سیکھنے کے عمل کا مستقبل کیا ہوگا؟
میرے پاس اس کا ایک منصوبہ ہے،
لیکن اس منصوبہ کے بارے میں آپکو بتانے سے قبل،
مجھے آپکو ایک چھوٹی سی کہانی سنانی ہے،
جس سے میری بات سمجھنا آسان ہوجاۓ گا-
میں نے دیکھنے کی کوشش کی کہ
ہم کس طرح اسکولوں میں سیکھتے ہیں ،
یہ طریقہ آیا کہاں سے ہے؟
اس کے لیے آپ ماضی بعید میں دیکھ سکتے ہیں،
لیکن اگر آپ آج کی تعلیمی نظام کو دیکھیں تو،
اس کا اندازہ لگانا آسان ہوجاۓ گا کہ یہ کہاں سے آیا ہے-
یہ 300 سال پہلے وجود میں آیا،
اور یہ اس دنیا کی آخری
اور سب سے بڑی سلطنت (برطانوی سلطنت) کی طرف سے آیا-
تصور کریں وہ کس طرح نظام چلاتے ہونگے،
پوری دنیا کا نظام چلانے کی کوشش کرنا،
بغیر کمپیوٹر اور اور فون کے،
جس میں کاغذ پر لکھی ہوئی معلومات،
اور بحری جہازوں پر سفر-
لیکن برطانوی لوگوں نے یہ سب واقعی کیا-
اور جو انہوں نے کیا وہ حیران کن تھا-
انہوں نے انسانوں سے بنا ہوا
ایک عالمی کمپیوٹر بنایا-
اور یہ کمپیوٹر ہمارے پاس آج بھی موجود ہے-
اس کو انتظامی بیوروکریسی کی مشین کہتے ہیں-
اور اس مشین کو چلانے کے لئے،
آپکو بہت زیادہ لوگوں کی ضرورت رہتی تھی-
ان کو ایسے انسانوں کو بنانے کے لئے ایک اور مشین بنائی:
اور وہ تھے اسکول۔
اور یہ اسکول ایسے لوگ پیدا کرتے تھے
جو بعد میں پرزے بن جاتے
بیوروکریسی کی مشین کے-
ان کو بالکل ایک دوسرے کی طرح ہونا ضروری تھا -
ان کو تین چیزوں کا معلوم ہونا ضروری تھا:
انکا خوشخط ہونا ضروری تھا، کیونکہ معلومات ہاتھ سے لکھی جاتی-
انکو پڑھنا آنا ضروری تھا؛
اور ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ ضرب،
تقسیم، جمع اور تفریق کے عمل زبانی کرسکیں-
اور انکا اس حد تک ایک جیسا ہونا ضروری تھا
کہ اگر آپ ان میں سے ایک کو نیوزی لینڈ سے
کینیڈا بحری جہاز کے ذریعہ بھیج دیں
تو وہ وہاں جا کر فی الفور کام میں لگ جاۓ-
برطانوی سلطنت کے لوگ اعلی درجہ کے انجنیر تھے-
انہوں نے ایک ایسا نظام ترتیب دیا جو کہ
آج بھی ہمارے ساتھ ہے،
اور یہ ایک ہی طرح کے لوگ پیدا کر رہا ہے
ایک مشین کے لئے جو اب موجود نہیں-
سلطنت رخصت ہوچکی ہے،
تو پھر ہم اس ڈیزائن کا کیا کر رہے ہیں
جو آج بھی ان ایک جیسے لوگوں کو پیدا کرتی ہے،
اور ہم آگے کیا کریں گے
اگر ہم کچھ اور کام لیں گے اس سے؟
["اسکول جیسے کہ ہم انہیں جانتے ہیں غیر ضروری ہو چکے ہیں"]
شاید یہ ایک بہت ہی سخت جملہ ہے-
میں نے کہا کہ اسکول جیسے کہ ہم انہیں جانتے ہیں غیر ضروری ہو چکے ہیں-
میں یہ نہیں کہ رہا ہے کہ وہ اب کام نہیں کر رہے ہیں-
یہ کہنا فیشن بن چکا ہے کہ ہماری تعلیم کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے-
یہ ناکارہ نہیں ہے- ان کو کمال مہارت سے بنایا گیا ہے-
بات یہ ہے کہ اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں رہی- اس کا وقت گزر گیا ہے-
آج ہمارے پاس کس طرح کی نوکریاں ہیں؟
