صبح بخیر۔ آپ کیسے ہیں ؟ سب بہت زبردست یے ، ہے نا ؟
مجھے تو اس سب نے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔
درحقیقت ، میں جا رہا ہوں۔ (ہنسی)
،یہاں تین موضوعات ریے ہیں ، ہیں نا
جو کہ کانفرنس میں ابھرتے رہے ہیں اور جو متعلعقہ ہیں
اس کے جس کے متعلق میں بات کرنا چاہیتا ہوں۔
اول، انسان کی تخلیقی صلاحیت کا غیر معمولی ثبوت
جو ہماری تمام گفتگو میں موجود تھا
اور یہاں تمام لوگوں میں ہے۔ اس میں تنوع ہے
اور یہ وسیع ہے۔ دوم یہ کہ
اس نے ہمیں اس مقام پرلا کھٹرا کیا ہے جہاں ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ کیا ہونے والا ہے
مستقبل کے حوالےسے۔ کوئی اندازہ نہیں
کہ اس سے کیا ہو گا ۔
مجھے تعلیم سے دلچسپی ہے۔۔۔
درحقیقت، جو مجھے معلوم ہے کہ سب کو تعلیم میں دلچسپی ہے۔
کیا آپ کو نہیں ہے؟ مجھے یہ بہت دلچسپ لگتا ہے۔
اگر آپ رات کے کھانے کی دعوت پر ہیں ، اور آپ کہیں
کہ آپ تعلیم کے شعبے میں کام کرتے ہیں ۔۔
، دراصل ، آپ رات کے کھانے کی دعوت پر نہیں ہوتے، ایمانداری کی بات ہے اگرآپ تعلیم میں کام کرتے ہیں
تو آپ کو نہیں بلایا جاتا۔ (ہنسی)
اور حیرت انگیز طور بر آپ سے دوبارہ پوچھا بھی نہیں جاتا، جو کہ میرے لیے اچھنبے کی بات ہے۔
لیکن اگر آپ ہوں، اور آب کسی کو بتاہیں ،
پتا ہے ، وہ کہتے ہیں، ’آپ کیا کرتے ہیں ؟’
اور آپ کہتے ہیں کہ آپ تعلیم کے شعبے میں کام کرتے ہیں
،آپ ان کے چہروں سے رونق غا ۃب ہوتی دیکھیں گے ۔ وہ ایسے ہوں گے
’اُہ میرے خدا،’ ’میں ہی کیوں؟ پورے ہفتے کی اکلوتی رات غارت۔‘ (ہنسی)
لیکن اگر آپ ان کی تعلیم کے بارے میں پوچھیں
تو وہ آپ کی اچھی طرح سے خبر لیں گے۔ کیونکہ یہ ان جیزوں میں سے ہے
جو لوگوں میں گہرائی تک جاتی ہیں ، میں نے ٹھیک کہا؟
جیسے مذ ہب، اور پیسہ اور دوسری چیزیں۔
مجھے تعلیم میں بہت گہری دلچسپی ہے، اور میرے خیال میں ہم سب کو ہے۔
،ہم سب کا اس میں بڑا گہرا ذاتی مفاد یے
جزوی طور پر اس لیے کہ یہ تعلیم ہے جو
ہمیں اس مستقبل کی طرف لے جاتی ہے جو ہماری گرفت میں نہیں آتا۔
اگر آپ اس کے متعلق سوچیں، اس سال سکول جانا شروع کرنے والے بچے
2050 میں سبکدوش ہونگے ۔ کسی کو اندازہ نہیں۔۔
اس تمام تر تجربے کے باوجود جو ہیاں پچھلے چار دنوں سے نظر آ رہا ہے
کہ دنیا کیسی ہو گی
آیندہ پانچ سال میں۔ اور پھر بھی ہم
اس کے لیے انہیں تعلیم دے ریے ہیں۔ چنانچہ، میرے خیال میں، بے یقینی
غیر معمولی ہے۔
اور اس کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ
ہم سب بغیر کسی تفریق کے، متفق ہیں
بچوں کی غیر معمولی صلاحیتوں اور
ان کی تخلیقی قابلیتوں کے بارے میں ۔ میرا مطلب ہے، کل رات سیرینا حیرت انگیز تھی
ہے نا؟ یہ دیکھنا کہ وہ کیا کر سکتی ہے۔
