ کر نہیں لیتے، ٹھیک ہونا شروع نہیں ہوں گے۔ اور سب سے آخر مگر اہم، زندگی کا بامقصد اور بامعنی ہونا بچاؤ کا ایک بہت اہم طریقہ ہے۔ ہم زندگی میں جو کچھ بھی کریں، جو کچھ بھی تخلیق کریں، کتنی ہی دولت کیوں نہ حاصل کر لیں، ہم اس وقت تک خوش نہیں رہ سکتے جب تک علم نہ ہو کہ کسی کو ہماری ضرورت ہے، کہ ہماری کامیابیوں پر کوئی دوسرا شخص بھی انحصار کرتا ہے، یا ہماری اس محبت پرجو ہمیں بانٹنی چاہیے۔ ایسا نہیں کہ ہمیں ضرورت ہے دوسرے لوگوں سے اچھے الفاظ سننے کی، تاکہ زندگی میں ہم آگے بڑھ سکیں، لیکن اگر ہم دوسروں کے لیے کچھ بھی کرنے کی فکر نہیں کریں گے، تو پھر ایسے میں ہماری ذہنی صحت خراب ہونے کے امکان زیادہ ہیں۔ علم الاعصاب کے مشہور ماہر ڈاکٹر وکٹر فرینکل کہتے ہیں، "ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں کہ زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے اور زندگی سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی، یہ سوال ان لوگوں کو احساس دلانے کے لیے ہے کہ زندگی اب بھی ان سے کچھ توقعات رکھتی ہے۔" کسی فرد کوخیال میں رکھتے ہوئے کام کرنے سے آپ کو مشکل وقت گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح آپ اپنے ہونے کی وجہ جان جائیں گے اور کسی بھی طرح سے بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ تقریباََ ہر حال میں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ کسی شخص کے لیے کوئی ایک کام بھی کرسکتے ہیں؟ یہ کوئی رضاکارانہ عمل ہوسکتا ہے، یا یہ معلومات جو آپ نے آج یہاں حاصل کیں، اسے دیگر افراد کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں، بالخصوص ان کے ساتھ ، جنھیں اس کی زیادہ ضرورت ہے، اور ان میں وہ افراد زیادہ ہیں، جن کے پاس علاج کے پیسے نہیں، عام طور پر یہ وہ افراد ہیں جن کا شمار اضطرابی بیماری رکھنے والوں میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان تک یہ معلومات پہنچائیں، ان کے ساتھ بانٹیں، کیونکہ یہ یقیناً آپ کی ذہنی صحت کو بہتر کرسکتا ہے۔ تو میں یہاں اپنی بات کا خاتمہ کرنا چاہوں گی: کسی کا خیال کرتے ہوئے کوئی کام کرنے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کام کو اس طرح انجام دیا جائے جو آنے والی نسلوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ حتٰی کہ انھیں اس کا احساس بھی نہ ہو کہ آپ نے ان کے لیے کیا کِیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ آپ یہ جان جائیں گے اور اس سب سے آپ کو یہ احساس ہوگا کہ آپ کی زندگی کس قدر منفرد اور اہم ہے۔ آپ کا شکریہ (تالیاں)