کلرکوں کا کام کمپیوٹر کر رہے ہیں-
وہ دفتروں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں-
اور پھر ہمارے پاس لوگ ہیں جو کمپیوٹرز کو ہدایات دیتے ہیں
تاکہ وہ اپنا کلرکوں والا کام کر سکیں-
ان لوگوں کو ضرورت نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے خوشخط لکھیں-
ان کو دماغ میں حساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے-
انکو پڑھنا آنا ضروری ہے-
حقیقت میں، ان کو ضرورت ہے کہ وہ جاننے کے لئے پڑھیں-
یہ تو آج کی بات ہے، اور کل کے بارے میں
ہمیں معلوم ہی نہیں کہ مستقبل میں کام کس طرح کے ہوں گے--
ھم یہ جانتے ہیں کہ لوگ جہاں سے چاہیں گے،
جب چاہیں گے، جس چیز میں چاہیں گے کام کریں گے-
آج کے اسکول اس دنیا کے لیے ان کو
کیسے تیار کریں گے؟
میں اس سارے عمل میں حادثاتی طور پر آیا-
میں کمپیوٹر پروگرامنگ سکھاتا تھا
دہلی میں، 14 سال پہلے-
اور جہاں میں کام کرتا تھا، اس کے ساتھ ہی ایک کچی بستی تھی-
اور میں سوچتا تھا کہ کیا یہ بچے
کبھی کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھ پائیں گے؟
یا ان کو سیکھنا چاہیے کہ نہیں؟
اسی طرح ہمارے پاس بہت سارے والدین تھے،
امیر لوگ، جن کے پاس کمپیوٹرز تھے،
،اور جو مجھے بتاتے تھے، "آپ کو معلوم ہے، میرا بیٹا
میرے خیال میں وہ بہت ذہین ہے،
کیونکہ وہ کمپیوٹر سے حیرت انگیز کام سرانجام دیتا ہے-
اور میری بیٹی، وہ تو واقعی بہت ہی زیادہ ذہین ہے-"
اور اسی طرح کی باتیں- تو پھر مجھے خیال آیا،
یہ کیوں ہے کہ صرف تمام امیر لوگوں کے پاس
اتنے زیادہ ذہین بچے پیدا ہوتے ہیں؟
(ہنسی)
غریبوں نے ایسی کیا غلطی کی ہے؟
تو پھر میں نے کچی بستی کی دیوار میں ایک سوراخ کیا
جو کہ میرے آفس کے ساتھ ہی تھی،
اور اس میں ایک کمپیوٹر لگا دیا، تاکہ میں دیکھوں کہ کیا ہوتا ہے
اگر میں ایک کمپیوٹر دوں ان بچوں کو جن کو کبھی نہیں مل سکے گا،
جن کو انگریزی نہیں آتی تھی، جن کو انٹرنیٹ کا نہیں معلوم تھا-
بچے بھاگتے ہوئے آئے-
یہ زمین سے تین فٹ اوپر تھا، اور بچوں نے پوچھا، " یہ کیا ہے ؟ "
اور میں نے کہا، "مجھے نہیں معلوم - "
(ہنسی)
انہوں نے پوچھا، " اسکو یہاں کیوں لگایا ہے؟ "
میں نے کہا، "ویسے ہی -"
انہوں نے کہا، " کیا ہم اس کو چھوسکتے ہیں؟ "
میں نے کہا، "اگر تم چاہو ۔ "
اور میں وہاں سے چلا گیا -
قریب آٹھ گھنٹے بعد،
ہم نے ان کو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے دیکھا، اور
وہ یہ کام ایک دوسرے کو سکھا رہے تھے-
میں نے کہا، "یہ تو ناممکن ہے، کیونکہ۔۔۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کو تو کچھ نہیں آتا-"
میرے ساتھیوں نے کہا، "اسکا حل آسان ہے-
تمہارے طلباء میں سے کوئی قریب سے گزرا ہوگا،
اس نے ان کو ماؤس کا استعمال سکھا دیا ہوگا-"
میں نے کہا ، "ہاں، یہ ہوسکتا ہے-"