,وہ انوکھی ہے، مگر میرے خیال میں ایک لحاظ سے وہ نہیں ہے
تمام بچوں میں مجموعی طور پر۔
،وہ ایک ایسی انسان ہے جو غیر معمولی طور پر سرگرم ہے
جس نے ایک استعداد پا لی۔ اور میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ
تمام پچوں کے پاس بے انتہا صلاحیتیں ہیں۔
اور ہم انہیں انتہاِی بے دردی سے ضایع کرتے ہیں۔
لہزا میں تعلیم کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں اور
میں تخلیقی صلاحیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ میری دلیل یہ ہے کہ
،تخلیقی صلاحیت تعلیم میں اتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی خواندگی
اور ہمیں اس سے اسی معیار سے پیش آنا چاہیے ۔
شکریہ ۔ بس اتنا ہی تھا۔ (ہنسی)
بہت بہت شکریہ ۔تو 15منٹ رہ گیّے ہیں۔
ویسے میں پیدا ۔۔۔۔ نہیں۔ (ہنسی)
میں نے حال ہی میں ایک زبردست کہانی سنی ہے۔۔ مجھے یہ سنانا بہت پسند ہے۔۔
اک چھوٹی بچی کی جو مصوری کی کلاس میں تھی ۔ وہ چھہ سال کی تھی
،اور پیچھے بیٹھی مصوری کر رہی تھی
اور استاد نے سوچا کہ اس بچی نے کبھی کام پر توجہ نہیں دی
اور آج اس مصوری کے سبق میں بہت دھیان سے کام کر رہی ہے۔
استاد کو بہت تعجب ہوا اور وہ اس کے پاس گئ
اور اس نے پوچھا ، ’تم کیا بنا رہی ہو؟
اور بچی نے کہا، "میں خدا کی تصویر بنا رہی ہوں"۔
"اور استاد نے کہا، "مگر کسی کو نہیں معلوم کہ خدا کیسا لگتا ہے
اور بچی نے کہا، "انہیں ابھی معلوم ہو جائےگا"۔’
(ہنسی)
جب میرا بیٹا انگلینڈ میں چار سال کا تھا۔۔
ویسے تو وہ ہر جگہ چار سال کا ہی تھا، (ہنسی)
اگر ہم اس کے بارے میں سچی بات کریں تو وہ جہاں بھی جاتا ، اس سال وہ چار سال کا ہی تھا۔
وہ مسیح کی پیداِش سے متعلق ڈرامے میں تھا۔
آپ کو کہانی یاد ہے؟ نہیں ، یہ بڑی تھی۔
یہ بڑی کہانی تھی۔ میل گیبسن نے اس کا دوسرا حصہ بنایا تھا۔
شاید آپ نے دیکھا ہو "میلاد مسیح دوم" خیر جمیز کو یوسف کا کردار ملا
جس کے بارے میں ہم بہت پر جوش تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ یہ مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔
ہماری جگہ ٹی شرٹوں میں ملبوس ایجنٹوں سے بھری تھی۔
"جیمز روبینسن یوسف ہے" (ہنسی)
اسے کچھہ بولنا نہیں تھا، پر آپ کو معلوم ہے
،جہاں تین بادشاہ اندر آتے ہیں۔ وہ تحائف سمیت آتے ہیں
اور وہ سونا، لوبان اور جڑی بوٹیاں لاتے ہیں۔
یہ واقعی ہوا۔ ہم وہاں بیٹھے تھے
،اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ترتیب بھول گئے
کیونکہ یم نے چھوٹے لڑکے سے بعد میں بات کی اور ہم نے کہا،
’تم اس سے مطمن ہو؟’ اور وہ بولا ، ’ہاں کیوں، کیا یہ غلط تھا؟’
بس یہی ہوا کہ وہ آگے پیچھے ہو گئے۔
بحر حال، تین لڑکے اندر آئے،
چار سالہ، سر پر رومال باندھے،
اور انھوں نے وہ ڈبے نیچے رکھے،
