ایک جنگ زدہ علاقہ میں والدین ہونا کیسا ہے
-
0:01 - 0:06دنیا بھر میں 1.5 ارب لوگ مسلح جنگ کی
آزمائش سے گزرتے ہیں۔ -
0:07 - 0:10اسکے جواب میں لوگ اپنا ملک چھوڑنے پرمجبور
ہو جاتے ہیں، -
0:10 - 0:13اس کا نتیجہ ڈیڑھ کروڑ مہاجرین ہیں۔
-
0:14 - 0:15بچے، بلا شبہ،
-
0:15 - 0:17سب سے معصوم اورغیر محفوظ شکار ہیں ...
-
0:19 - 0:21لیکن صرف ظاہری مادی خطرات کا نہیں،
-
0:21 - 0:26بلکہ اکثر ان جنگی اثرات کا بھی خاندان جن
کا سامنا کرتے ہیں مگر اس پر بات نہیں ہوتی۔ -
0:26 - 0:29جنگ کا سامنا کرنے سے بچے شدید خطرات کا
شکار بن سکتے ہیں -
0:30 - 0:32جذبات اور رویوں کی بڑھوتری کے حوالے سے۔
-
0:34 - 0:36بچے، جیسے ہم صرف تصور کر سکتے ہیں،
-
0:36 - 0:38پریشان ہوں گے، خوفزدہ اور خطرے میں محسوس
کریں گے۔ -
0:39 - 0:40لیکن اچھی خبر بھی ہے۔
-
0:40 - 0:44اپنے خاندان میں بچے جو معیاری
نگہداشت پاتے ہیں -
0:44 - 0:48اس کا ان کی بہتری پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے
-
0:48 - 0:51بہ نسبت جنگ کے ان اثرات سے جن کا سامنا
ان کو کرنا پڑتا ہے۔ -
0:52 - 0:55تو دراصل بچوں کو بچایا جا سکتا ہے
-
0:55 - 1:00محفوظ اور پر جوش تربیت سے، جنگ کے
دوران اور بعد میں۔ -
1:02 - 1:052011 میں، میں پی۔ایچ۔ڈی کی پہلے سال
کی طالبہ تھی -
1:05 - 1:08مانچسٹر یونیورسٹی کے
شعبہ نفسیاتی علوم میں۔ -
1:09 - 1:10یہاں موجود بہت لوگوں کی طرح،
-
1:11 - 1:14میں نے شام کے بحران کو ٹی۔وی پر ظاہر ہوتے
ہوئے دیکھا۔ -
1:15 - 1:17بنیادی طور پر میرا خاندان شام سے ہے،
-
1:17 - 1:18اور شروع میں ہی،
-
1:18 - 1:22میرے خاندان کے کئی افراد ہولناک طریقوں سے
اپنی جانیں ہار گئے۔ -
1:22 - 1:24میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر
ٹی وی دیکھتی۔ -
1:25 - 1:27ہم سب نے وہ مناظر دیکھے ہیں:
-
1:27 - 1:29بم عمارتوں کو تباہ کرتے ہوئے،
-
1:29 - 1:30افراتفری، بربادی
-
1:31 - 1:33اورچیختے ہوئے اور بھاگتے ہوئے لوگ۔
-
1:33 - 1:37چیختے ہوئے اور بھاگتے ہوئے لوگوں نے مجھ پر
سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ -
1:37 - 1:40خاص طور پر خوفزدہ بچوں نے۔
-
1:41 - 1:45میں دو چھوٹے متجسس بچوں کی ماں تھی۔
-
1:45 - 1:47وہ تب پانچ اور چھ سال کے تھے،
-
1:47 - 1:50عمر کے اس حصے میں جب وہ
بہت زیادہ سوال کرتے ہیں، -
1:50 - 1:52اور سچا اور قابل یقین جواب چاہتے ہیں۔
-
1:53 - 1:56تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ کیسا ہو گا
-
1:56 - 1:59اپنے بچوں کی پرورش کرنا جنگ زدہ علاقے
اور مہاجر کیمپ میں۔ -
2:00 - 2:02میرے بچے تبدیل ہو جائیں گے؟
-
2:03 - 2:06میری بیٹی کی خوش اور روشن آنکھیں اپنی
چمک کھو دیں گی؟ -
2:07 - 2:12میرے بیٹے کی پرسکون اور بے فکر طبیعت
دہشت زدہ اور سہمی ہوئی بن جائے گی؟ -
2:13 - 2:15میں کیسے سامنا کروں گی؟
-
2:15 - 2:17کیا میں بدل جاوں گی؟
-
2:19 - 2:21بطور ماہر نفسیات اورپرورش کے ماہر،