تو میں نے یہی تجربہ دہرایا- میں دہلی سے 300 میل دور گیا
ایک بہت دور دراز گاؤں میں
جہاں سے کسی سوفٹ وییر انجینئر کے گزرنے کے امکانات
بہت ہی کم تھے- (ہنسی)
میں نے یہ تجربہ وہاں دہرایا-
وہاں ٹھہرنے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نے کمپیوٹر کو لگایا
پھر میں چلا گیا، میں دو ماہ بعد واپس آیا،
میں نے بچوں کو اس پر گیمز کھیلتے ہوئے پایا-
جب انہوں نے مجھے دیکھا، تو کہا،
"ہمیں ایک تیز پروسیسر اور بہتر ماؤس چاہیے-"
(ہنسی)
تو میں نے کہا، " تمہیں یہ باتیں کیسے معلوم؟"
تو انہوں نے مجھے بڑی دلچسپ بات کہی-
اکھڑے ہوئے لہجے میں، انہوں نے کہا،
"آپ نے ہمیں ایک ایسی مشین دی جو صرف انگریزی میں کام کرتی ہے،
تو ہمیں خود کو انگریزی پڑھنا پڑی تاکہ اسے استعمال کر سکیں-" (ہنسی)
استاد کے طور پر، یہ پہلا موقع تھا کہ،
میں نے یہ الفاظ "خود کو پڑھانے" کے بارے
میں اتنے معصومانہ طریقے سے سنے-
یہ ان سالوں کی چند جھلکیاں ہیں-
یہ پہلے دن کی جھلکیاں ہیں 'ہول ان دی وال' کے پاس-
دائیں طرف نظر آنے والا ایک آٹھ سالہ بچہ ہے-
اسکے ساتھ اسکی شاگرد ہے- وہ چھ سال کی ہے -
اور وہ اسکو انٹرنیٹ کا استعمال سکھا رہا ہے-
اب بڑھتے ہیں ملک کے دوسرے حصوں کی طرف،
میں نے یہ تجربہ بار بار دہرایا،
اور ہمیں ہر دفعہ بالکل ایک جیسے نتائج ملے-
['ہول ان دی وال' کی فلم- 1999"]
ایک آٹھ سالہ بچی اپنی بڑی بہن کو بتا رہی ہے کہ کیا کرنا ہے-
اور آخر میں ایک لڑکی جو مراٹھی میں بتا رہی ہے کہ یہ کیا ہے،
اور اس نے کہا، " اسکے اندر پروسیسر ہے-"
پھر میں نے اشاعت شروع کی-
میں نے اشاعت ہر جگہ کی- میں نے ہر چیز لکھی اور پیمائش کی،
اور میں نے یہ کہا کہ، نو ماہ کے اندر، بچوں کے ایک گروپ کو
کمپیوٹر کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا جائے، چاہے وہ جو بھی زبان بولتے ہوں
تو وہ مغرب میں ایک آفس سیکریٹری کے معیار تک پہنچ سکتے ہیں-
اور یہ میں نے بار بار ہوتے ہوئے دیکھا ہے-
لیکن میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ اور کیا کر سکتے تھے
اگر وہ ابھی سے اتنا کچھ کر سکتے تھے؟
میں نے دوسرے مضامین کے ساتھ تجربات شروع کیے-
مثال کے طور پر ان میں سے ایک، انگریزی تلفّظ کا تھا-
جنوبی انڈیا میں ایک کمیونٹی ہے جن کے بچوں کی
انگریزی کا تلفّظ بہت خراب ہے،
اور انکو اپنی نوکریاں بہتر کرنے کے لیے تلفّظ بہتر کرنا ضروری تھا-
میں نے انکو ایک بول کر ٹائپ کرنے والا پروگرام (سپیچ ٹو ٹیکسٹ) دیا،
اور میں نے کہا، "اس وقت تک بولتے رہو جب
تک یہ تمہاری آواز کو ٹائپ کرنا شروع نہ کر دے-"
(ہنسی)
انہوں نے ایسا ہی کیا، اور یہ اسکی جھلکیاں ہیں-
کمپیوٹر: آپ سے مل کر خوشی ہوئی-
بچہ: آپ سے مل کر خوشی ہوئی-
سگانا مترا: اس نوجوان لڑکی کے چہرے پر اس کو ختم کرنے کی وجہ یہ ہے
میرا اندازہ ہے کہ آپ میں سے بہت سارے لوگ اس سے واقف ہونگے-