اور پہلے لڑکے نے کہا، ’میں آپ کے لئے سونا لایا ہوں'۔’
'اور دوسرے لڑکے نے کہا، ’میں آپ کے لئے لبوبان لایا ہوں
اور تیسرا لڑکا بولا، ’یہ فرینک نے بھجوایا ہے'۔ (ہنسی)
ان سب چیزوں میں یہ مشترک ہے کہ بچے ہمت سے کام لیتے ہیں۔
اگر وہ نہیں جانتے، پھر بھی وہ کوشش کرتے ہیں۔
میں نے ٹھیک کہا؟ وہ غلطی کرنے سے نہیں ڈرتے۔
تاہم، میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ غلطی کرنا اور تخلیقی صلاحیت کا ہونا ایک جیسا ہی ہے۔
ہمیں جو معلوم ہے وہ یہ کہ
اگر آپ غلطی کرنے کے لیئے تیار نہیں ہیں،
تو آپ کبھی بھی کچھ اصل نہیں پیش کر سکیں گے۔
اگر آپ غلطی کرنے کے لیئے تیار نہیں۔ اور بلوغت تک پہنچنے تک،
اکثر بچے یہ صلاحیت کھو دیتے ہیں۔
وہ غلطیاں کرنے سے ڈرتے ہیں۔
اور ایک طرح سے ہم اپنے ادارے ایسے ہی چلاتے ہیں۔
ہم غلطی کو رسوائی سمجھتے ہیں۔ اور اب ہم چلا رہے ہیں
ایسا قومی تعلیمی نظام جہاں
غلطیاں کرنا حماقت تصور کیا جانا ہے۔
اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں
جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نہیں ابھارتی ۔ پکاسو نے اک مرتبہ کہا تھا:
اس نے کہا کہ تمام بچے پیدائشی فنکار ہوتے ہیں۔
مسئلہ بالغ ہونے تک فنکار رہنے کا ہے ۔ میں اس پر پورا یقین رکھتا ہوں،
کہ ہمارے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری تخلیقی صلاحیت بڑھتی نہیں،
یہ کم ہوتی جاتی ہے۔ بلکہ تعلیم ہمیں اس سے دور کرتی جاتی ہے۔
تو ایسا کیوں ہے؟
میں پانچ سال پہلے سٹیٹفورڈ آن ایوان میں رہتا تھا۔
درحقیقت، ہم سٹیفورڈ سے لاس اینجلس گئے۔
تو آپ یہ غیر محسوس تبدیلی سمجھہ سکتے ہیں۔
اصل میں، (ہنسی)
ہم ایسی جگہ رہتے تھے جو سنیٹرفیلڈ کیہلاتی تھی،
سٹیٹفورڈ سے کچھہ باہر، جس جگہ
شیکسپیئر کے والد پیدا ہوئے۔ آپ میری طرح ایک نئے خیال سے چونک گئے؟
آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ شیکسپیر کا باپ ہو گا، ہے نا؟
نہیں نا؟ کیونکہ آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ
شیکسپئر کبھی بچہ بھی تھا ، ہے نا؟
سات سالہ شیکسپئر ؟ میں نے بھی کپھی نہیں سوچا۔ میرا مطلب ہے کہ وہ
کبھی تو سات سال کا تھا۔ وہ کسی کی
انگریزی کی کلاس میں تھا، تھا نا؟ یہ کتنی عجیب و غریب بات ہے؟
’مزید محنت کیا کرو۔’ اسکا باپ سوتے وقت کہتا ہو گا، (ہنسی)
شیکسپیر سے، ’اپنے بستر پر جاو، ابھی’
ویلیم شیکسپئر کو کہتا ہو گا، ’اور یہ پینسل نیچے رکھو۔
اور ایسے مت بولو۔ یہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہاـ‘
(ہنسی)
بہر حال ، ہم سٹیٹفورڈ سے لاس اینجلس آ گئے،
اور دراصل میں اس تبدیلی کے بارے میں کچھہ کہنا چاہتا ہوں۔
میرا بیٹا نہیں آنا چاہتا تھا۔