-
2:21 - 2:25ہم جانتے ہیں کہ والدین کو بچوں کی تربیت
کے حوالے سے ماہر بنانا -
2:25 - 2:27ان کی بہبود پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے،
-
2:28 - 2:30اور ہم اس کو والدین کی تربیت کہتے ہیں۔
-
2:31 - 2:33میرا سوال تھا کہ:
-
2:33 - 2:36کیا والدین کی تربیت کے پروگرام ان خاندانوں
کے لیے مفید ہو سکتے ہیں -
2:36 - 2:39جو جنگ زدہ علاقوں یا مہاجر کیمپوں میں ہیں؟
-
2:39 - 2:42کیا ہم ان کومشورے یا تربیت دے سکتے ہیں
-
2:42 - 2:44جو ان مشکلات میں ان کی مدد کر سکیں؟
-
2:46 - 2:49تو میں اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی نگران کے پاس گئی،
-
2:49 - 2:50پروفیسر ریچل کیلم،
-
2:50 - 2:54اس خیال سے کہ میں اپنی تعلیمی صلاحیتوں سے
عملی دنیا میں کوئی تبدیلی لا سکوں۔ -
2:55 - 2:57مجھے خود پتا نہیں تھا کہ میں
کیا کرنا چاہتی ہوں۔ -
2:58 - 3:00انہوں نے بہت توجہ اور تحمل سے بات سنی،
-
3:00 - 3:01اور میں بہت خوش ہوئی جب انہوں نے کہا،
-
3:02 - 3:04"اگر اس کی تمہارے نزدیک بہت اہمیت ہے اور
تم یہی کرنا چاہتی ہو -
3:04 - 3:06تو چلو یہ کرتے ہیں۔
-
3:06 - 3:09ایسے طریقے ڈھونڈتے ہیں کہ پتہ چلے کہ
والدین کی تربیت کے پروگرام -
3:09 - 3:11ان حالات میں خاندانوں کے لیے
فائدہ مند ہیں۔" -
3:12 - 3:15تو پچھلے پانچ سالوں سے میں اور میرے رفیق
-
3:15 - 3:17پروفیسر کیلم اور ڈاکٹر کم کارٹرائٹ --
-
3:17 - 3:20خاندانوں کو مدد دینے کے طریقوں
پر کام کر رہے ہیں -
3:20 - 3:22جو جنگ اورنقل مکانی بھگت چکے ہوں۔
-
3:24 - 3:27تو اب یہ جاننا کہ خاندانوں کی مدد
کیسے کریں جو جنگ دیکھ چکے ہیں -
3:27 - 3:28ان کے بچوں کی مدد کریں،
-
3:28 - 3:32پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ان سے پوچھیں کہ
ان کے مسائل کیا ہیں؟ -
3:32 - 3:33ٹھیک ہے؟
-
3:33 - 3:35میرا مطلب ہے، یہ ظاہری بات ہے۔
-
3:35 - 3:37لیکن اکثر جو خطرے کی زد میں ہوں،
-
3:37 - 3:39جن کی مدد کی ہم کوشش کریں،
-
3:39 - 3:40ہم ان سے اکثر نہیں پوچھتے۔
-
3:40 - 3:43ہم اکثر یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ
ٹھیک ٹھیک پتہ ہے -
3:43 - 3:47جو ان کے لئے یا کسی چیز کے لئے فائدہ مند
ہو گا، ان سے پوچھے بغیر ہی؟ -
3:47 - 3:51تو میں شام اور ترکی کے مہاجرین کیمپوں
میں گئی، -
3:51 - 3:53اور خاندانوں کے ساتھ بات چیت کی۔
-
3:54 - 3:57میں نے ان کے پرورش کے مسائل کو سنا،
-
3:57 - 3:59میں نے ان کی پرورش کی مشکلات کو سنا
-
3:59 - 4:01اور میں نے ان کی مدد کی آواز کو سنا۔
-
4:02 - 4:04اور کئی دفعہ یہ سب کچھ رک سا گیا،
-
4:04 - 4:06کیونکہ میں صرف ان کے ساتھ کھڑی رہ سکتی تھی
-
4:06 - 4:08اور ان کے ساتھ آنسو بہا سکتی تھی
اور دعا کر سکتی تھی۔ -
4:09 - 4:11انہوں نے مجھے اپنی مشکلات بتائیں،
-
4:11 - 4:15انہوں نے مجھے مہاجر کیمپوں میں اپنے کٹھن
اور دشوار معمولات کے بارے میں بتایا -