اب یہ لڑکی حیدرآباد میں ایک کال سینٹر پر کام کر رہی ہے-
اور شاید آپ میں سے بہت سارے لوگوں کو
کریڈٹ کارڈ کے بل کے متعلق بہت تنگ کیا ہوگا
اور وہ بھی بہت ہی صاف انگریزی لہجے میں۔
پھر لوگوں نے پوچھا، یہ سلسلہ کہاں تک جا ئے گا؟
اور یہ کہاں جا کر رکتا ہے؟
میں نے سوچا میں اپنے ہی دلیل کو غلط ثابت کرونگا
ایک عجیب تجویز بنا کر-
میں نےایک سائنسی اندازہ لگایا،
ایک مضحکہ خیز سائنسی اندازہ -
تامل جنوبی انڈیا کی زبان ہے، اور میں نے کہا،
کیا تامل بولنے والے بچے جو جنوبی انڈیا کے گاؤں میں رہتے ہوں
ڈی این اے ریپلیکیشن کی باییوٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہیں
ایک سڑک کنارے لگے ہوئے کمپیوٹر سے؟
اور میں نے کہا، میں ان کو جانچوں گا- ان کو صفر ملے گا-
میں دو ماہ گزاروں گا، میں اس کو دو ماہ کے لئے چھوڑدوں گا،
میں واپس جاؤں گا، ان کو دوبارہ صفر ملے گا-
اور پھر میں لیب واپس جا کر کہوں گا، ہمیں ٹیچرز چاہیے-
مجھے ایک گاؤں ملا- اس کو کلّی کپپم کہتے تھے جنوبی انڈیا میں-
میں نے 'ہول ان دی وال' کمپیوٹر وہاں لگاۓ،
اںٹرنیٹ سے ڈی این اے ریپلیکیشن سے متعلق بہت سا مواد ڈاؤن لوڈ کیا،
جس میں زیادہ تر مواد میری سمجھ سے باہر تھا-
بچے میرے پاس بھاگے بھاگے آئے، پوچھا، "یہ کیا ہے؟ "
تو میں نے کہا، " یہ مخصوص عنوان پر ہے،
بہت اہم ہے- لیکن یہ سارا انگریزی میں ہے۔"
تو انہوں نے پوچھا، " ہم کیسے سمجھیں
گے اتنے بڑے بڑے انگریزی کے الفاظ
اور تصویریں اور کیمسٹری؟ "
تو اب تک میں نے تعلیم دینے کا ایک نیا طریقہ بنالیا تھا،
تو میں نے اس کو استعمال کیا-
میں نے کہا، " مجھے بالکل معلوم نہیں ہے- "
(ہنسی)
"اور جو بھی ہو، میں تو جارہا ہوں-"
(ہنسی)
تو میں نے ان کو دو ماہ کے لئے چھوڑ دیا-
ان کو صفر ملا- میں نے ان کا ٹیسٹ لیا تھا-
میں دو ماہ بعد واپس آیا
بچے جلوس کی طرح میرے پاس آئے
اور کہا، "ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا-"
تو میں نے کہا، "میں نے کس چیز کی امید باندھی تھی؟ "
تو میں نے کہا، " اچھا، مگر تمہیں یہ جاننے میں کتنا وقت لگا کہ
تمھاری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ؟ "
تو انہوں نے کہا، "ہم نے ہار نہیں مانی-"
ہم ہر روز اسے دیکھتے ہیں-"
تو میں نے کہا، "کیا! تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
اور تم اس اسکرین کو دو ماہ تک گھورتے رہے ہو؟ کس لئے؟ "
تو ایک چھوٹی لڑکی ، جو ابھی آپکو نظر آئے گی،
اس نے ہاتھ کھڑا کیا، اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور تامل میں کہا،
اس نے کہا، "اس حقیقت کے سوا کہ
ڈی این اے مالیکیول کے غلط ریپلیکیشن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں،
ہمیں کوئی اور چیز سمجھ ہی نہیں آئی-"
(ہنسی) (تالیاں)
تو میں نے انکو ٹیسٹ کیا-
اور مجھے ایک ناممکن رزلٹ ملا، زیرو سے 30 فیصد