میرے دو بچے ہیں۔ وہ اب 21 سال کا ہے، میری بیٹی 16 سال کی ہے۔
وہ لاس اینجلس نہیں آنا چاہتا تھا۔ اسے پسند تھا،
مگر انگلینڈ میں اسکی ایک لڑکی دوست تھی ۔ وہ اسکی زندگی کا پیار تھی، سارہ۔
وہ اسے ایک مہینے سے جانتا تھا۔
یاد رہے ، انھوں نے چوتھی سالگرہ منائی ہے،
کیوں کہ یہ ایک لمبا عرصہ ہے جب آپ 16کے ہوں۔
بہرحال، وہ جہاز میں بہت پریشان تھا،
اور اس نے کہا، ’مجھے سارہ جیسی کوئی اور لڑکی کبھی نہیں ملے گی۔’
اور اصل میں ہم اس بارے میں کافی خوش تھے،
کیونکہ اسی کی وجہ سے ہم ملک چھوڑ رہے تھے۔
(ہنسی)
لیکن جب آپ امریکا جاتے ہیں تو آپکو ایک چیز کا احساس ہوتا ہے
اور تب بھی جب آپ دنیا میں گھومتے ہیں:
دنیا میں تمام تعلیمی نظام ایک جیسے مضامین پڑھاتے ہیں۔
ہر جگہ۔ آپ کہیں بھی جائیں۔
آپ سوچیں گے کہ یہ مختلف ہو گا، مگر ایسا نہیں ہوتا۔
سب سے اوپر حساب اور زبانیں ہیں،
پھر سماجی مضامین، اور آخر میں فنون لطیفہ۔
دنیا میں ہر جگہ۔
اور بڑی حد تک ہر نظام میں بھی ،
فنون لطیفہ میں ایک درجہ بندی ہے۔
مصوری اور موسیقی کو سکولوں میں عام طور پر ذیادہ مقام دیا جاتا ہے
ڈرامہ اور رقص کے مقابلہ میں ۔ پوری دنیا میں ایسا کوئی تعلیمی نظام نہیں
جو بچوں کو روز رقص کی تعلیم دے،
جیسے ہم انہیں حساب پڑھاتے ہیں۔ کیوں؟
کیوں نہیں؟ میں سمجھتا ہوں یہ کافی اہم ہے۔
میرے خیال میں حساب بہت ضروری ہے، لیکن رقص بھی اہم ہے۔
بچے ہر وقت رقص کریں اگر انھیں کرنے دیا جائے، ہم سب کرتے ہیں۔
ہم سب کے جسم ہیں، ہیں کہ نہیں؟ کیا مجھہ سے کوئی ملاقات چھوٹی؟
سچ میں، ہوتا یہ ہے، (ہنسی)
کہ جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، ہم انہیں تعلیم دینا شروع کرتے ہیں
کمر سے اوپر تک آہستہ آہستہ۔ اور پھر ہم ان کے سروں پر دھیان دیتے ہیں۔
اور تھوڑا سا ایک طرف۔
اگر آپ ایک خلائی مخلوق کی نظر سے تعلیم کو دیکھیں،
اور کہیں ’یہ عوامی تعلیم کس لئے ہے؟’
میرے خیال میں آپ اس نتیجے پر پہینجیں گے۔۔ اگر آپ نتا۶ج کو دیکھیں،
کون اس سے کامیابی حاصل کرتا ہے،
کون وہ سب کچھہ کرتا ہے جو انہیں کرنا چاہیے،
کون تمام نمبر حاصل کرتا ہے، کون جیتتا ہے۔۔
میرے خیال میں آپ اس نتیجے پر پہینچیں گے کہ عوامی نصاب کا سارا مقصد
پوری دنیا میں
یونیورسٹی کے پروفیسر پیدا کرنا ہے۔ ہے نا؟
یہی وہ لوگ ہیں جو اوپر آتے ہیں۔
اور میں ایسا ہی تھا، وہاں پر۔ (ہنسی)
اور مجھے یونیورسٹی کے پروفیسر پسند ہیں، مگر پتا ہے،
ہمیں انھیں انسانیت کی تمام ترکامیابیوں کا معیار نہیں گرداننا چاہیے۔
وہ صرف ذندگی کا ایک روپ ہیں،
زندگی کا صرف ایک روپ۔ مگر وہ تھوڑے متجسس ہیں،
اور یہ میں ان سے لگاو کی وجہ سے کہتا ہوں۔
میرے تجربے میں پروفیسروں سے متعلق ایک چیز حریت انگیز ہے۔۔