4:15 - 4:18جس کی وجہ سے ان کی توجہ صرف روزمرہ
کے معمولات پر ہوتی تھی -
4:18 - 4:20جیسے صاف پانی کا حصول۔
-
4:21 - 4:24انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں
کی پس پائی دیکھی؛ -
4:24 - 4:27اداسی، دباو، غصے کی طرف،
-
4:27 - 4:30بستر پر پیشاب کرنے، انگوٹھا چوسنے،
بلند آوازوں سے ڈرنے کی طرف، -
4:30 - 4:32ڈراونے خوابوں کی طرف --
-
4:32 - 4:34ہولناک ڈراونے خوابوں کی طرف۔
-
4:35 - 4:39ان خاندانوں نے اس سب کا سامنا کیا ہے جو ہم
ٹی۔وی پر دیکھتے رہے ہیں۔ -
4:39 - 4:40مائیں --
-
4:40 - 4:43تقربیاٌ ان میں سے آدھی
جنگ کی وجہ سے بیوہ ہوئیں، -
4:43 - 4:45یا بے خبر تھیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں
یا مارے گئے -- -
4:45 - 4:48انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی
کتنی مشکل تھی۔ -
4:49 - 4:54انہوں نے اپنے بچوں کو بدلتے دیکھا لیکن
ناواقف تھیں کہ انکی مدد کیسے کریں۔ -
4:54 - 4:57ان کو معلوم نہیں تھا کہ بچوں کے سوالات کا
کیسے جواب دیں۔ -
4:57 - 5:01جو حیران کن اور نہایت ترغیب دینے والی بات
معلوم ہوئی -
5:01 - 5:06کہ یہ خاندان اپنے بچوں کی مدد کے لیے
بہت پرجوش تھے۔ -
5:06 - 5:08ان تمام مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود،
-
5:08 - 5:10وہ اپنے بچوں کی مدد کرنے کی
کوشش کر رہے تھے۔ -
5:10 - 5:14وہ غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں سے مدد
حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے، -
5:14 - 5:16مہاجر کیمپ کے استادوں سے،
-
5:16 - 5:17تربیت یافتہ طبی ماہرین سے،
-
5:17 - 5:18دوسرے والدین سے۔
-
5:19 - 5:22میں ایک ماں سے ملی جو کیمپ میں
صرف چار دن سے تھی، -
5:22 - 5:24اور وہ پہلے ہی دو مرتبہ
کوشش کر چکی تھی -
5:24 - 5:26اپنی آٹھ سالہ بچی کی مدد کے لیے
-
5:26 - 5:28جس کو ڈراونے خواب آتے تھے۔
-
5:30 - 5:33لیکن افسوس کی بات، یہ کوششیں تقریباً
ہمیشہ بے سود رہیں۔ -
5:34 - 5:36مہاجر کیمپ کے ڈاکٹر، جب آتے تھے،
-
5:36 - 5:38بہت مصروف ہوتے تھے،
-
5:38 - 5:42یا ان کے پاس وقت نہیں تھا یا پرورش کے بارے
میں بنیادی معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ -
5:42 - 5:45مہاجر کیمپ کے اساتذہ اور دوسرے والدین
کا بھی یہی حال تھا -- -
5:46 - 5:50وہ بھی اسی نئے مہاجر طبقے کا حصہ تھے جو
زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما تھا۔ -
5:51 - 5:53تو پھر ہم سوچنے لگے۔
-
5:54 - 5:56ہم ان خاندانوں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
-
5:57 - 6:01ان کے مسائل ان کی استطاعت سے بڑھ کر تھے۔
-
6:01 - 6:03شام کے بحران نے یہ واضح کر دیا
-
6:03 - 6:08ناقابل یقین حد تک کتنا نا ممکن ہو گا
انفرادی طور پر خاندانوں کی مدد کرنا۔ -
6:08 - 6:10ہم اور کیسے ان کی مدد کر سکتے تھے؟
-
6:10 - 6:14ہم عام خاندانوں تک کیسے پہنچیں گے
-
6:14 - 6:16کم خرچ میں
-