دوماہ میں اور شدید گرمی میں
جہاں کمپیوٹر ایک درخت کے نیچے تھا،
اور ایسی زبان میں جو انکو معلوم نہیں تھی
اور ایک ایسے کام کرنے میں، جو ان کی عمر سے دس سال آگے کا تھا-
عجیب - لیکن مجھے تو وکٹورین روایات کے مطابق چلنا تھا-
30 فیصد فیل ہوتا ہے-
تو میں انکو کیسے پاس کرواؤں؟ مجھے ان کو 20 مزید نمبر دلوانے تھے-
مجھے کوئی ٹیچر نہیں ملا- مجھے ملا تو ان کی ایک دوست،
ایک 22 سالہ لڑکی جو ایک اکاؤنٹنٹ تھی
اور وہ ہر وقت ان کے ساتھ کھیلتی تھی-
تو میں نے اس لڑکی سے پوچھا، " کیا تم ان کی مدد کر سکتی ہو؟"
تو اس نے کہا، " بالکل نہیں-"
میں نے اسکول میں سائنس نہیں پڑھی- مجھے نہیں معلوم
وہ کیا کرتے ہیں سارا دن درخت کے نیچے- میں آپ کی مدد نہیں کرسکتی-"
میں نے کہا، "میں تمہیں بتاتا ہوں- تم دادی والا کام کرو-"
تو اس نے کہا، "وہ کیا ہے؟ "
میں نے کہا، " انکے پیچھے کھڑی ہو جاؤ-
اور جب بھی وہ کچھ کریں، تم صرف اتنا کہنا،
ارے، واہ، یہ تم نے کیسے کیا؟
اگلا صفحہ کیا ہے؟ ارے جب میں تمہاری
عمر کی تھی تو ایسا کبھی بھی نہ کر پاتی-"
وہی کام جو دادیاں کرتی ہیں-"
تو اس نے یہ کام مزید دو ماہ تک کیا-
اور بچوں کا رزلٹ 50 فیصد تک چلا گیا-
کلّی کپم پہنچ گیا تھا
نئی دہلی میں میری نگرانی میں چلنے والے اسکول کے قریب،
ایک امیر اسکول جس میں ایک تربیت یافتہ بایوٹیکنالوجی کا ٹیچر تھا-
جب میں نے وہ گراف دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ
کھیل کے میدان کو ہموار کرنے کا طریقه موجود ہے-
یہ ہے کلّی کپم-
(بچوں کے بولنے کی آواز) نیورانز ... کمیونیکیشن-
میں نے کیمرے کا زاویہ صحیح نہیں رکھا- وہ عام طرح کی ویڈیو ہے،
لیکن وہ جو کہہ رہی تھی، شاید آپ اس کو سن پاۓ ہونگے،
نیورانز کے بارے میں، اور اس کے ہاتھ اس طرح سے تھے،
اور وہ کہہ رہی تھی نیورانز کمیونیکیٹ کرتے ہیں-
12 سال کی عمر میں-
تو مستقبل کی نوکریاں کیسی ہونگی؟
ہاں، آج کی جو ہیں ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ کسی ہیں-
اور مستقبل میں کیسے سیکھا جاۓ گا؟
ہم جانتے ہیں آج کس طرح سیکھا جاتا ہے،
بچے ایک ہاتھ میں موبائل فون پر مصروف ہیں
اور پھر دوسرے ہاتھ میں کتابیں اٹھاۓ بیزاری
کے ساتھ اسکول جا رہے ہوتے ہیں-
کل یہ کیسے ہو گا-
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمیں اسکول جانا ہی نہ پڑے؟
کیا ایسا ہوسکتا ہے، کہ آپ جب بھی کوئی چیز جاننا چاہیں،
آپ دو منٹ میں جان جائیں؟
کیا ایسا ہوسکتا ہے -- ایک قدرے نقصاندہ سوال،
ایک سوال جو نکولاس نیگروپونٹے نے مجھ سے پوچھا تھا --
کیا ایسا ہوگا کہ ہم بڑرہے ہیں یا شاید
مستقبل میں کسی چیز کی جانکاری غیرضروری ہو جاۓ گی؟
لیکن یہ برا ہوگا- ہم تو ہوموسیپین ہیں-
جانکاری، ہمیں بندروں سے مختلف کرتی ہے-
لیکن اس کو ذرا اس نظر سے دیکھیں-