سب میں نہیں، مگر عام طور پر ۔۔ وہ اپنے دماغوں میں رہیتے ہیں۔
وہ اوپر رہتے ہیں، اور تھوڑا سا ایک طرف۔
ان کے جسم نہیں رہتے، اہک طرح سے لغوی طور پر۔
وہ اپنے جسموں کو ایک لحاظ سے
اپنے سروں کے لئے آمدورفت کا زریعہ سمجھتے ہیں، ہیں نا؟
یہ ان کے سروں کو ملاقاتوں میںں لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔ (ہنسی)
اگر آپ کو ماورا۶ے جسم تجربات کا صحیح ثبوت چاہیے،
تو پھر آپ رہائشی کانفرنس میں جائیے
اعلٰی علماء کی،
اور شبینہ کلب میں آخری رآت میں جائیے۔
(ہنسی) اور وہاں آپ دیکھیں گے، عمر رسیدہ مرد اور عورتیں
ڈھول کی تھاپ پر بے اختیار جھومتے ہو۶ے
اس کے ختم ہونے کے منتظر تاکہ وہ گھر جا کر اس پر ایک مقالہ لکھہ سکیں۔
ہمارا تعلیمی نظام تعلیمی قابلیت پر انحصار کرتا ہے۔
اور اس کی ایک وجہ ہے۔
پوری دنیا میں یہ نظام اس وقت بنا جب
۔کوئی حقیقی عوامی تعلیمی نظام نہیں تھا، انیسویں صدی سے پہلے۔
وہ سب بنے
صنعتی ضروریات کو پورا کرنے۔
چنانچہ درجہ بندی کی بنیاد دو چیزوں میں ہے۔
اول، کہ کام کےلیے سب سے زیادہ ضروری مضامین
اوپر ہیں۔ چنانچہ آپ انجانے میں دور ہو گئے تھے
سکول میں ان چیزوں سے جب آپ بچے تھے، جو چیزیں آپ کو پسند تھیں،
ان بنیادوں پر کہ آپ
وہ کرتے ہوئے کبھی ملازمت نہیں پا سکیں گے۔ یہ ٹھیک ہے نا؟
موسیقی نہ سیکھو، تم موسیقار نہیں بن سکتے؛
مصوری نہ کرو، تم مصور نہیں بن سکتے۔
دور اندیش مشورہ ۔۔ اب، گہرا مسئلہ۔ پوری دنیا
اک انقلاب میں گھرچکی ہے۔
اور دوسرا یہ کہ تعلیمی قابلیت، جو حقیقتآ حاوی ہو چکی ہے
ہماری ذہانت پر،
کیونکہ یونیورسٹیوں نے نظام اپنے تصور کے مطابق بنایا ہے۔
اگر آپ اس کے متعلق سوچیں، پورا نظام
عوامی تعلیم پوری دنیا میں ایک طویل عمل ہے
یونیورسٹی میں داخلے کا۔
اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے نہایت ذہین ،
قابل، تخلیقی لوگ سوچتے ہیں کہ وہ ایسے نہیں ہیں،
کیونکہ سکول میں جس چیز میں وہ اچھے تھے
اس کو اہمیت نہیں دی گئ ، یا دراصل اس کو بد نما بنا کر پیش کیا گیا۔
اور میرے خیال میں ہم اس راستے پر چلنے کے متحمل نہیں۔
اگلے30 سالوں میں، UNESCO کے مطابق،
پوری دنیا میں زیادہ لوگ اعلی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہونگے
بنسبت تاریخ کے شروع ہونے سے لے کر اب تک۔
ذیادہ لوگ، اور یہ مجموعہ ہے
ان تمام چیزوں کا جن کے متعلق ہم نے گفتگو کی ۔۔
ٹیکنالوجی اور اس سے کام پر رونما ہونے والے اثرات، اور آبادیات
اور آبادی کا بے انتہا پھیلاو۔
اچانک ، ڈگریاں کسی کام کی نہیں رہیں۔ کیا یہ سچ نہیں؟
جب میں طالب علم تھا، تب اگر آپ کے پاس ڈگری تھی، تو آپ کے پاس ملازمت تھی۔
اگر آپ کے پاس ملازمت نہیں تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو خود ملازمت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
