10،000 سال پہلے،
شمال مشرقی افریقہ کے علاقوں سے
ایک مہلک وائرس کی ابتداء ہوئی۔
یہ وائرس ہوا کے ذریعے پھیلا،
جِلدی خلیوں پر حملہ کرتے ہوئے،
ہڈی کے گودوں اور،
تِلّیوں،
اور شکار کے لِمفی نوڈزکو تہس نہس کر دیتا۔
بد قسمت متاثرہ شخص کو بخار ہوتا،
قئے،
اور جلد لال ہونے لگتی۔
متاثرہ لوگوں میں سے 30 فیصد افراد مر گئے
بیماری کے دوسرے ہی ہفتے میں۔
بچ جانے والوں کی جِلد پر نشانات اور خراشیں
بقیہ زندگی تک باقی رہتے۔
چیچک پہنچ چکی تھی۔
1350 قبل مسیح میں، چیچک کی پہلی وباء نے
مصر- ہِتّیتی جنگ کے دوران قہر مچایا۔
مصر کے قیدیوں کے ذریعے چیچک
ہِتّیتیوں تک پھیلا،
جس سے اُن کا بادشاہ مر گیا
اور ان کی تہذیب درہم برہم ہو گئی۔
رفتہ رفتہ، چیچک نے ساری دنیا میں
اپنے پنجے پھیلائے
مصری تاجروں کے ذریعے،
پھر صلیبی جنگوں کے دوران عربوں تک پھیلا،
یہاں تک کہ امریکاوں تک پہنچ گیا
اسپینی اور پرتگالی فتوحات کی بدولت۔
تب سے، چیچک نے اربوں لوگوں کی جان لی ہے
ایک اندازے کے مطابق 30 تا 50 کروڑ انسان
صرف 20 ویں صدی میں مارے۔
لیکن، چیچک ناقابلِ شکست نہیں ہے۔
درحقیقت، چیچک کمزور پڑنے لگی
جدید ادویات سے بہت پہلے ہی۔
جس کی شروعات سال 1022 عیسوی سے ہوئی۔
ایک چھوٹی کتاب، جس کا نام ہے
"،چیچک کا صحیح علاج"،
ایک مشہور پہاڑ میں رہائش پذیر بدھسٹ راہبہ
جس کا نام او مے شان تھا
جنوبی صوبے سیچوان میں
چیچک سے خارش زدہ جلد کو گھِس گھِس کر
اُس سے بننے والے پاؤڈر کو
صحت مندوں کے نتھنوں میں پھونکتی۔
اُس نے یہ کیا دیکھنے کے بعد کہ
جو چیچک کے حملے کے سے بچ گئے
انہیں یہ دوبارہ نہیں ہوئی،
اور اس کا یہ عجیب علاج کام کرنے لگا۔
اس علاج کو ویریولیشن کہا جاتا ہے،
دھیرے سے نمو پزیر ہوا
اور 1700 عیسوی تک،
طبیب زخم میں سے کچھ مادہ لے کر
صحت مند لوگوں کے جسم میں ڈالنے لگے
اور یہ بازو پر چار یا پانچ
خراشیں ڈال کر کیا جانے لگا۔
علاج کامیاب ہو رہا تھا
جن کا علاج ہوتا
وہ دوبارہ چیچک سے کبھی بیمار نہیں ہوتے،
لیکن یہ طریقہ مکمل نہیں تھا۔
تین فیصد تک مریض
پیپ سے علاج کیے جانے کے باوجود مر رہے تھے۔
یہ انگریز طبیب ایڈورڈ جینر ہی تھا جس نے
دودھی خادماوں میں ایک چیز کا مشاہدہ کیا
جس سے ہمیں چیچک کا جدید علاج ملا۔
13 سال کی عمر میں جب جینر شاگرد تھا
ایک دیہی حکیم اور وید کے پاس
سوڈبری میں، برسٹل کے قریب،
اس نے ایک دودھی خادمہ کو کہتے سنا،
"مجھے چیچک کبھی نہیں ہوسکتی،
کیوں کہ مجھے کاؤ پاکس ہوئی تھی۔
میرا چہرہ کبھی بد صورت،
داغوں بھرا نہ ہو گا"۔