اس میں قدرت کو 100 ملین سال لگے
کہ وہ ایک بندرکو اٹھ کر چلنا سکھائے
اور ہوموسپین بنائے-
اور ہمیں صرف 10 ہزار سال لگے کہ ہم جانکاری کو غیرضروری کردیں-
یہ زبردست کامیابی ہے-
لیکن ہمیں اس کو اپنے مستقبل کا حصہ بنانا ہوگا-
حوصلہ افزائی اس کام کی کنجی ہے-
اگر آپ 'کپم' کو دیکھیں،
اور میرے سارے تجربات کو دیکھیں جو میں نے کیے،
تو یہ صرف کہہ رہا تھا، "واہ جی واہ"، سیکھنے کے عمل کو سلام پیش کررہا تھا-
اس کا ثبوت نیوروسائنس میں بھی موجود ہے-
ہمارے دماغ کا ریپٹیلین حصہ، جو کہ دماغ کے مرکز میں موجود ہے،
جب یہ خطرے میں ہوتا ہے، تو یہ مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے،
یہ پری-فرنٹل کورٹیکس کو بھی بند کر دیتا ہے، جہاں سیکھنے کا عمل ہوتا ہے،
یہ ان سب کو بند کر دیتا ہے-
سزا اور امتحان خطرے کے طور پر لیے جاتے ہیں-
ہم اپنے بچوں کے اس سیکھنے کے عمل کو بند کرکے،
ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ "کارکردگی" دکھائیں-
ان لوگوں نے ایسا نظام کیوں بنایا تھا؟
کیونکہ اسکی ضرورت تھی-
سلطنتوں کے زمانے میں ایک وقت ایسا گزرا ہے
جب آپ کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی
جو کہ خطرے کے وقت کارکردگی دکھائیں-
جب آپ جنگی خندق میں تن تنہا کھڑے ہوں،
اگر زندہ بچ جائیں، تو آپ ٹھیک ہیں، آپ کامیاب ہیں-
اور اگر آپ نہ کر سکیں، تو آپ ناکام تھے-
لیکن آج سلطنتوں کا دور گزر چکا ہے-
ہمارے دور میں تخلیقی عمل کو کیا ہوتا ہے؟
ہمیں اس توازن کو واپس لانا ہوگا
خطرے سے واپس خوشی کی طرف-
میں برطانوی دادیوں کی تلاش میں انگلینڈ واپس آیا تھا-
میں نے اخباروں میں اشتہار لگوائے،
اگر آپ ایک برطانوی دادی ہیں، آپ کے پاس
براڈ بینڈ انٹر نیٹ اور ویب کیمرا ہے،
کیا آپ مجھے اپنے وقت میں سے ہر
ہفتے ایک گھنٹہ مفت دے سکتی ہیں؟
مجھے پہلے دو ہفتوں میں 200 جواب آئے-
میں اس کائنات میں اکیلا سب سے زیادہ برطانوی دادیوں کو جانتا ہوں-
(ہنسی)
انکو ہم ' گرینی کلاؤڈ ' کہتے ہیں-
گرینی کلاؤڈ انٹرنیٹ پر موجود ہے-
جب بھی کسی بچے کو ضرورت ہوتی ہے، ہم ایک دادی کو فی الفور بھیجتے ہیں-
وہ اسکائیپ کے ذریعے پہنچتی ہے اور چیزیں سلجھاتی ہے-
میں نے ان کو یہ کام ڈگلز نامی ایک گاؤں سے کرتے ہوئے دیکھا ہے
جو کہ شمال مغربی انگلینڈ میں ہے،
اور دوسری طرف تامل ناڈو، انڈیا میں ایک گاؤں تھا،
6000 میل کی دوری پر-
وہ یہ عرصہ دراز پرانے آزمودہ نسخے سے کرتی ہے-
" شش-"
ٹھیک ہے؟
اس کو دیکھو-
دادی: تم مجھے نہیں پکڑ سکتے- اس کو تم کہو-
تم مجھے نہیں پکڑ سکتے-
بچے: تم مجھے نہیں پکڑ سکتے-
دادی: میں ایک جنجر بریڈ بنانے والا آدمی ہوں-
بچے: میں ایک جنجر بریڈ بنانے والا آدمی ہوں-
دادی: شاباش! بہت اچھے-
مترا: تو آئیں دیکھیں یہاں کیا ہو رہا ہے؟
میں سوچتا ہوں ہمیں کس چیز کا مشاہدہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ
ہمیں سیکھنے کے عمل کو دیکھنا چاہیے
ایک تعلیمی خود انتظامی عمل کے نتیجے کے طور پر-
اگر ہم تعلیمی عمل کو موقع دیں خود انتظامی کا،
تو سیکھنے کا عمل ابھرتا ہے-
یہ سیکھنے کے عمل کو کروانے کی بات نہیں ہے-
بلکہ یہ سیکھنے کے عمل کو خود سے ہونے کا موقع دینے کی بات ہے-
ٹیچر کا کام اس عمل کو شروع کرنے کا ہے
اور پھر اس کو پیچھے ہٹ کر حیرانی
سے دیکھنا چاہیے جب سیکھنے کا عمل ہو-
میرے خیال میں یہ انہی سب باتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے-
لیکن ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟ اور ہم کیسے جان پائیں گے؟
تو، میرا ارادہ ہے کہ میں تعمیر کروں
ان خود انتظامی سیکھنے کے عوامل کے ماحول کا -
بنیادی طور پر یہ براڈبینڈ، اشتراک
اور حوصلہ افزائی ہیں، مل ملاکر-
میں نے اس کو بہت سارے اسکولوں میں کرکے دیکھا ہے-
اس کو پوری دنیا میں کرکے دیکھا گیا ہے، اور ٹیچر
پیچھے رہ کر پوچھتے ہیں، " یہ خود بخود ہوتا ہے؟ "
اور میں نے کہا ، " ہاں یہ خود ہوتا ہے"-
" آپ کو معلوم کیسے ہوا؟ "
میں نے کہا، " آپ یقین نہیں کریں گے ان بچوں کا جنہوں نے مجھے بتایا ہے
اور یہ کہ وہ کس جگہ سے تعلق رکھتے ہے-"
یہ ہے ایس-او-ایل-ای کام کرتے ہوئے-
(بچے باتیں کرتے ہوئے)
یہ انگلینڈ میں ہے-
اس کا کام امن و امان قائم کرنا ہے،
یاد رہے، کوئی ٹیچر موجود نہیں ہے-
لڑکی: ایلیکٹرانز کی تعداد پروٹانز کی تعداد کے برابر نہیں ہے--
سگاتا مترا : آسٹریلیا
لڑکی: -- یہ اس کو ایک کل نیگٹیو یا پازیٹو چارج دے گا-
کسی آیون پر کل چارج برابر ہوتا ہے پروٹانز کی تعداد کو
الیکٹرانز کی تعداد سے تفریق دینے کے بعد، اس آیون میں-
سگاتا مترا: اپنے زمانے سے آگے-
تو ایس-او-ایل-ای ، میرے خیال میں ہمیں بڑے
سوالوں پر مبنی نصاب کی ضرورت ہے-
آپ نے اس کے بارے میں بھی سنا ہے-
اور آپ کو معلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے-
ایک وقت تھا جب پتھر کے دور میں، مرد اور خواتین
بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور کہتے تھے،
" یہ دمکتی ہوئی روشنیاں کیا ہیں؟ "
انہوں نے سب سے پہلا نصاب بنایا تھا، لیکن ہم
نے ان حیرانکں سوالوں کو کھودیا ہے-
ہم اس کو ایک زاویہ کے ٹینجینٹ تک لے آئیں ہیں-
لیکن یہ اتنا دلچسپ نہیں ہے-
اس کو اگر ایک نو سالہ بچے کے سامنے رکھیں تو ہم کہیں گے،
" اگر ایک خلائی پتھر زمین کی طرف آرہا ہے تو
تو ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ یہ زمین سے ٹکرائے گا یا نہیں؟ "
اور اگر وہ کہے، " کیا؟ کیسے؟ "
آپ کہیں گے، " ایک جادوئی لفظ ہے- اسے زاویہ کا ٹینجینٹ کہتے ہیں، "
اور آپ اس کو اکیلا چھوڑ دیں- وہ خود معلوم کرلے گا-
تو یہ چند تصویریں ایس-او-ایل-ای سے ہیں-
میں نے بہت ہی عجیب سوالات استعمال کیے ہیں --
" دنیا کی شروعات کب ہوئی؟ یہ کیسے ختم ہوگی" ؟ --