اور آپس کی بات، مجھے نہیں چاہیے تھی۔ (ہنسی)
مگر اب ڈگریوں والے بچے اکژ
گھر واپس جاتے ہیں ویڈیو گیمز کھیلنا جاری رکھنے کے لیے،
کیونکہ اب آپ کو MA چاہیے جہاں پہلے ملازمت میں BA ضروری تھا ،
اور کسی دوسری ملازمت کے لیے اب آپ کو PHD چاہیے۔
یہ تعلیمی افراط کا ایک عمل ہے۔
اور یہ نشان دہی کرتا ہے کہ تعلیم کا پورا ڈھانچہ
ہمارے پیروں تلے سے نکل رہا ہے۔ ہمیں مکمل طور پر دوبارہ سوچنا ہے
ذہانت کے بارے میں اپنے تظریے کو۔
ہمیں ذہانت سے متعلق تین چیزیں معلوم ہیں۔
ایک ، یہ متنوع ہے۔ ہم دنیا سے متعلق ہر طرح سے سوچتے ہیں
جیسا ہم اسے محسوس کرتے ہیں۔ ہم بصارت سے سوچتے ہیں،
ہم آواز میں سوچتے ہیں، ہم سوچتے ہیں عضلاتی طور پر۔
ہم سوچتے ہیں تجریدی معیار میں، ہم گردش میں سوچتے ہیں۔
دوم، زہانت متحرک ہے۔
اگر آپ انسانی دماغ میں رابطہ دیکھیں، جیسا کہ ہم نے سنا
کل بہیت ساری پیشکشوں میں،
ذہانت حیرت انگیز طور پر تفاعلی ہے۔
دماغ حصوں میں تقسیم نہیں ہے۔
درحقیقت، تخلیقی صلاحیت ۔۔ جسے میں اک جاری عمل شمار کرتا ہوں
جس میں حقیقی خیالات ہوں جنکی اہمیت ہو۔۔
اور جو اکثر و بیشتر میل ملاپ سے نہیں پیش آتا
چیزوں کو مختلف انضباطی طریقوں سے دیکھنے سے.
ویسے ..دماغ قصداّ ۔۔
اعصابی خلیوں کی ایک رگ ہوتی ہے جو دماغ کے دو حصوں کو ملاتی ہے
اسے کارپس کیلوسم کہا جاتا ہے۔ یہ عورتوں میں موٹی ہوتی ہے۔
جیسا کے ہیلن نے کل کہا، میرے خیال میں
غالباّ یہی وجہ ہے کہ عورتیں بیک وقت مختلف کام کرنے میں بہتر ہوتی ہیں
کیونکہ آپ ہیں، ہے نا؟
بہت سی تحقیق موجود ہے، لیکن مجھے اپنی ذاتی ذندگی سے یہ معلوم ہے۔
اگر میری بیوی گھر میں کھانا پکا رہی ہے۔۔
جو اکثر نہیں ہوتا، شکر ہے۔ (ہنسی)
مگر آپ کو پتا ہے، وہ کرتی ہے۔۔، نہیں، وہ کچھہ چیزوں میں اچھی ہے۔۔
مگر آپ کو پتا ہے، اگر وہ کھانا پکا رہی ہوتی ہے،
تو ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے فون پر مصروف ہوتی ہے،
وہ بچوں سے بات کر رہی ہوتی ہے، وہ چھت کو رنگ کر رہی ہوتی ہے،
وہ وہاں پر دل کی جراحی کر رہی ہوتی ہے۔
اگر میں پکاتا ہوں، درواذہ بند ہوتا ہے، بچے باہر ہوتے ہیں،
فون رکھا ہوتا ہے، اگر وہ اندر آتی ہے تو مجھے اَلجھن ہوتی ہے۔
میں کہتا ہوں، ’ٹیری کچھ خیال کرو، میں یہاں انڈا تلنے کی کوشش کر رہا ہوں’۔ مجھ سے دور رہو۔’ (ہنسی)
اصل میں، آپ کو وہ نفسیاتی بات معلوم ہے،
اگر جنگل میں درخت گرے اور کوئی نہ سنے،
کبھی ایسا ہوا؟ یاد ہے وہ شاہ بلوط؟
میں نے حال ہی میں ایک بہت عمدہ ٹی شرٹ دیکھی جس پر لکھا تھا، ’اگر ایک شخص اپنے دل کی بات کہے’
ایک جنگل میں، اور کوئی عورت اسے نہ سنے،
کیا وہ پھر بھی غلط ہے؟’ (ہنسی)