6:17 - 6:20اس خوفناک اور ڈراونے وقت میں؟
-
6:21 - 6:23غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں سے
طویل گفتگو کے بعد، -
6:23 - 6:26کسی نے ایک اچھوتا خیال پیش کیا
-
6:26 - 6:31پرورش کے متعلق کتابچہ روٹی کے لفافوں کے
ذریعے تقسیم کرنے کا -- -
6:31 - 6:35روٹی کے لفافے جو شام کے جنگ زدہ علاقوں
میں خاندانوں میں تقسیم کیے جاتے تھے -
6:35 - 6:37انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے ذریعے۔
-
6:37 - 6:39پھر ہم نے یہی کیا۔
-
6:39 - 6:42روٹی کے لفافوں کی شکل و صورت بالکل تبدیل
نہیں ہوئی، -
6:42 - 6:44بس ان میں کاغذ کے دو ٹکڑوں کا اضافہ
کیا گیا۔ -
6:45 - 6:50ایک پر پرورش سے متعلق بینادی معلومات
اور ہدایات تھیں -
6:50 - 6:53جو بتاتا تھا کہ جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے
ان حالات میں معمول کی بات ہے، -
6:53 - 6:55اور وہ بھی جو ان کے بچے محسوس کر رہے ہیں۔
-
6:55 - 6:59اور اس بارے میں معلومات کہ وہ کیسے اپنی
اور اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں، -
6:59 - 7:03جیسے کہ اپنے بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ
بات چیت کرنا، -
7:03 - 7:05اس کے ساتھ غیر معمولی شفقت سے پیش آنا،
-
7:05 - 7:07اس کے ساتھ زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا،
-
7:07 - 7:09اس کے ساتھ گپ شپ لگانا۔
-
7:09 - 7:12کاغذ کا دوسرا ٹکڑا سوالنامہ برائے
تجاویز تھا، -
7:12 - 7:14اوریقیناً اس میں ایک پین بھی تھا۔
-
7:14 - 7:18تو کیا یہ صرف کتابچوں کی تقسیم تک ہے،
-
7:18 - 7:21یا پھر یہ واقعی نفسیاتی مدد فراہم کرنے کا
ابتدائی ذریعہ ہے -
7:22 - 7:25جو محفوظ، پر جوش اور محبت بھری پرورش
فراہم کرتی ہے؟ -
7:25 - 7:29ہم صرف ایک ہفتے میں 3000 کتابچے تقسیم کرنے
میں کامیاب ہو گئے۔ -
7:30 - 7:34جو چیز حیران کن تھی وہ
60% جوابی رابطہ تھا۔ -
7:34 - 7:38ان 3000 خاندانوں میں سے %60 نے جواب دیے۔
-
7:38 - 7:41میں نہیں جانتی کہ آج یہاں
کتنے محققین موجود ہیں، -
7:41 - 7:43لیکن اس قسم کی جوابی شرح متاثر کن ہے۔
-
7:43 - 7:46مانچسٹر میں بھی یہ ملنا بڑی کامیابی ہو گی،
-
7:46 - 7:49نہ کہ شام کے جنگ زدہ علاقے میں --
-
7:49 - 7:53یہ اس بات کی اہمیت اجاگر کرتا ہے کہ اس قسم
کے پیغامات خاندانوں کے لیے کتنے اہم تھے۔ -
7:55 - 7:59مجھے یاد ہے کہ ہم کتنے مشتاق اور پرجوش تھے
ان سوالناموں کے واپس آنے کے لیے۔ -
7:59 - 8:02خاندانوں نے سینکڑوں پیغامات بھیجے تھے --
-
8:02 - 8:04حیران کن طور پر مثبت اور حوصلہ افزا۔
-
8:04 - 8:06لیکن میرا پسندیدہ یہ ہے،
-
8:06 - 8:09"ہمیں اور ہمارے بچوں کو
نہ بھولنے کا شکریہ ۔ " -
8:10 - 8:12یہ دکھاتا ہے پوشیدہ امکانات
-
8:12 - 8:15خاندانوں کو ابتدائی نفسیاتی امداد
پہنچانے کے، -
8:15 - 8:17اور جوابی رابطہ کے بھی۔
-
8:17 - 8:20ذرا سوچیے اسی عمل کو دوسرے ذرائع سے دہرانا
-
8:20 - 8:24جیسے بچوں کے دودھ کی تقسیم کے ذریعے سے یا