نو سالہ بچوں پر-
اس کلپ کا تعلق ہے اس ہوا کی تبدیلی سے جب ہم سانس لیتے ہیں-
یہ بچوں نے کیا ہے ٹیچر کی مدد کے بغیر-
ٹیچر صرف سوال کرتی ہے،
اور پھر وہ پیچھے کھڑی رہتی ہے اور جواب سے معترف ہوتی ہے-
تو میری خواہش کیا ہے؟
میری خواہش ہے
کہ ہم سیکھنے کے عمل کے مستقبل کو تشکیل دیں-
ہم فالتو پرزے نہیں بننا چاہتے
کسی بڑے انسانی کمپیوٹر کے ، ہے ناں؟
تو ہمیں سیکھنے کے عمل کے مستقبل کو تشکیل دینا ہوگا-
اور اس کے لیے مجھے -- ذرا ٹھہریے،
مجھے اس اہم بیان کے الفاظ ٹھیک طرح سے بولنے ہوں گے،
آپ جانتے ہیں کہ یہ بات بہت اہم ہے-
میری خواہش ہے کہ ہم مدد کریں سیکھنے
کے عمل کے مستقبل کو تشکیل دینے میں
دنیا بھر کے بچوں کی مدد کرکے
کہ وہ اپنے تجسس اور اپنی ملکر کام
کرنے کی صلاحیت کو استعمال میں لائیں-
میری اس اسکول کو بنانے میں مدد کریں-
یہ ' اسکول ان دی کلاؤڈ ' کہلاۓ گا-
یہ ایک ایسا اسکول ہوگا جس میں بچے دانائی کی مہمات پر نکلیں گے
ان بڑے سوالات سے حوصلہ افزا ہوکر ، جو ان کے ثالثوں نے کیے ہوں گے-
میں اس کو اس طرح کرنا چاہتا ہوں کہ
ایک مرکز بناؤں جہاں میں اس پر تحقیق کر سکوں-
وہ مرکز ایسا ہوگا جو حقیقت میں بغیر انسان کے چلے گا-
صرف ایک دادی ہوگی
جو صحت اور حفاظتی امور کی نگرنی کرتی ہوگی-
یہ باقی سارا کلاؤڈ سے ہوگا-
بتیاں آن اور آف بھی کلاؤڈ سے ہوں گی،
وغیرہ، وغیرہ، ہر کام کلاؤڈ سے ہوگا-
لیکن میں آپ سے ایک اور کام لینا چاہتا ہوں-
آپ خود انتظامی سیکھنے کے عمل کے ماحول کو
گھر پر، اسکولوں میں، اسکولوں سے باہر، کلبوں میں کرسکتے ہیں-
یہ بہت آسان ہے- اس پر ایک بڑی اچھی دستاویز
ٹیڈ نے بنائی ہے جو آپ کو بتاتی ہے کہ یہ کس طرح کرنا ہے-
اگر آپ کرنا چاہیں تو برائے مہربانی اس کو کریں
پانچوں براعظموں میں
اور مجھے اس کا ڈیٹا بھیج دیں،
پھر میں اس کو اکٹھا کر کے،
'اسکول آف کلاؤڈز' میں منتقل کردوں گا،
اور بناؤنگا سیکھنے کے عمل کا مستقبل-
یہ ہے میری خواہش-
اور ایک آخری بات-
میں آپ کو ہمالیہ کی چوٹی پر لے جاؤنگا-
12000 فٹ کی بلندی پر جہاں ہوا کم ہے،
وہاں میں نے ایک دفعہ 'ہول ان دی وال' کمپیوٹر بناۓ تھے،
اور بچے وہاں جمع ہو گئے تھے-
اور وہاں ایک چھوٹی سی بچی تھی جو ہر جگہ میرے پیچھے چل رہی تھی-
اور میں نے اس کو کہا، " تم جانتی ہو، میں چاہتا
ہوں کہ میں ہر شخص، ہر بچے کو کمپیوٹر دے دوں-
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں؟ "
اور میں چپکے سے اس کی تصویر لینے کی کوشش کررہا تھا-
اس نے فوراً اپنا ہاتھ ایسے آگے کیا، اور مجھ سے کہا،
" کر بھی لو- "
( ہنسی ) ( تالیاں )
میرے خیال میں یہ ایک اچھی نصیحت تھی-
میں اسکی ہدایت پر عمل کروں گا- میں بات کرنا بند کرتا ہوں-
شکریہ - بہت بہت شکریہ -
( تالیاں )
شکریہ - شکریہ - ( تالیاں )
بہت بہت شکریہ - واہ -
( تالیاں )