اور ذہانت سے متعلق تیسری چیز یہ ہے کہ،
یہ منفرد ہوتی ہے۔ میں آجکل ایک ن۶ی کتاب پر کام کر رہا ہوں
’ایپیفینی’، جو ایک سلسلے پر مبنی ہے
لوگوں سے انٹرویو پر کہ کس طرح انھوں نے دریافت کی
اپنی ذہانت۔ میں مسحور ہوتا ہوں کہ کس طرح لوگ وہاں پہنچے۔
اسے میری ایک گفتگو سے بہت ترغیب ملی
جو میں نے ایک ذبردست خاتون کے ساتھہ کی، جن کے بارے میں غالباّ کافی لوگوں
نے کبھی نہیں سنا ہو گا، انہیں گیلین لائین کہتے ہیں،
کیا آپ نے ان کے بارے میں سنا؟ کچھہ نے سنا۔ وہ ایک کوریوگرافر ہیں،
اور ہر کوئی ان کے کام کو جانتا ہے۔
اس نے ’کیٹس،’ اور ’فینٹم آف اوپرا’ کیے
وہ بہت ذبردست ہے۔ میں انگلینڈ میں رائل بیلے کے بورڈ میں تھا،،
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
بہر حال، گیلین اور میں ایک دن کھانے پر تھے اور میں نے کہا،
’گیلین، تم ایک رقاصہ کیسے بنی؟’ اور اس نے کہا
یہ بہت دلچسپ تھا، جب وہ سکول میں تھی،
وہ بہت مایوس تھی، اور تیسویں کی دہائی میں، سکول نے
اس کے والدین کو لکھا اور کہا، ’ہمارے خیال میں’
گیلین سیکھنے میں کمزور ہے۔ ’وہ توجہ نہیں دے سکتی،
وہ بہت بےچین رہتی تھی۔ اب میرے خیال میں وہ کہیں گے
کہ اسے اے ڈی ایچ ڈی۔ ہے نا؟ مگر یہ 1930 تھا،
اور اے ڈی ایچ ڈی تب تک دریافت نہیں ہوا تھا۔
تب تک انہیں اس کیفیت کا پتہ ہی نہیں تھا۔ (ہنسی)
لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ ہو سکتا ہے۔
خیر، وہ ایک ماہر سے ملنے گئی ۔ تو اس بلوط کی لکڑی سے مزین کمرے میں
اور وہ وہاں پر اپنی والدہ کے ساتھہ تھی
اور اسے وہاں کونے میں ایک کرسی پر بیٹھایا گیا،
اور وہ اپنے ہاتھوں پر 20 منٹ بیٹھی رہی جبکہ
وہ آدمی اس کی والدہ کے ساتھہ بات کرتا رہا تمام
مسائل پر جو گیلین کو سکول میں درپیش تھے۔ اور اس کے آخر میں
چونکہ وہ لوگوں کو پریشان کر رہی تھی،
وہ گھر کا کام ہمیشہ تاخیر سے کرتی تھی، وغیرہ وغیرہ ،
آخر میں ڈاکٹر آٹھہ سالہ چھوٹی بچی کے پاس آیا اور بیٹھا
گیلین کے قریب اور بولا، ’گیلین،
میں نے وہ تمام باتیں سنی ہیں جو تماری والدہ
نے مجھے بتائیں، اور میں ان سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔’
اس نے کہا، ’یہاں انتظار کرو، ہم واپس آتے ہیں، ہمیں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔’
اور وہ اسے چھوڑ کر چلے گ۶ے ۔
مگر کمرے سے باہر جاتے ہوے اس نے ریڈیو چلا دیا
جو اس کی میز پر رکھا تھا۔ اور جب وہ
کمرے سے باہر نکلے، اس نے اس کی والدہ کو کہا،
’صرف کھڑے ہو کر اسے دیکھو۔’ اور جس لمحے انہوں نے کمرا چھوڑا،
اس نے کہا، وہ اپنے پیروں پر کھڑی، موسیقی کےساتھہ حرکت کر رہی تھی۔
اور وہ چند متٹ دیکھتے رہے
اور وہ اس کی والدہ کی طرف مڑا اور بولا،
’مسز لائن، گیلین بیمار نہیں ہے، یہ ایک رقاصہ ہے۔