نسوانی حفظان صحت کے سامان کے ساتھ، -
8:24 - 8:27یا پھر خوراک کی ٹوکریوں کے ذریعے۔
-
8:28 - 8:30چلیں معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں،
-
8:30 - 8:31کیونکہ مہاجرین کا بحران
-
8:31 - 8:34ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔
-
8:35 - 8:39ہم سب ان گنت تصاویر اور
اعداد و شمار دیکھتے ہیں، -
8:39 - 8:41اور یہ حیران کن نہیں ہے۔
-
8:41 - 8:42کیونکہ پچھلے مہینے تک،
-
8:42 - 8:4510 لاکھ مہاجرین یورپ پہنچ چکے تھے۔
-
8:45 - 8:4610 لاکھ۔
-
8:47 - 8:50مہاجرین ہمارے معاشروں میں شامل ہو رہے ہیں،
-
8:50 - 8:52وہ ہمارے ہمسائے بن رہے ہیں،
-
8:52 - 8:54ان کے بچے ہمارے بچوں کے سکولوں میں
داخل ہو رہے ہیں۔ -
8:55 - 8:59چناچہ ہم نے ایسے کتابچے بنائے جو
یورپی مہاجرین کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں، -
9:00 - 9:02اور وہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، سب کے لیے،
-
9:02 - 9:05ان علاقوں میں بھی جہاں مہاجرین کی آمد
زیادہ ہے۔ -
9:05 - 9:08مثال کے طور ہر سویڈن کے محکمہ صحت نے اسے
اپنی ویب سائٹ پر رکھا ہے۔ -
9:08 - 9:10اور پہلے 45 منٹ کے اندر،
-
9:10 - 9:13اسے 343 بار ڈاون لوڈ کیا گیا --
-
9:13 - 9:15یہ اس کی اہمیت اجاگر کرتا ہے
-
9:15 - 9:18رضاکاروں، پیشہ وروں اور
دوسرے والدین کے لیے -
9:18 - 9:21ابتدائی نفسیاتی امداد کے پیغامات
تک سب کی رسائی کا ہونا۔ -
9:23 - 9:292013 میں، میں مہاجر کیمپ کے ایک خیمے کے
ٹھنڈے، سخت فرش پر بیٹھی تھی -
9:29 - 9:33ماوں کے حلقہ میں،
سوالات جوابات کی محفل سجائے۔ -
9:33 - 9:36میرے سامنے ایک بوڑھی خاتون تھیں
-
9:36 - 9:39ان کے ساتھ ایک لڑکی لیٹی تھی جسکی عمر
لگ بھگ 13 سال ہو گی، -
9:39 - 9:42اس کا سر ان خاتون کے گھٹنے پر تھا۔
-
9:42 - 9:45وہ لڑکی اس پوری محفل کے دوران خاموش رہی،
-
9:45 - 9:46بالکل بھی نہیں بولی،
-
9:46 - 9:48اپنے گھٹنے سینے کے ساتھ سمیٹے ہوئے۔
-
9:49 - 9:51سوالات جوابات کی محفل کے آخر میں،
-
9:51 - 9:54جب میں ماوں کا وقت نکالنے کے لیے
شکریہ ادا کر رہی تھی، -
9:54 - 9:57اس بزرگ خاتون نے اس لڑکی کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے میری طرف دیکھا، -
9:57 - 9:59اور کہا، "کیا آپ ہماری مدد کر سکتی ہیں؟"
-
10:00 - 10:02ٹھیک معلوم نہیں وہ میرے سے کیا چاہتی تھیں،
-
10:02 - 10:04میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اور مسکرائی،
-
10:04 - 10:06اور عربی میں کہا،
-
10:06 - 10:08"اسلام علیکم، شو اسمک؟"
-
10:08 - 10:09"تمہارا نام کیا ہے؟"
-
10:10 - 10:12اس نے الجھی ہوئی نظروں اور
بیزاری سے مجھے دیکھا، -
10:12 - 10:14لیکن کہا، "حلول"۔
-
10:15 - 10:19حلول عربی میں زنانہ نام حالہ
کی بگڑی ہوئی شکل ہے، -
10:19 - 10:22اور صرف چھوٹی لڑکیوں
کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ -
10:23 - 10:27اس وقت مجھے احساس ہوا کہ شاید حالہ
13 سال سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ -
10:28 - 10:32پتہ چلا کہ حالہ 25 سال کی تھی اور
تین چھوٹے بچوں کی ماں تھی۔ -
10:33 - 10:37حالہ ایک چلبلی، پر اعتماد، ذہین، اور
پیار کرنے والی ماں تھی -
10:37 - 10:38اپنے بچوں کے لیے،
-
10:38 - 10:40لیکن جنگ نے یہ سب بدل دیا۔
-
10:41 - 10:45اس نے بموں کو اپنے قصبے پر گرتے دیکھا؛
-
10:45 - 10:48وہ دھماکوں میں زندگی گزارتی رہی۔
-
10:48 - 10:51جب لڑاکا طیارے اس کی رہائشی عمارت کے
گرد پرواز کر تے تھے -
10:51 - 10:52بم گراتے تھے،
-
10:52 - 10:55اس کے بچے ان آوازوں سے ڈر کر
چیخیں مارتے تھے۔ -
10:55 - 10:58حالہ وحشت کے عالم میں تکیے اٹھا کر
ان کے کان بند کرتی تھی -
10:58 - 10:59تاکہ آوازیں رک سکیں،
-
10:59 - 11:01حالانکہ وہ خود چیخ رہی ہوتی تھی۔
-
11:02 - 11:04جب وہ مہاجر کیمپ پہنچے
-
11:04 - 11:07اور اس کو احساس ہوا کہ وہ
کسی حد تک محفوظ ہیں، -
11:07 - 11:10وہ مکمل طور پر تبدیل ہو گئی اور
اپنے ماضی میں، بچپن میں کھو سی گئی۔ -
11:11 - 11:13اس نے اپنے خاندان کو ٹھکرا دیا --
-
11:14 - 11:16اپنے بچوں کو، اپنے شوھر کو۔
-
11:17 - 11:19حالہ مزید مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
-
11:21 - 11:23یہ بچوں کی پرورش کی جدوجہد تھی
جس کا انجام بہت تلخ ہے، -
11:23 - 11:25لیکن افسوس، یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔
-
11:25 - 11:28جو مسلح لڑائی اورہجرت سہتے ہیں
-
11:28 - 11:31وہ شدید جذباتی کشمکش سے گزرتے ہیں۔
-
11:32 - 11:34اور ہم سب اس سے آشنا ہیں۔
-
11:35 - 11:38اگر آپ کی زندگی میں کبھی ایسا
تباہ کن وقت آیا ہے، -
11:39 - 11:42اگر آپ نے کبھی کوئی عزیز
شخص یا شے کھوئی ہے، -
11:43 - 11:45آپ کیسے جدوجہد جاری رکھتے ہیں؟
-
11:47 - 11:50کیا آپ تب بھی اپنا اور اپنے خاندان کا
خیال رکھ سکتے ہیں؟ -
11:51 - 11:55یہ مانتے ہوئے کہ بچے کی زندگی کے
ابتدائی سال اہم ہیں -
11:55 - 11:58اس کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے،
-
11:58 - 12:03اور یہ کہ 1.5 ارب لوگ مسلح جنگ کی
آزمائش سے گزر رہے ہیں -- -
12:03 - 12:06ان میں سے بہت سے
ہمارے معاشروں کا حصہ بن رہے ہیں -- -
12:06 - 12:08ہم منہ نہیں پھیر سکتے
-
12:08 - 12:13ان کی ضروریات سے جو جنگ اور ہجرت
سے گزر رہے ہیں۔ -
12:13 - 12:15ہمیں ان خاندانوں کی ضروریات کو
سرفہرست رکھنا ہو گا -- -
12:15 - 12:20جو اندرون ملک یا دنیا بھر میں
ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ -
12:21 - 12:26ان ضروریات کو اہمیت دینی ہو گی این۔جی۔اوز
کے کارکنوں، پالیسی بنانے والوں کی جانب سے -
12:26 - 12:30ڈبلیو۔ایچ۔او، یو۔این۔ایچ،سی،آر اور
ہم سب کی طرف سے -
12:30 - 12:34ہمارا معاشرے میں چاہے جو بھی کردار ہو۔
-
12:36 - 12:41جب ہم تنازعے کی انفرادی صورتوں کو
پہچاننا شروع کر دیں گے، -
