کرس، آپ کا بہت شکریہ۔ یہاں آنے والے ہر کسی شخص کا کہنا تھا کہ وہ خوفزدہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں خوفزدہ ہوں لیکن میں زندگی میں پہلی بار اس طرح کی محفل سے خطاب کرنے لگی ہوں۔ اور میرے پاس آپ کو دکھانے کے لئے کوئی اسمارٹ ٹیکنالوجی بھی نہیں۔ میرے پاس کوئی سلائیڈز نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو صرف مجھے برداشت کرنا پڑے گا۔ (قہقہے)۔ آج صبح میں آپ کو کچھ کہانیاں سناؤں گی اور ایک مختلف افریقہ کے متعلق بات کروں گی۔ آج صبح پہلے ہی افریقہ کے متعلق بعض بالواسطہ باتیں ہوتی رہیں جو آپ تمام وقت سنتے ہوں گے: ایچ آئی وی/ایڈز میں مبتلا افریقہ، ملیریا کا شکار افریقہ، غربت کے چنگل میں پھنسا ہوا افریقہ، جنگ کی آماجگاہ افریقہ، اور تباہیوں کا شکار افریقہ۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ یہ سب کچھ وہاں ہو رہا ہے، لیکن افریقہ کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کے متعلق آپ زیادہ نہیں سنتے۔ اور بعض اوقات میں پریشان ہو جاتی ہوں اور خود سے سوال کرتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ وہ افریقہ ہے جو بدل رہا ہے، جس کے متعلق کرس نے بالواسط تذکرہ کیا۔ یہ وہ افریقہ ہے جہاں مواقع ہیں۔ یہ وہ افریقہ ہے جہاں لوگ اپنے مستقبل اور اپنی قسمتوں کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ اور یہ وہ افریقہ ہے جہاں لوگ اس کام کو کرنے کی غرض سے شراکت داروں کی تلاش میں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق میں آج بات کرنا چاہتی ہوں۔ اور میں اپنی گفتگو کا آغاز آپ کو افریقہ میں آنے والی تبدیلی کے متعلق ایک کہانی سنا کر کرنا چاہتی ہوں۔ 15 ستمبر 2005 کو نائیجیریا کی تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں میں سے ایک کے گورنر جناب ڈائی پریی عالم آئیصیغا کو دورہ لندن کے دوران لندن میٹرو پولیٹن پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کا سبب 8$ ملین کی بعض ایسے معطل اکاؤنٹوں میں منتقلی تھی جو ان کے خاندان اور ان کے نام پر تھے۔ گرفتاری لندن میٹرو پولیٹن پولیس اور نائیجیریا کے اقتصادی و مالیاتی جرائم کے کمیشن کے درمیان تعاون کے نتیجے میں عمل میں آئی جو کہ ہمارے ایک انتہائی قابل اور دلیر شخص جناب نوہو دبادو کی زیرِ سربراہی کام کر رہا ہے۔ عالم آئیصیغا کے خلاف لندن میں قانونی چارہ جوئی شروع کر دی گئی۔ کسی کوتاہی کے باعث، وہ ایک خاتون کا روپ دھار کر فرار ہوگیا اور لندن سے واپس نائیجیریا پہنچ گیا جہاں، دنیا کے کئی ممالک کی طرح ہمارے آئین کی رو سے بھی گورنر، صدر یا کسی دیگر عہدے کا قلمدان سنبھالنے والوں کو کو استثنا حاصل ہے اور انہیں سزا نہیں دی جاسکتی۔ لیکن ہوا کیا: لوگ اس کے رویے پر اتنے مشتعل تھے کہ ریاستی مقننہ کو اس کا مواخذہ کرنا پڑا اور اسے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ آج، عالم کے مختصر نام سے معروف یہ شخص جیل میں بند ہے۔ یہ اس حقیقت کی کہانی ہے کہ افریقہ کے عوام اب اپنے قائدین کی بدعنوانی کو مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ کہانی اس حقیقت کی ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے وسائل مناسب طریقے سے دیکھ بھال کے بعد ان پر خرچ ہوں، نہ کہ انہیں ایسے مقامات پر لے جایا جائے جہاں طبقہ اشرافیہ کے کچھ افراد ان سے مستفید ہوتے رہیں۔ اور اسی لئے، جب آپ بدعنوان افریقہ کے متعلق سنتے ہیں ۔۔ تمام وقت بدعنوانی کے قصے ۔۔ میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں کہ بعض ممالک میں عوام اور حکومتیں اس کے خلاف سختی سے نبرد آزما ہیں اور بعض کامیابیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ کیا اس سے یہ مراد ہے کہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، لیکن اس کا عزم پایا جاتا ہے۔ اور اس انتہائی اہم محاذ پر کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ، جب آپ بدعنوانی کے متعلق سنتے ہیں، تو یہ محسوس نہ کریں کہ اس کے متعلق کچھ نہیں کیا جا رہا ۔۔ کہ آپ کسی افریقی ملک میں اس لئے کام نہیں کر سکتے کہ وہاں بدعنوانی بہت زیادہ ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ لڑنے کا عزم موجود ہے، اور کئی ملکوں میں جنگ جاری ہے اور اس میں کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔ دیگر ممالک جیسا کہ میرے ملک نائیجیریا میں آمریت کی ایک طویل تاریخ ہے، وہاں بھی جنگ جاری ہے اور ہمیں ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا ہے۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ چیز جاری ہے۔ نتائج نظر آنا شروع ہوگئے ہیں: عالمی بینک اور دیگر اداروں کی خودمختار نگرانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی جگہوں پر بدعنوانی کے رجحان میں کمی آ رہی ہے اور نظم و نسق کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ اقتصادی کمیشن برائے افریقہ کے ایک تحقیقی مطالعے میں 28 افریقی ممالک میں نظم و نسق میں بہتری کا رجحان نظر آیا ہے۔ اور نظم و نسق کے اس شعبے پر بات ختم کرنے سے پہلے میں ایک چیز کا اضافہ کرنا چاہوں گی۔ کیونکہ لوگ بدعنوانی کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب تمام وقت وہ اس کے متعلق باتیں کرتے ہیں تو آپ کو فوراً افریقہ کا خیال آتا ہے۔ یہ افریقی ممالک کا تصور ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گی: اگر عالم لندن کے کسی اکاؤنٹ میں 8$ ملین منتقل کر سکتا تھا ۔۔ اگر رقم لے جانے والے دیگر لوگوں کا تخمینہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی رقم میں سے 20 سے 40 بلین اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں ۔۔ اگر وہ یہ کر سکتے ہیں تو پھر وہ کیا ہے؟ کیا وہ بدعنوانی نہیں ہے؟ اس ملک میں، اگر آپ چوری کا سامان خریدیں، تو کیا آپ کو سزا نہیں دی جاتی؟ تو جب ہم اس قسم کی بدعنوانی کی بات کریں، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ دنیا کی دوسری جانب کیا ہو رہا ہے ۔۔ رقم کہاں جا رہی ہے اور اسے روکنے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ میں اس وقت عالمی بینک کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہوں، جس میں ترقی پذیر ممالک کی بیرون ملک لے جائی جانے والی رقم کو واپس بھیجنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم بیرون ملک موجود 20$ بلین کو واپس لے آئیں تو یہ رقم ان میں سے چند ممالک کے لئے اس تمام رقم سے زیادہ ہوگی جو انہیں امداد کی صورت میں ملتی ہے۔ (تالیاں)۔ دوسری چیز جس کے متعلق میں بات کرنا چاہتی ہوں وہ اصلاح کا عزم ہے۔ افریقی، ہر کسی کی خیرات اور دیکھ بھال وصول کرتے کرتے تھک چکے ہیں، ہم تھک چکے ہیں۔ ہم مشکور ہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ اگر ہم میں اصلاح کا عزم ہو تو ہم اپنی قسمتوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ اور بہت سے افریقی ممالک میں اس وقت یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اس کام کو ہمارے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ ہمیں یہ کرنا ہے۔ ہم اپنی مدد کے لئے شراکت داروں کو مدعو کر سکتے ہیں، لیکن آغاز ہمیں ہی کرنا ہے۔ ہمیں اپنی معیشتوں کو سدھارنا ہے، اپنی قیادت میں تبدیلی لانا ہے، زیادہ جمہوری بننا ہے، تبدیلی اور معلومات کو کھلے ذہن سے قبول کرنا ہے۔ اور ہم نے براعظم افریقہ کے ایک سب سے بڑے ملک نائیجیریا میں اس کا آغاز کردیا ہے۔ درحقیقت، اگر آپ نے نائیجیریا نہیں دیکھا تو سمجھیں کہ آپ نے افریقہ نہیں دیکھا۔ میں یہ بات آپ کو بتا دینا چاہتی ہوں۔ (قہقہے)۔ سب صحارا افریقہ کے ہر چار افریقیوں میں سے ایک نائیجیریا کا باشندہ ہے، اور اس کی آبادی 140 ملین متحرک عوام ۔۔ بدنظم عوام ۔۔ پر مشتمل ہے جو انتہائی دلچسپ لوگ ہیں۔ آپ کبھی بور نہیں ہوں گے۔ (قہقہے)۔ ہم نے جس چیز کا آغاز کیا وہ یہ احساس تھا کہ کہ ہمیں حالات کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اور ایک ایسے قائد کی حمایت کے ساتھ جو اس وقت اصلاحات لانے کے لئے پر عزم تھا ہم نے اپنا تیار کردہ اصلاحات کا ایک جامع پروگرام سامنے رکھا۔ نہ تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور نہ ہی عالمی بینک جہاں میں نے 21 سال تک خدمات انجام دیں اور ترقی کر کے نائب صدر کے عہدے تک پہنچی۔ کوئی بھی آپ کے لئے یہ نہیں کر سکتا۔ آپ کو یہ خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ ہم نے ایک ایسا پروگرام تیار کیا جو، ایک: ریاست کو ایسے کاروباروں سے باہر نکالنا جس میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا ۔۔ اسے شمولیت کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ ریاست کو اشیا اور سروسز تیار کرنے کے کاروبار سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ غیر مؤثر اور نااہل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے بہت سے کاروباری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔ (تالیاں)۔ اس کے نتیجے میں ہم نے اپنی بہت سی مارکیٹوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ 2003 کے اختتام پر شروع ہونے والی اس اصلاح سے قبل، جب میں واشنگٹن سے رخصت ہو کر وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے پہنچی ۔۔ ہمارے یہاں ایک ایسی ٹیلی مواصلات کمپنی تھی جس نے اپنی 30 سالہ تاریخ میں محض 4,500 لینڈ لائنیں بچھائی تھیں؟ (قہقہے)۔ میرے ملک میں ٹیلیفون کی سہولت کو ایک بڑی عیاشی تصور کیا جاتا تھا۔ آپ کو یہ سہولت نہیں مل سکتی تھی۔ آپ کو اس کے لئے رشوت دینا پڑتی تھی۔ آپ کو اپنا ٹیلیفون حاصل کرنے کے لئے ہر پاپڑ بیلنا پڑتا تھا۔ جب صدر اوباسانجو نے ٹیلی مواصلات کے شعبے کی آزادی کی حمایت کی اور اسے شروع کیا، تو ہمارے ہاں لینڈ لائنوں کی تعداد 4,500 سے بڑھ کر 32 ملین جی ایس ایم لائنوں تک پہنچ گئی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چین کے بعد، نائیجیریا کی ٹیلی مواصلات کی مارکیٹ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے نمو پا رہی ہے۔ ہم ایک سال میں ٹیلی مواصلات کے شعبے میں تقریباً 1$ بلین کی سرمایہ کاریاں حاصل کر رہے ہیں۔ اور یہ بات چند ہوشیار لوگوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔ (قہقہے)۔ سب سے ہوشیار کمپنی جس نے اس سے فائدہ اٹھایا وہ جنوبی افریقہ کی ایم ٹی این کمپنی تھی۔ اور میری تین سالہ وزارت خزانہ کے دور میں، انہوں نے سالانہ 360$ ملین اوسط منافع کمایا۔ $360 ملین ایک ایسے ملک کی مارکیٹ میں جسے غریب ملک کہا جاتا ہے اور جس کی فی کس اوسط آمدنی 500$ سے تھوڑی کم ہے۔ چنانچہ، مارکیٹ تو وہاں موجود ہے۔ انہوں نے اسے چھپائے رکھا لیکن جلد ہی دوسروں کو بھی اس کی خبر مل گئی۔ نائیجیریا کے باشندے خود بھی بعض وائر لیس ٹیلی مواصلاتی کمپنیاں بنانے لگ گئے، اور تین یا چار دیگر بھی میدان میں آچکی ہیں۔ لیکن وہاں کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، اور لوگوں کو اس کا علم نہیں، یا پھر وہ جاننا نہیں چاہتے۔ چنانچہ، نجی کاری ان چیزوں میں سے ایک ہے جو ہم نے کی۔ دوسری چیز جو ہم نے کی وہ اپنے مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانا ہے۔ کیونکہ اگر آپ اپنے مالیاتی نظام کو بخوبی نہ چلا رہے ہوں تو کوئی بھی آپ کو مدد اور تعاون نہیں دیتا۔ اور تیل کے شعبے کے ہمراہ، نائیجیریا کی شہرت بدعنوان اور اپنے سرکاری مالیاتی نظام کا بہتر انتظام نہ کرنے والے ملک کی تھی۔ چنانچہ ہم نے کیا کرنے کی کوشش کی؟ ہم نے مالیاتی قاعدہ متعارف کرایا جس نے ہمارے بجٹ کا رابطہ تیل کی قیمت سے منقطع کر دیا۔ اس سے پہلے ہم اپنا بجٹ تیل کی مقدار کے حساب سے بنایا کرتے تھے کیونکہ معیشت میں تیل سب سے بڑا اور سب سے زیادہ محصول پیدا کرنے والا شعبہ ہے: ہمارے ملک کے %70 محاصل تیل سے آتے ہیں۔ ہم نے اس کا رابطہ منقطع کر دیا اور ایک بار یہ کام کرنے کے بعد ہم اپنا بجٹ تیل کی قیمت سے کچھ کم پر بنانا شروع ہو گئے اور اس قیمت سے اوپر رقم کو بچانے لگے۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ ہم کتنا عرصہ اسے کامیابی سے چلا سکتے ہیں؛ یہ کافی متنازعہ تھا۔ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ قیمتوں میں فوری اتار چڑھاؤ سے ہماری جان چھوٹ گئی جو ہماری اقتصادی ترقی کے لحاظ سے موجود تھی ۔۔ جہاں اگر تیل کی قیمتیں بلند ہوں تو ہماری نمو کی رفتار انتہائی تیز ہو جاتی تھی۔ جب وہ گرتی تھیں، تو ہماری معیشت گر جاتی تھی۔ اور اس معیشت میں ہم بمشکل ہی کسی چیز، تنخواہوں، کی ادائیگی کر سکتے تھے۔ اس میں ٹھہراؤ آگیا۔ ہم بچت کرنے کے قابل ہوگئے۔ اور جب میں نے حکومت چھوڑی تو ہم $27 بلین بچت کر چکے تھے، اور یہ ہمارے محفوظ ذخائر میں چلا گیا ۔۔ 2003 میں جب میں آئی تھی تو اس وقت محفوظ ذخائر میں محض 7$ بلین موجود تھے۔ جب میں روانہ ہوئی، تو اس وقت ہم تقریباً 30$ بلین تک پہنچ چکے تھے۔ اور اس وقت جب ہم باتیں کر رہے ہیں، ہمارے پاس محفوظ ذخائر میں 40$ بلین موجود ہیں جو ہمارے مالیاتی نظام کی مناسب انتظام کاری کے باعث ممکن ہوا۔ اور اس چیز سے ہماری معیشت کو سہارا ملتا ہے اور اسے استحکام حاصل ہوتا ہے۔ ہماری شرحِ تبادلہ جس میں تمام وقت اتار چڑھاؤ رہتا تھا اب کافی مستحکم ہے اور اس کا بندوبست کیا جا رہا ہے، تاکہ معیشت میں کاروباری افراد کو قیمتوں کے پیشگی اندازے لگانے میں مدد ملے۔ ہم افراطِ زر کو 28 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد تک لے آئے۔ اور ہماری مجموعی ملکی پیداوار گزشتہ دہائی کی اوسط 2.3 فیصد سے بڑھ کر اب تقریباً 6.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ چنانچہ وہ تمام تبدیلیاں اور اصلاحات جو ہم نے کیں ان کے نتائج نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور معیشت میں انہیں جانچا جا سکتا ہے۔ اور زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ ہم تیل سے ہٹ کر متنوع ہونا چاہتے ہیں ۔۔ اور افریقہ کے بہت سے ممالک کی طرح اس بڑے ملک میں بہت سے مواقع ہیں ۔۔ زیادہ قابل توجہ یہ چیز ہے کہ یہ نمو زیادہ تر تیل کے شعبے میں نہیں بلکہ تیل کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ہوئی۔ زراعت کے شعبے کی نمو 8 فیصد سے بہتر رہی۔ ٹیلی مواصلات کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں بھی نمو رہی اور یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ اور آپ کو یہ مثال دینے کے لئے ہے کہ جب ایک بار آپ ملکی معیشت کو درست کر لیتے ہیں، تو دیگر مختلف شعبوں میں بہت سے مواقع دستیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس زراعت میں مواقع ہیں، جیسا کہ میں نے بتایا۔ ہمارے ہاں ٹھوس معدنیات میں مواقع ہیں۔ ہمارا معدنی شعبہ بہت وسیع ہے جس پر اس سے پہلے کسی نے سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی کھوج لگایا۔ اور ہم نے محسوس کیا کہ اسے ممکن بنانے کے لئے مناسب قانون سازی کے بغیر، یہ کام نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ ہم نے کان کنی کا ایک ضابطہ تشکیل دیا ہے جس کا موازنہ دنیا کے بہترین ضابطوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ہاؤسنگ اور املاک کی خرید و فروخت کے شعبوں میں مواقع میسر ہیں۔ 140 ملین کی آبادی پر مشتمل اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا ۔۔ کوئی شاپنگ مال نہیں تھے جیسے آپ یہاں دیکھتے ہیں۔ یہ کسی کے لئے سرمایہ کاری کا موقع ثابت ہوا جس نے لوگوں کے تصور میں جوش پیدا کیا۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ اس شاپنگ مال میں کاروباری افراد اس سے چار گنا زیادہ کما رہے ہیں جس کا انہوں نے تخمینہ لگایا تھا۔ چنانچہ، تعمیرات، املاک، رہن کی مارکیٹوں میں بہت بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ مالیاتی سروسز: ہمارے یہاں 89 بینک تھے۔ ان میں سے بیشتر حقیقی معنوں میں کاروبار نہیں کر رہے تھے۔ ہم نے انہیں ضم کر کے 89 سے 25 بینکوں میں تبدیل کر دیا اور ان پر شرط عائد کی کہ وہ اپنے سرمایے ۔۔ سرمایہ حصص ۔۔ میں اضافہ کریں۔ اور یہ 25$ ملین سے بڑھ کر 150$ ملین ہوگیا۔ اب یہ بینک ضم ہو گئے ہیں اور بینکاری نظام کے استحکام نے بہت سی بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ برطانیہ کا بارکلیز بینک 500 ملین کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ 140 ملین کی سرمایہ کاری لایا ہے۔ اور اس طرح میں مزید بھی بتا سکتی ہوں۔ نظام میں ڈالر آتے چلے جا رہے ہیں۔ انشورنس کے شعبے میں بھی ہمارے یہاں یہی صورتحال ہے۔ چنانچہ، مالیاتی سروسز کے شعبے میں بہت بڑا موقع موجود ہے۔ سیاحت میں، افریقہ کے بہت سے ممالک میں کافی مواقع ہیں۔ اور بہت سے لوگ مشرقی افریقہ کو اسی سبب جانتے ہیں: جنگلی حیات، ہاتھی اور اسی طرح دیگر چیزیں۔ سیاحت کی مارکیٹ کا اس طرح انتظام کرنا کہ وہ لوگوں کو حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچائے انتہائی اہم ہے۔ چنانچہ میں کیا کہنے کی کوشش کر رہی ہوں؟ میں آپ کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ براعظم میں ایک نئی لہر چل رہی ہے۔ آزادی اور جمہوری رنگ دینے کی ایک نئی لہر جس میں، 2000 سے، دو تہائی افریقی ممالک میں کثیر جماعتی جمہوری انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تمام مثالی تو نہیں ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں، لیکن رجحان انتہائی واضح ہے۔ میں آپ کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ گزشتہ تین سالوں سے، براعظم میں نمو کی اوسط شرح 2.5 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 5 فیصد سالانہ ہو گئی ہے۔ یہ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے کئی ملکوں سے بہتر کارکردگی ہے۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ براعظم میں جاری لڑائیوں میں کمی آگئی ہے؛ ایک دہائی قبل تقریباً 12 جنگیں ہو رہی تھیں، اب یہ کم ہو کر تین یا چار جنگیں رہ گئی ہیں، ان میں سے ایک سب سے بدترین، بلاشبہ، دارفر ہے۔ اور آپ کو علم ہے کہ یہاں ہمسائیگی کا اثر پایا جاتا ہے جہاں اگر براعظم کے کسی حصے میں کچھ ہو رہا ہو تو یوں لگتا ہے کہ پورا براعظم متاثر ہے۔ لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ اس براعظم میں ایسا نہیں ہے ۔۔ یہ براعظم کئی ملکوں پر مشتمل ہے، اس میں کوئی ایک ملک نہیں۔ اور اگر ہمارے یہاں تنازعات کی تعداد گھٹ کر تین یا چار رہ گئی ہے، تو اس سے مراد ہے کہ مستحکم، نمو پذیر، پرجوش معیشتوں میں سرمایہ کاری کرنے کے کافی مواقع ہیں جہاں کافی زیادہ مواقع دستیاب ہیں۔ اور میں اس سرمایہ کاری کے متعلق صرف ایک نقطہ کہنا چاہوں گی۔ آج افریقیوں کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے مدد دینا ہے۔ اور ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ان کے لئے روزگار کےمواقع پیدا کرنے کے ذریعے مدد ہے۔ ملیریا کے خلاف جنگ اور اس مقصد کے لئے رقم دے کر بچوں کی جان بچانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو میں کہہ رہی ہوں۔ وہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن کسی خاندان پر پڑنے والے اثر کا تصور کریں: اگر والدین کو ملازمت مل سکتی ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کے بچے اسکول جا رہے ہیں، اور وہ بیماریوں کے خلاف خود لڑنے کے لئے ادویات خرید سکتے ہیں۔ اگر ہم ان جگہوں پر سرمایہ کاری کریں جہاں آپ ملازمتیں دینے اور لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ رقم کما سکتے ہیں، تو کیا یہ اچھا موقع نہیں ہے؟ کیا یہی راستہ اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے؟ اور میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ براعظم میں جن بہترین لوگوں پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے وہ خواتین ہیں۔ (تالیاں)۔ میرے پاس یہاں ایک سی ڈی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے وقت پر کوئی چیز نہیں کہی۔ ورنہ، میں چاہتی تھی کہ آپ اسے دیکھ لیں۔ اس کا نام ہے، "افریقہ: کاروبار کے لئے دستیاب۔" اور یہ ایسی ویڈیو ہے جس نے درحقیقت سال کی بہترین دستاویزی فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ یہ بات سمجھیں کہ جس خاتون نے یہ تیار کی ہے وہ تنزانیہ جائے گی جہاں جون میں ان کا سیشن ہونا ہے۔ لیکن اس میں آپ کو افریقی، بالخصوص افریقی خواتین، نظر آئیں گی جنہوں نے خلاف قیاس کاروبار قائم کیے ہیں، جن میں سے بعض دنیا کے بہترین ہیں۔ اس ویڈیو میں ایک خاتون، ایڈی نائک اوگن لیسی، بچوں کے کپڑے تیار کرتی ہیں ۔۔ جسے انہوں نے بطور مشغلہ اپنایا اور پھر کاروبار کی شکل دے دی۔ یہ کام انہوں نے افریقی کپڑے کو دیگر مقامات کے کپڑوں کے ساتھ ملا کر کیا۔ چنانچہ وہ کارڈرائے کے ہمراہ ڈانگری کا چھوٹا جوڑا بناتی ہیں جو افریقی کپڑے سے آراستہ ہوتا ہے۔ انتہائی تخلیقی ڈیزائن۔ وہ اس مرحلے پر پہنچ گئی ہیں جہاں انہیں ایک بار وال مارٹ کی جانب سے آرڈر ملا۔ (قہقہے)۔ کہ وہ 10,000 جوڑے تیار کریں۔ تو اس سے آپ کو نظر آئے گا کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو باصلاحیت ہیں۔ اور خواتین مختلف ہیں: وہ پوری توجہ دیتی ہیں اور سخت محنت کرتی ہیں۔ میں اسی طرح بہت سی مثالیں دے سکتی ہوں: روانڈا کی بیٹریس گاکوبا جنہوں نے پھولوں کا کاروبار شروع کیا اور اب وہ ہر صبح ایمسٹرڈیم میں ڈچ نیلامی کو برآمد کر رہی ہیں، اور انہوں نے اپنے ساتھ کام کے لئے 200 دیگر مرد و خواتین کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ لیکن ان میں سے بہت سوں کو توسیع کے لئے سرمایے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے ملکوں سے باہر کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ ہم ہر وہ کام کرسکتے ہیں جس کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی شخص مارکیٹ کے لحاظ سے نہیں سوچتا۔ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ موقع دستیاب ہے۔ لیکن میں یہاں کھڑی کہہ رہی ہوں کہ جو لوگ اس وقت موقع سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے، وہ اسے ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے۔ تو اگر آپ افریقہ میں جانا چاہتے ہیں، تو سرمایہ کاری کے متعلق سوچیں۔ اس دنیا کی بیٹرسوں، ایڈی نائیکس کے متعلق سوچیں، جو ایسے ناقابل یقین کام کر رہے ہیں جو انہیں عالمی معیشت میں لا رہے ہیں جبکہ اسی دوران وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کے ہم وطن مرد و خواتین کو روزگار ملے، اور ان کے گھرانوں میں بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں کیونکہ ان کے والدین مناسب آمدنی کما رہے ہیں۔ لہٰذا میں آپ کو مواقع کا کھوج لگانے کی دعوت دیتی ہوں۔ جب کبھی آپ تنزانیہ جائیں تو غور سے سنیں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کو مختلف مواقع کا پتہ چلے گا جن میں آپ شمولیت اختیار کر کے نہ صرف براعظم کے لئے بہتر کام کر سکتے ہیں بلکہ یہ اس کے عوام اور خود آپ کی اپنی ذات کے لئے بھی بہتر ہوگا۔ آپ سب کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)