اسے رقص سکھانے والے سکول میں لے جائیں۔’
میں نے کہا، ’پھر کیا ہوا؟’
اس نے کہا، ’وہ لے گئ۔ میں بتا نہیں سکتی کہ وہ کتنا ذبردست تھا۔’
ہم اس کمرے میں گئے اور وہ بھرا ہوا تھا
میری طرح کے لوگوں سے ۔ لوگ جو ساکن نہیں بیٹھہ سکتے تھے۔
لوگ جنہیں سوچنے کے لیے حرکت کرنی پڑتی تھی۔ جنہیں سوچنے کے لیے حرکت کرنا ضروری تھا۔
انھوں نے بیلے ناچا، انھوں نے ٹیپ ناچا، انھوں نے جیز ناچا،
انھوں نے ن۶ے انداز کا رقص کیا، انھوں نے جدید رقص کیا۔
آخر کار اس کا رائل بیلے سکول کے لیے امتحان لیا گیا،
وہ تنہا رقص کرنے والی بن گئ، اس کا کیرئر شاندار رہا
رائل بیلے میں۔ وہ آخر کار گریجویٹ ہوئی
رائل بیلے سکول سے اور
اپنی کمپنی بنائی، گیلین لائن ڈانس کمپنی،
اینڈریو لائل ویبر سے ملی۔ اس نے
موسیقی تھیٹرکی تاریخ کی کچھ کامیاب ترین
پیشکشیں کیں، اس نے لاکھوں کو خوشی دی،
اور وہ لکھہ پتی ہے۔ کوئی اور
غالبأ اسے دواؤں پر ڈال دیتا اور اسے کہتا
کہ پرسکون ہو جاؤ۔
اب، میں سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ (تالیاں) اس ساری بات کا نچوڑ میں یہ سمجھتا ہوں
ایل گور نے پچھلی رات بات کی
ماحولیات سے متعلق، اور ریچل کرسن کا شروع کردہ اتقلاب.
مجھے یقین ہے مستقبل کے لیے ہماری واحد امید
ایک نئ انسانی ماحولیاتی سوچ کو اپنانا ہے،
ایسی جس میں ہم اپنے خیالات کو پھر سے مرتب کریں
خداداد انسانی صلاحیتوں کے بارے میں۔
ہمارے تعلیمی تظام نے اس طرح سے ہماری سوچ ڈھالی ہے
کہ ہم ذمین کو لوٹ رہے ہیں: ایک مخصوص چیز کے لیے۔
اور مستقبل میں یہ ہمارے لیے کارآمد نہیں ہو گا۔
ہمیں بنیادی اصولوں پر دوبارہ سوچنا ہوگا
جن پر ہم اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
جونس سالک کا ایک عمدہ قول ہے، جس میں اس نے کہا، ’اگر تمام حشرات’
زمین سے غائب ہو جائیں،
50 سالوں کے اندر زمین پر تمام زندگی ختم ہو جائے گی۔
اگر تمام انسان زمین سے غائب ہو جائیں،
50 سالوں کے اندر ہر قسم کی حیات نشوونما پائے گی۔’
اور وہ صحیح کہتا ہے۔
TED انسانی تخیل کے تحفے کی خوشی مناتا ہے۔
ہمیں اب محتاط ہونا ہو گا کہ ہم اس تحفے کا استعمال کریں
تدبر کے ساتھہ، اور یہ کہ ہم ان منظر ناموں کو تبدیل کریں
جن کے متعلق ہم نے بات کی ہے۔ اور اسکا واحد طریقہ
جس کے ذریعے ہم یہ کر سکتے ہیں وہ یہ کہ ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں
پر مکمل اعتماد کریں، اور
اپنے بچوں پر بھروسہ کریں۔ اور ہمارا کام
یہ ہے کہ ان کے وجود کے ہر حصے کو تعلیم دیں، تاکہ وہ اس مستقبل کا سامنا کر سکیں۔
بحرحال شائد ہم یہ مستقبل نہ دیکھہ سکیں،
مگر وہ دیکھیں گے۔ اور ہماری ذمہ داری ان کی مدد
کرنا ہے تاکہ وہ اس کے بارے میں کچھ کر سکیں۔ بہت بہت شکریہ۔