کاؤ پاکس جِلد کی بیماری ہے
جو چیچک کی طرح ہی ہوتی ہے
اور صرف گایوں کو متاثر کرتی ہے۔
بعد ازاں، بطور معالج،
اُسے احساس ہوا کہ وہ صحیح تھی،
ایسی عورتیں جنہیں کاؤ پاکس تھا وہ پھر کبھی
مہلک چیچک سے متاثر نہیں ہوئیں۔
چیچک اور کاؤپاکس،
وائرس کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن جب وائرس کسی
نا مانوس شکار پر اثر کرتا ہے،
اس صورت میں کاؤ پاکس اگر انسان پر اثر کرے،
تو اس کا زہر کم ہوجاتا ہے،
لہٰذا جینر نے جانچنا شروع کیا
کہ آیا کاؤ پاکس وائرس کو
چیچک سے بچاو کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مئی 1796 میں، جینر کی ملاقات ایک جوان
دودھی خادمہ سے ہوئی،
سارہ نیلمیس نامی،
اس خاتون کے ہاتھ اور بازو
کاؤ پاکس کے تازہ زخموں سے متاثر تھے
جو بلاسّم نامی گائے کی
بچہ دانی سے ہوا تھا۔
اس کے چھالوں سے مواد لے کر،
جیمس فِلِپ میں داخل کیا،
جو کہ اس کے باغبان کا آٹھ سالہ بچہ تھا۔
کچھ دنوں کے بخار اورتکلیف کے بعد،
بچے کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔
دو مہینوں بعد جینر نے بچے میں
پھر مواد داخل کیا،
اس بار ایک تازہ کاؤ پاکس زخم سے مواد لیا۔
بیماری کا حملہ نہیں ہوا،
اور جینر اس نتیجہ پر پہنچا کہ
حفاظت مکمل ہو گئی ہے۔
اس کا منصوبہ کام کر گیا تھا۔
جینر نے بعد میں
کاؤ پاکس وائرس کو استعمال کیا
دیگر کئی لوگوں پر
اور انہیں بار بار
چیچک کے مرض سے روشناس کروایا،
اور یہ ثابت کیا کہ وہ لوگ
چیچک سے محفوظ ہیں۔
اس طریقے کے ذریعے،
جینر نے چیچک کا حفاظتی ٹیکہ ایجاد کیا۔
ویریولیشن کے برعکس، جس میں چیچک کے
جراثیم کو استعمال کیا گیا
لوگوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر،
اس ٹیکے میں انتہائی کم خطرناک
کاؤ پاکس وائرس کو استعمال کیا گیا۔
طبی ماہرین و اداروں نے،
جو ہمیشہ محتاط رہتے ہیں،
اس ایجاد پر بہت غورو خوص کیا
اور بالآخر اسے اپنا لیا۔
ٹیکہ کی بتدریج عوامی سطح پر قبولیت ہو گئی
اور ویریولیشن کی ممانعت ہو گئی
انگلینڈ میں 1840 میں۔
ٹیکے کی کئی بڑی بڑی مہمات کے بعد
جو 19ویں اور 20 ویں صدی میں برپا ہوئیں،
عالمی ادارہ برائے صحت نے تصدیق کی
سال 1979 میں چیچک کےاختتام کی۔
جینر کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے
مناعیات کے بانی کے طور پر،
لیکن دودھی خادمہ سارہ نیلمیس کو نہ بھولیں،
بلوسم نامی گائے کو،
اور جیمس فلپ کو،
ویکسین کی اس عظیم مہم جوئی میں
ان تمام بہادروں کو
جنہوں نے چیچک کے خاتمے میں مدد کی۔