12:41 - 12:45جب ہم ان کی شکلوں پر پائے جانے والے
پیچیدہ جذبات کو سمجھنے لگیں گے، -
12:45 - 12:47تب ہم ان کو بھی انسان سمجھنے لگیں گے۔
-
12:48 - 12:51تب ہم ان خاندانوں کی ضروریات
کا خیال کریں گے، -
12:51 - 12:52اور یہ حقیقی انسانی ضروریات ہیں۔
-
12:54 - 12:57جب خاندانی ضروریات کی ترجیح طے ہوتی ہے،
-
12:57 - 13:00بچوں کے لئے مداخلت کرنا
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر -
13:00 - 13:05بنیادی طور پر اس کو ترجیح ملے گی
خاندان کے کردار کو بچوں کو مدد دینے میں۔ -
13:06 - 13:08خاندان کی ذہنی صحت اولین ترجیح ہو گی
-
13:08 - 13:10عالمی اور بین الاقوامی ترجیحات میں۔
-
13:11 - 13:15اور بچوں کو سماجی خدمت کے اداروں میں
بھیجنے کا امکان کم ہو گا -
13:15 - 13:16ان کے نو آباد ممالک میں
-
13:16 - 13:19کیونکہ ان کے خاندانوں کو پہلے
ہی مدد مل چکی ہو گی۔ -
13:21 - 13:23اور ہم زیادہ وسیع النظر ہوں گے،
-
13:23 - 13:25زیادہ پرجوش اور زیادہ روادار
-
13:25 - 13:29اور زیادہ اعتماد کریں گے ان پر جو ہمارے
معاشروں میں شامل ہو رہے ہیں۔ -
13:30 - 13:32ہمیں جنگوں کو روکنا ہے۔
-
13:33 - 13:37ہمیں ایسی دنیا بنانی ہے جہاں بچے ایسے خواب
دیکھ سکیں کہ طیارے کھلونے گراتے ہیں، -
13:37 - 13:39بم نہیں۔
-
13:39 - 13:43جب تک ہم مسلح جنگوں کو دنیا میں
انتشار پھیلانے سے نہیں روکیں گے، -
13:43 - 13:46خاندان ہجرت کرتے رہیں گے،
-
13:46 - 13:48بچے خطروں سے دوچار ہوتے رہیں گے۔
-
13:48 - 13:51لیکن پرورش اور دیکھ بھال میں مدد
کے نظام کو بہتر کرنے سے، -
13:51 - 13:56شاید یہ ممکن ہو کہ جنگوں اور اس سے جڑی
نفسیاتی مشکلوں کو کم کیا جا سکے -
13:56 - 13:58بچوں اور ان کے خاندانوں میں۔
-
13:59 - 14:00شکریہ۔
-
14:00 - 14:02(تالیاں)
- Title:
- ایک جنگ زدہ علاقہ میں والدین ہونا کیسا ہے
- Speaker:
- اعلی ال خانی
- Description:
-
والدین اپنے بچوں کو کیسے بچاتے ہیں اور ان کو محفوظ ہونے کا احساس کیسے دلاتے ہیں جبکہ ان کے گھر جنگ سے تباہ ہو چکے ہوتے ہیں؟ اس دل گداز گفتگو میں ماہر نفسیات اعلی ال خانی اپنے مدد کے کام کے بارے میں بتاتی ہیں -- اور یہ کہ شام میں خانہ جنگی سے متاثرہ مہاجر خاندانوں سے انہوں نے کیا سیکھا۔ وہ پوچھتی ہیں: ہم ان پیار کرنے والے والدین کی کیسے مدد کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی محفوظ، بھرپور تربیت کر سکیں جو ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے؟
- Video Language:
- English
- Team:
- closed TED
- Project:
- TEDTalks
- Duration:
- 14:16
Umar Anjum edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Umar Anjum edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Syed Ali Raza accepted Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone | ||
Syed Ali Raza edited Urdu subtitles for What it's like to be a parent in a war zone |