آج میں توانائی اور ماحول پر بات کرنے جارہا ہوں۔ اور یہ شاید کچھ حیران کُن بات ہو کیونکہ فاؤنڈیشن میں میرا کُل وقتی کام زیادہ تر ویکسینوں اور بیجوں سے متعلق ہے، اور ان چیزوں کے بارے میں جو ہمیں ایجاد کرکے فراہم کرنی ہیں تاکہ دو ارب غریب ترین افراد کی ایک بہتر زندگی گذارنے میں مدد کی جاسکے۔ لیکن،توانائی اور ماحول بھی تو ان لوگوں کے لیے دو اہم ترین چیزیں ہیں۔ بلکہ درحقیقت زمین پر بسنے والے دیگر لوگوں سے زیادہ اہم انکے لیے ہیں۔ ماحول خراب تر ہوتا جارہا ہے، جسکا مطلب ہے کہ انکی فصلیں کئی سالوں تک نہیں اُگ پائیں گی۔ بارش یا تو بے تحاشا زیادہ ہوگی، یا پھر اتنی کم کہ کافی نہیں ہوگی۔ چیزوں میں ایسی عجیب تبدیلیاں آئیں گی جنہیں انکا کمزور ماحول بالکل برداشت نہیں کر پائے گا۔ اور اسکا نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوگا: فاقہ کشی، غیر یقینی کیفیت اور افراتفری چنانچہ، ماحول میں آنے والی تبدیلیاں انکے لیے بے حد خوفناک ہونگی۔ اور، توانائی کی قیمت بھی انکے لیے ایک بہت اہم چیز ہے۔ دراصل، اگر آپ صرف ایک ایسی چیز منتخب کریں جسکی قیمت کم ہونی چائیے، غربت ختم کرنے کے لیے، تو آپ، بغیر ہچکچاہٹ کے، توانائی منتخب کریں گے۔ اب دیکھیں، توانائی کی قیمت وقت کے ساتھ کم تو ہوئی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں توانائی کی صنعت میں ہونے والی ترقیوں کا کرداربنیادی ہے۔ کوئلے کے انقلاب نے صنعتی انقلاب لانے میں اہم کردار ادا کیا، اور، 1900 کی صدی میں ہم نے بجلی کی قیمتوں میں تیزی سے کمی ہوتے دیکھی، اور یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے پاس ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشننگ جیسی سہولتیں موجود ہیں اب ہم نت نئی چیزیں بھی بنا سکتے ہیں اور کتنے ہی اور کام بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ، امیروں کی دنیا میں ملنے والی اس بجلی کی وجہ سے ہم کتنے مزے میں ہیں۔ لیکن، جوں جوں ہم اسے سستا کررہے ہیں ۔۔۔ اور آئیے ہم اسے دگنا سستا کرنے کی کوشش کریں ۔۔۔ تو ہمیں ایک نئی رکاوٹ سے نمٹنا ہوگا، اور وہ نئی رکاوٹ CO2 سے متعلق ہے۔ CO2 کرہ ارض کی حرارت بڑھا رہی ہے، اور CO2 کی مساوات درحقیقت کافی سیدھی سادی ہے۔ اگر آپ خارج ہونے والی CO2 کا حساب کریں، جو درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، اور درجہ حرارت میں یہ اضافہ کچھ شدید منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔ جیسے موسم پر پڑنے والے اثرات، اور شاید اس سے بھی برے، بلاواسطہ پڑنے والے اثرات، اور قدرتی ماحولیاتی نظام ان تیزی سے آتی تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہیں ڈھال پاتے، اور یوں ہم اس ماحولیاتی نظام کو ٹوٹتا ہوا پاتے ہیں۔ تو اب، اگر آپ ایک قطعی اندازہ لگائیں کہ CO2 میں ایک خاص حد تک اضافے کا درجہ حرارت پر کتنا اثر ہوگا اور کہاں کہاں مثبت نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، تو اس میں کچھ غیریقینی پن تو ہے، مگر کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں۔ اور اس بارے میں بھی کچھ غیریقینی کیفیت ہے کہ وہ منفی اثرات کتنے برے ہونگے، لیکن اصل میں وہ بہت ہی زیادہ برے ہونگے۔ میں نے اس بارے میں بڑے سائنسدانوں سے کئی بار پوچھا، کہ کیا ہمیں واقعی تقریباً صفر تک جانے کی ضرورت ہے؟ کیا ہم اس میں صرف آدھی یا چوتھائی کمی نہیں کرسکتے؟ اور جواب یہ ملا کہ، جب تک ہم تقریباً صفر تک نہیں پہنچتے، اس وقت تک درجہء حرارت بڑھتا ہی رہے گا۔ چنانچہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ ایسا کہنے سے کافی مختلف بات ہے کہ ہم ایک 12 فٹ اونچا ٹرک ہیں جو 10 فٹ اونچائی والے پُل کے نیچے سے گذرنے کی کوشش کررہا ہے، اور شاید ہم کسی طرح اسکے نیچے سے گذر ہی جائیں گے۔ یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے بہرصورت صفر تک پہنچنا ہے۔ اب دیکھیں، ہر سال ہم بہت سی کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں، یعنی 26 ارب ٹن سے بھی زیادہ۔ یعنی ہر امریکی کے لیے تقریباً 20 ٹن۔ غریب ممالک میں رہنے والوں کے لیے یہ مقدار ایک ٹن سے بھی کم ہے۔ تاہم، پوری دنیا کے باشندوں کے لیے یہ مقدار اوسطاً پانچ ٹن فی کس ہے۔ اس لیے، کسی بھی طرح، ہمیں ایسی تبدیلیاں لانی ہونگی جو اس مقدار کو صفر کی سطح تک کم کرسکے۔ یہ مقدار مستقل اوپر جاتی رہی ہے۔ صرف مختلف اقتصادی تبدیلیاں ہی اس پر کچھ دباؤ ڈال سکی ہیں، چاہے تھوڑا سا ہی چنانچہ ہمیں تیزی سے اوپر جانے کی بجائے اتنی ہی تیزی سے نیچے، اور نیچے آنا ہوگا جب تک صفر کی آخری سطح نہ آجائے۔ اس مساوات میں چار عوامل کارفرما ہیں۔ کچھ تھوڑی سی ضرب کی مشق۔ دیکھیں، آپکی بائیں جانب ایک چیز ہے جسے CO2 کہتے ہیں، جسے آپ صفر کرنا چاہتے ہیں، اور اسکا حساب افراد کی تعداد سے منسلک ہے، وہ سہولیات جو ہر شخص اوسطاً استعمال کررہا ہے، ہر سہولت میں استعمال ہونے والی اوسط توانائی، اور توانائی کے ہر یونٹ پر خارج ہونے والی CO2 کی مقدار۔ آئیے، ان سب پر علیحدہ علیحدہ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم اسے صفر تک کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ شاید، ان نمبروں میں سے کوئی ایک تو صفر کے قریب قریب آ ہی سکتا ہے۔ ہے تو یہ ہائی اسکول والی الجبرا جیسا ہی، لیکن پھر بھی، آئیے دیکھیں تو۔ سب سے پہلے ہمارے پاس آبادی ہے۔ اب دیکھیں، دنیا کی آبادی آج 6.8 ارب افراد پر مشتمل ہے۔ اور یہ تیزی سے نو بلین کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تو، اگر ہم نئی ویکسینیں تیار کرنے میں خوب کامیاب رہیں، اور صحت و تندرستی اور زچہ بچہ کی بہتر سہولیات فراہم کرسکیں، تو ہم اس تعداد کو شاید 10 سے 15 فیصد کم کردیں گے، لیکن یہاں تو ہم 1.3 کا اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ دوسری چیز وہ سہولیات ہیں جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہر چیز شامل ہے، جو کھانا ہم کھاتے ہیں، کپڑے، ٹی وی، ہیٹر۔ یہ سب بہت اچھی چیزیں ہیں، اور غربت سے نجات پانے کا مطلب ہے ان سہولیات کی فراہمی تقریباً ہر اس فرد کو جو اس زمین پر رہتا ہے۔ اور اس عدد کا اوپر جانا ایک بہت اچھی بات ہے۔ امیر دنیا میں، شاید اوپر والے ایک بلین کی حد تک، شاید ہم انکے استعمال میں کچھ کمی کرسکتے ہیں، لیکن یہ عدد، ہرسال، اوسطاً بڑھتا ہی رہے گا چنانچہ، مجموعی طور پہ، یہ دگنا کردے گا ان سہولیات کی فی کس ضرورت کو۔ آئیے ایک بہت ہی بنیادی سہولت کو لیں۔ کیا آپ کے گھر میں اتنی بجلی آتی ہے جو آپکے ہوم ورک کے پڑھنے کے لیے کافی ہو، لیکن، یقین جانیں، ان بچوں کے پاس اتنی بھی بجلی نہیں ہے، اس لے وہ باہر جاکر گلی کے بلب کے نیچے اپنا اسکول کا کام کرتے ہیں۔ اب،اچھی کارکردگی، E، ہرایسی سہولت کے لیے درکار توانائی، اور بالآخر یہاں ہمارے پاس ایک اچھی خبر ہے۔ اب ہمارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو اوپر نہیں جارہی۔ مختلف ایجادات اور روشنی کرنے کے نئے طریقوں کے ذریعے، کاروں کی مختلف اقسام اور عمارتیں تعمیر کرنے کے مختلف طریقوں کے ذریعے۔ اب بہت سی ایسی سہولیات ہیں جہاں آپ لاسکتے ہیں ان سہولیات میں استعمال ہونے والی توانائی میں کافی حد تک کمی، کچھ انفرادی سہولیات میں تو 90 فیصد تک کمی کی جاسکتی ہے۔ دیگر باتیں بھی ہیں۔ مثلاً ہم کھاد کیسے بناتے ہیں، یا ہم بذریعہ ہوائی جہاز نقل و حمل کس طرح کرتے ہیں، جہاں بہتری کی گنجائش کم سے کم ہے۔ چنانچہ، مجموعی طور پہ یہاں، اگر ہم اچھی امید رکھیں، تو ہم کمی کا تناسب تین، یا شاید اور بھی زیادہ، یعنی چھ تک لا سکتے ہیں۔ لیکن ان مندرجہ بالا تین عوامل کے ساتھ، ہم 26 بلین سے، اگر بہت زیادہ بھی لیں، تو شاید 13 بلین تک کمی لاسکے ہیں۔ اور اتنی کمی کافی نہیں رہے گی۔ تو آئیے، ایک چوتھے امر پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔۔ اور یہ ایک کلیدی چیز ہوگی ۔۔ اور وہ ہے توانائی کے ہر یونٹ پر ہونے والے CO2 کے اخراج کی مقدار۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی اسے صفر تک لاسکتے ہیں؟ اگر ہم کوئلہ جلاتے ہیں، تو نہیں۔ اگر ہم قدرتی گیس جلاتے ہیں، تو نہیں۔ تقریباً ہر وہ طریقہ جس سے ہم آج کل بجلی پیدا کرتے ہیں، CO2 خارج کرتا ہے، سوائے نئے رائج ہونے والے قابل تجدید یا جوہری طریقوں کے۔ تو گویا، عالمی پیمانے پر ہمیں جو کرنا ہوگا وہ یہ ہے، کہ ایک نیا نظام تشکیل دیا جائے۔ یقین جانیں، ہمیں توانائی کے میدان میں معجزوں کی ضرورت ہے۔ اب، جب میں کسی معجزے کی بات کرتا ہوں تو اس سے میرا اشارہ کسی ناممکن چیز کی جانب نہیں ہوتا۔ مائکروپروسیسر ایک معجزہ ہی تو ہے۔ پرسنل کمپیوٹر ایک معجزہ ہی تو ہے۔ انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ سروسز ایک معجزہ ہی تو ہیں۔ تو گویا، یہاں موجود افراد بہت سے معجزے تخلیق کرنے کے عمل میں شامل رہے ہیں۔ عام طور پہ، ہم کوئی حتمی تاریخ نہیں دیتے، کہ کسی خاص تاریخ تک کوئی معجزہ کرکے دکھا دیں۔ عام طور پہ ہم بس انتظار کرتے رہتے ہیں، کوئی معجزہ سامنے آتا ہے، کوئی نہیں بھی آتا۔ لیکن یہ وہ معاملہ ہے جس میں ہمیں واقعتاً پوری رفتار دکھانی ہوگی اور ایک مختصر اور محدود وقت میں کوئی معجزہ کردکھانا ہوگا۔ تو، میں نے سوچا کہ میں ایسا کس طرح کرسکتا ہوں؟ کیا کسی قسم کی کوئی قدرتی مثال موجود ہے، کوئی ایسی عملی کارکردگی جو یہاں موجود افراد کے ذہنوں کو واقعی جھنجوڑ سکے؟ میں نے گذشتہ سال کے بارے میں سوچا جب میں مچھر لایا تھا، اور کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اس میں مزہ بھی آیا۔ (قہقہہ) اس شرارت نے انہیں ہماری مہم میں پوری طرح شامل ہونے پر آمادہ کردیا تھا، آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مچھروں کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ تو، توانائی کے بارے میں جو حل میں نکال سکا وہ یہ ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جگنو چھوڑنا ماحول کو بہتر بنانے میں اس سال میرا حصہ ہوگا۔ چنانچہ، یہاں میرے پاس کچھ اصلی جگنو موجود ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ کاٹتے نہیں ہے، بلکہ، شاید وہ اس بوتل سے باہر بھی نہ آئیں۔ (قہقہہ) یعنی ہمارے پاس ایسے بہت سے کھیل تماشے والے حل تو ہیں۔ لیکن ان سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں واقعی میں حل چاہئیں، چاہے ایک یا بہت سے، جو بہت بڑے پیمانے پر کام دکھائیں اور بہت قابل اعتماد ہوں، اور، حالانکہ لوگ مختلف سمتوں میں تلاش تو کررہے ہیں، لیکن میں صرف پانچ ایسے حل دیکھ رہا ہوں جو واقعی بڑے نتائج دکھا سکتے ہیں۔ میں نے ٹائڈ، جیوتھرمل، فیوژن اور بایوفیولز کو تو چھوڑ ہی دیا ہے۔ یہ کچھ حصہ تو ڈال سکتے ہیں، اور اگر میری امید سے سے زیادہ اچھا کرسکیں تو اور بھی اچھی بات ہے، لیکن یہاں میری توجہ کا مرکز یہ ہے کہ ہمیں ان پانچوں میں سے ہر ایک پر کام کرنا ہوگا، اور ہم ان میں سے کسی کو بھی یہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کرسکتے کہ وہ مشکل ہے، کیونکہ ان سب میں نمایاں چیلنجز موجود ہیں۔ آئیے سب سے پہلے جلانے والے ایندھنوں پر غور کریں، یعنی یا تو کوئلہ یا قدرتی گیس جلانا۔ جو ہمیں یہاں کرنا چائیے، چاہے وہ ایک سادہ سی بات ہی کیوں نہ لگے، لیکن وہ سادہ ہے نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ جلنے کے بعد نلی سے نکلنے والی ساری CO2 لی جائے، اور اسے دباؤ کے ذریعے مائع میں تبدیل کرکے کہیں جمع کرلیا جائے، اس امید کے ساتھ کہ وہ وہاں محفوظ رہے گی۔ اب ہمارے پاس کچھ ابتدائی اقدامات ایسے ہیں جن سے 60 تا 80 فیصد کی سطح پر یہ کام ہوسکے، لیکن پورے سو فیصد تک پہنچنا شاید پھر بھی کافی مشکل ہو، اور اس بات پر متفق ہونا بھی کافی مشکل ہے کہ وہ جمع شدہ CO2 کہاں رکھی جائے گی، لیکن اس میں مشکل ترین چیز ہے طویل مدت کا مسئلہ۔ کون یقین سے کہہ سکتا ہے؟ کون اس چیز کی گارنٹی دے سکتا ہے جو درحقیقت اربوں گنا بڑی ہے فضلے کی ہر اس قسم سے جو ایٹمی یا دیگرچیزوں سے پیدا ہوتی ہے؟ یہ ایک بہت ہی بڑی مقدار ہے۔ تو گویا یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہوا۔ اگلی چیز ہے جوہری۔ اس میں بھی تین بڑے مسائل ہیں۔ اسکی قیمت، جو بہت زیادہ ہے، خصوصاً ان ممالک میں جہاں قوانین سخت ہیں۔ اور سلامتی کا معاملہ بھی، یعنی یہ مکمل اطمینان کہ کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا، اگرچہ ان پر انسانی کارکن کام کرتے ہیں، کہ یہ ایندھن اسلحہ بنانے میں استعمال نہیں ہوگا۔ اور پھر آپ اسکے فضلے کا کیا کریں گے؟ اور، اسکے بارے میں بہت سے خدشات ہیں، اگرچہ اسکی مقدار بہت زیادہ تو نہیں ہوتی۔ اس بارے میں لوگوں کو پوری طرح اطمینان ہونا چائیے۔ تو، یہ تین ایسے کافی مشکل مسائل ہوئے جنکا حل ہونا شاید ممکن ہے، اور اسی لیے، ان پر کام ہونا بھی چائیے۔ ان پانچوں میں سے آخر کے تینوں کو میں نے ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ یعنی وہ وسائل جنکے بارے میں لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ انہیں دوبارہ قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ اور درحقیقت ان کے ۔۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑی بات ہے کہ انہیں ایندھن نہیں چائیے ہوتا ۔۔ کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ ان ٹیکنالوجیز میں جمع ہونے والی توانائی کی کثافت ایک پاور پلانٹ سے بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اسے انرجی فارمنگ کہہ سکتے ہیں، چنانچہ ہم کئی مربع میل رقبے کی بات کررہے ہیں، یعنی بجلی پیدا کرنے کے ایک عام پلانٹ سے ہزاروں گنا زیادہ رقبہ۔ اسکے علاوہ، یہ غیرمسلسل ذرائع بھی تو ہیں۔ سورج پورے دن تو نہیں چمکتا، نہ ہی وہ روزانہ چمکتا ہے، اور اسی طرح، ہوا بھی تو ہر وقت نہیں چل رہی ہوتی۔ تو گویا، اگر آپ ان ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، تو آپ کے پاس توانائی حاصل کرنے کے کچھ طریقے ضرور ہونے چاہئیں ان اوقات میں جب یہ ذرائع موجود نہیں ہوتے۔ گویا، یہاں ہمیں بہت بڑے اخراجات کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہمارے سامنے ٹرانسمیشن کے چیلنج ہیں۔ مثال کے طور پہ، توانائی کا یہ ذریعہ آپکے ملک سے باہر ہے، تو آپکو نہ صرف ٹیکنالوجی چاہئیے، بلکہ آپ کو اس امکانی خطرے سے بھی نمٹنا ہوگا کہ توانائی کہیں اور سے آرہی ہے۔ اور، آخر میں، یہ ذخیرہ کرنے والا مسئلہ۔ اب، ان سب کو ایک رخ دینے کی خاطر، میں گیا اور دیکھا ان سب بیٹریوں کو جو اس وقت بنائی جارہی ہیں، کاروں کے لیے، کمپیوٹر کے لیے، فون کے لیے، فلیش لائٹ کے لیے، یعنی ہر چیز کے لیے، اور ان کا موازنہ برقی توانائی کی اس مقدار سے کیا جو اس وقت دنیا ستعمال کررہی ہے، اور مجھے یہ پتہ چلا کہ وہ سب بیٹریاں جو ہم اس وقت بنا رہے ہیں اس ساری توانائی کے صرف 10 منٹ ذخیرہ کرسکتی ہیں۔ گویا، حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں کسی بہت بڑی اور اچھوتی دریافت کی ضرورت ہے، کوئی ایسی چیز جو سینکڑوں گنا بہتر ہو ان سب طریقوں سے جو ہمارے پاس اس وقت ہیں۔ یہ ناممکن تو نہیں، لیکن اتنا آسان بھی نہیں۔ دیکھیں، یہ بات اس وقت سامنے آتی ہے جب آپ ان غیرمسلسل ذرائع سے استفادہ کرنا چاہیں فرض کریں، اس سے 20 تا 30 فیصد زیادہ جو آپ اس وقت استعمال کررہے ہیں۔ اگر آپ اس پر 100 فیصد انحصار کرنا چاہتے ہیں، تو آپکو ایک زبردست اور معجزاتی بیٹری چاہئیے ہوگی۔ تو، ہم اس معاملے میں آگے کیسے بڑھیں: ٹھیک طریقہ کیا ہونا چائیے؟ کیا یہ کوئی مینہیٹن پروجیکٹ ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہمیں ہمارے ہدف تک پہنچا دے؟ تو جناب، ہمیں اس پر کام کرنے کے لیے بہت سی کمپنیاں چائیے ہونگی، سینکڑوں۔ ان پانچوں میں سے ہر راستے کے لیے، ہمیں کم ازکم ایک سو لوگ درکار ہیں۔ اور بھی بہت سے لوگ، جنہیں آپ دیکھیں تو کہیں کہ یہ تو پاگل ہیں۔ یہ ہے اچھی بات۔ اور، میں سمجھتا ہوں، کہ یہاں TED گروپ میں، ہمارے پاس بہت سے ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہی سے ایسی کوششیں کررہے ہیں۔ بل گراس کی کئی کپمنیاں ہیں، جن میں سے ایک کا نام ای سولر(eSolar) ہے جسکے پاس کچھ زبردست شمسی تھرمل ٹیکنالوجیز ہیں۔ ونود کھوسلا بھی درجنوں کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جو بہت سے زبردست کام کررہی ہیں اور نت نئے امکانات پر غور کررہی ہیں، اور میں اس میں انکی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ناتھن مہروولڈ اور میں تو اب واقعی میں ایک کمپنی کا ساتھ بھی دے رہے ہیں جس نے، شاید آپکو سن کر حیرت ہو، حقیقت میں جوہری حل پر کام کرنا شروع بھی کردیا ہے۔ جوہری طریقوں میں کچھ جدّتیں تو آئیں: ماڈیولر، مائع۔ لیکن اس صنعت میں ایسی جدّتیں اب عرصہ ہوا آنا بند ہوگئیں ہیں۔ تو یہ بات کچھ اتنی حیران کُن بھی نہیں کہ کچھ نئے نظریات ابھی بھی یوں ہی دھرے رکھے ہوں۔ ٹیراپاور کا نظریہ کہتا ہے کہ یورینیم کے ایک حصے کو جلانے کے بجائے، ایک فیصد، جو کہ U235 ہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ 99 فیصد، یعنی U238 کو بھی جلائیں۔ شاید اسے پاگل پن ہی کہیں۔ درحقیقت، لوگ اس بارے میں کافی عرصہ پہلے سے باتیں کررہے تھے، لیکن وہ ٹھیک طور پہ یہ عملی مظاہرہ نہیں کر پارہے تھے کہ یہ طریقہ صحیح کام کرے گا بھی کہ نہیں۔ چنانچہ یہ جدید ترین سپر کمپیوٹرز آنے کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا ہے کہ اب آپ مصنوعی طور پہ ایسا کرکے دیکھ سکتے ہیں، جی جناب، ٹھیک اور عملی طریقہ کار اختیار کرنے سے یوں لگتا ہے کہ یہ طریقہ کام کرجائے گا۔ اور چونکہ اب آپ وہ 99 فیصد جلا رہے ہیں، تو آپ نے اخراجات میں زبردست کمی کرلی ہے۔ آپ دراصل فضلہ جلا رہے ہیں، اور آپ واقعی استعمال کرسکتے ہیں ایندھن کے طور پہ وہ سارا فضلہ جو آج کے ری ایکٹروں سے نکلتا ہے۔ تو، بجائے اسکے کہ آپ انکے بارے میں فکرمند ہوں، آپ بس اسے اپنالیں۔ یہ ایک زبردست چیز ہے۔ یہ اپنے کام کے دوران اس یورینیم کے سانس لیتی ہے۔ گویا یہ ایک موم بتی کی طرح ہے۔ آپ وہاں ایک شہتیر دیکھ سکتے ہیں، جسے عموماً ٹریولنگ ویو ری ایکٹر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ایندھن کی مد میں، یہ مسئلے کو واقعی حل کردیتا ہے۔ یہاں میرے پاس کینٹکی میں ایک جگہ کی تصویر ہے۔ یہ فالتو مواد ہے، وہی 99 فیصد، جس میں سے انہوں نے وہ حصہ نکال لیا ہے جسے وہ اب جلاتے ہیں، چنانچہ اسے ختم شدہ یورینیم (depleted uranium) کہا جاتا ہے۔ یہ امریکہ کو سینکڑوں برس تک توانائی مہیا کرسکتا ہے۔ اور، صرف سمندر کے پانی کو ایک کم خرچ طریقے سے فلٹر کرنے سے، آپ کواس پوری زمین کی ہمیشہ ہمیشہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ایندھن دستیاب ہوجائے گا۔ گویا، اب آپ جان گئے ہونگے کہ ہمیں آگے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے، لیکن یہ ان سینکڑوں نظریات میں سے ایک نظریے کی مثال ہے جن پر ہمیں تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ تو آئیے سوچیں کہ ہمیں اپنا احتساب کیسے کرنا چاہیے؟ ہمارا رپورٹ کارڈ کیسا دِکھنا چاہیے؟ آئیے ہم اس جانب قدم بڑھائیں جہاں ہمیں واقعی بڑھانے چاہئیں، اور اسکے بعد درمیان کی چیزوں پر نظر دوڑائیں۔ 2050 تک، آپ نے بہت سے لوگوں کو 80 فیصد کمی کی باتیں کرتے سنا ہے۔ ہمارا اس ہدف تک پہنچنا واقعی بےانتہا ضروری ہے۔ اور وہ 20 فیصد ان چیزوں کے لیے استعمال ہوگا جو غریب ممالک میں جاری ہیں، جہاں ابھی بھی کچھ زراعت ہے۔ امید ہے کہ ہم جنگلات اور سیمنٹ کے معاملات میں بہتری لاچکے ہونگے۔ گویا، اس 80 فیصد تک پہنچنے کے لیے، ترقی یافتہ ممالک کو، بشمول چین جیسے ممالک، اپنی بجلی کی پیداوار کا طریقہ مکمل بدلنا ہوگا۔ تو، دوسرا پیمانہ یہ ہے، کہ کیا ہم زیرو ایمیشن ٹیکنالاجی بروئے کار لارہے ہیں، کیا ہم نے اسے تمام ترقی یافتہ ممالک میں نافذ کردیا ہے اور اب ہم اسے دوسرے مقامات تک پہنچانے کے مرحلے تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم کام ہے۔ یہ اس رپورٹ کارڈ کی تیاری کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ تو، اگر وہاں سے واپس ہوں، تو 2020 کا رپورٹ کارڈ کیسا دِکھنا چاہیے؟ تو پھر، اس میں دو عنصر ضرور ہونے چاہئیں۔ ہمیں بہتری کے یہ اقدامات ضرور کرنے ہونگے تاکہ کمی آنا شروع تو ہو۔ جتنا کم اخراج ہم کریں گے، اتنا ہی کم CO2 کا مجموعہ ہوگا، چنانچہ، درجہ حرارت بھی اتنا ہی کم ہوگا۔ لیکن کچھ پہلوؤں سے، وہ گریڈ جو ہم وہاں حاصل کریں گے، ایسے کام کرتے ہوئے جو ہمیں کمی کے بڑے اہداف تک نہیں پہنچا پاتے، اہمیت میں دوسرے کے یا تو برابرہے، یا شاید کچھ کم ہی ہے، اور وہ ہے جدت کا وہ نکتہ جو یہ انقلابی اہداف حاصل کرلے گا۔ اور ان جدتوں پر ہمیں انتہائی تیزی سے کام کرنا ہوگا، اور اسے ہم کمپنیوں کے تناظر میں ناپ سکتے ہیں، پائلٹ پروجیکٹس، قوانین وغیرہ جو تبدیل کئے گئے ہوں۔ اس بارے میں بہت سی زبردست کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ الگور کی کتاب "ہمارا انتخاب" - "Our Choice" اور '"یوڈ مکے" کی کتاب "گرم ہوا کے بغیر پائیدار توانائی" - یہ کتابیں واقعی ہمیں ایک بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتی ہیں جس پہ وسیع پیمانے پر گفتگو کی جاسکتی ہے، کیونکہ ہمیں اس سلسلے میں بہت وسیع اعانت چاہیے۔ ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ چنانچہ یہ ہے تو ایک خواہش لیکن یہ ایک بہت ٹھوس اور شدید خواہش ہے کہ ہمیں یہ ٹیکنالوجی ضرور ایجاد کرنی چاہئیں۔ اگر آپ مجھے آئندہ 50 سالوں تک صرف ایک خواہش کرنے کی اجازت دیں، تو میں شاید اسے چنوں گا جو صدر ہے، یا میں کوئی ویکسین چنوں گا، جو کہ میری پسندیدہ چیز ہے، یا میں یہ چیز چنوں گا جسے ایجاد کرنے میں خرچ بھی آدھا آئے گا اور کوئی CO2 بھی نہیں خارج ہوگی، یہی وہ خواہش ہوگی جو میں یقیناً چنوں گا۔ یہ وہ کام ہے جس کا سب سے زیادہ اور سب سے بہترین اثر ہوگا۔ اگر ہم اپنی یہ خواہش حاصل نہ کرسکے، تو ان لوگوں کے درمیان خلیج اور بھی بڑھ جائے گی جو مختصر یا طویل المدت سوچ رکھتے ہیں، امریکہ اور چین کے درمیان، غریب اور امیر ممالک کے درمیان، اور ان سب سے بڑھ کر ان دو ارب افراد کی زندگیاں اور بھی بدتر ہوجائیں گی۔ تو، ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ میں آپ سے کس کام کی اپیل کررہا ہوں کہ قدم بڑھائیے اور ہمت کیجئیے؟ ہمیں اور زیادہ تحقیقاتی رقوم کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کوپن ہیگن جیسی جگہوں پر ممالک مل بیٹھیں، تو انہیں صرف CO2 پر ہی بات نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں جدت لانے کے اس ایجنڈے پر بھی بحث کرنی چاہیے، اور آپ کو ان بےانتہا کم رقوم کا سن کر شدید دھچکا لگے گا جو ان جدید طریقوں پر خرچ کی جاتی ہیں۔ ہمیں واقعی کچھ انقلابی مارکیٹ اقدامات کی ضرورت ہے، مثلاً CO2 ٹیکس، اسکی حد اور تجارت۔ ایسا کوئی اقددام جو قیمتوں کے یہ اشارے وہاں تک پہنچا دے۔ ہمیں اس پیغام کو پھیلانا ہوگا۔ ہمیں اس بات چیت کو زیادہ منطقی اور زیادہ قابلِ فہم بات چیت بنانا ہوگا، ان اقدامات سمیت جو حکومت کرتی ہے۔ یہ ایک بہت اہم خواہش ہے، ایک ایسی خواہش جو میں سمجھتا ہوں کہ ہم مل کر حاصل کر سکتے ہیں۔ آپکا بہت شکریہ۔ (تالیاں) شکریہ۔ کرس اینڈرسن: شکریہ، شکریہ۔ (تالیاں) شکریہ۔ یوں لگتا ہے کہ اب مجھے ٹیراپاور کی زیادہ سمجھ آگئی ہے، کیوں ٹھیک ہے نا۔۔ میرا مطلب ہے، سب سے پہلے، کیا آپ ہمیں کچھ اندازہ بتا سکتے ہیں کہ اسکے لیے کتنی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی؟ بل گیٹس: اسکا سافٹ ویئر بنانے کے لیے، سپر کمپیوٹر خریدیے، تمام بڑے سائنسدانوں کو ملازم رکھنے کے لیے، جو ہم کرچکیں ہیں، یہ صرف دسیوں ملین بنتے ہیں، اور ایک بار ہم نے اپنے مواد کو ایک روسی ری ایکٹر پر ٹیسٹ بھی کیا تاکہ ہمیں یقین ہوجائے کہ یہ چیزیں صحیح کام کررہی ہیں، صرف تب آپ سینکڑوں ملین کی سطح پر پہنچیں گے۔ سب سے مشکل کام پائلٹ ری ایکٹر کی تعمیر ہے، کئی بلین کی تلاش، ریگولیٹر کی تلاش، اور وہ جگہ جہاں ان میں سے سب سے پہلی چیز درحقیقت تعمیر کی جائے گی۔ جب آپ پہلی تعمیر کرلیں، اور وہ اسی طرح کام کرنے لگے جیسی آپ نے اسکی تشہیر کی تھی، تو پھر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی، کیونکہ اسکی معاشیات، اسکی توانائی کی کثافت، جوہری سے اتنی ہی مختلف ہیں جتنی ہم جانتے ہیں۔ کرس اینڈرسن: گویا، اگر میں صحیح سمجھا، اسکے لیے ہمیں زمین کی انتہائی گہرائیوں میں تعمیر کرنی ہوگی تقریباً ایٹمی ایندھن کے ایک عمودی کالم کی طرح سے، اس طرح کی استعمال شدہ یورینیم کا، اور پھر سلسلہ اوپر سے شروع ہوکر نیچے کی سطح تک جائے گا؟ بل گیٹس:جی بالکل۔ آجکل تو آپ ہر وقت ری ایکٹر کو ایندھن فراہم کرنے میں لگے رہتے ہیں، یوں بہت سے لوگ اور بہت سے کنٹرول ایسے ہیں جو غلطی کرسکتے ہیں، اس چیز کو جب آپ اسے کھول رہے ہوں یا چیزیں اندر باہر کررہے ہوں۔ جو کہ ایک اچھی بات نہیں ہے۔ تو، اگر آپکے پاس سستا ایندھن ہو جسے آپ 60 سال تک کے لیے بھر سکیں۔۔ تو اسے ایک شہتیر کے طور پر سوچیں۔۔ بس اسے نیچے رکھ دیں اور ان پیچیدگیوں سے بچ جائیں۔ اور وہ وہاں پڑا رہے گا اور ساٹھ سال تک جلتا رہے گا، اور یوں یہ کام پورا ہوجائے گا۔ کرس اینڈرسن: یعنی یہ ایک ایسا جوہری توانائی کا پلانٹ ہوگا جو اپنا فضلہ بھی خود ہی صاف کیا کرے گا۔ بل گیٹس: جی بالکل۔ فضلے کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوگا، آپ اسے وہیں پڑا رہنے دیں گے ۔۔ اس طریقے میں فضلے کی پیداوار میں بھی بہت حد تک کمی آ جائے گی ۔۔ اور پھر آپ اسے اٹھا کر، اسکی جگہ دوسرا رکھ دیں گے اور اسے جلائیں گے۔ اور ہم یہ کام اسی فضلے سے شروع کرسکتے ہیں جو آج بھی موجود ہے، اور جو ری ایکٹر کے قریب کولنگ پولز اور ڈرائی کاسکنگ میں پڑا رہتا ہے۔ یہ ہمارا وہ ایندھن ہے جس سے ہم کام شروع کریں گے۔ گویا، وہی چیز جو ان ری ایکٹروں سے نکلنے والا بڑا مسئلہ ہے، وہی ہمارے لیے کام کی چیز بن جائے گی، اور ساتھ ہی آپ فاضل مواد کی مقدار میں بھی ڈرامائی طور پر کمی کرتے جائیں گے جیسے جیسے آپ اس کام میں آگے بڑھیں گے۔ کرس اینڈرسن: لیکن جب آپ نے دنیا میں مختلف لوگوں سےبات کی ان امکانات کے بارے میں، تو آپ نے کہاں یہ محسوس کیا کہ وہ لوگ اس سلسلے میں واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ بل گیٹس: دیکھیں، ہم نے کوئی خاص مقام تو منتخب نہیں کیا ہے، اور اسکے علاوہ وہ دلچسپ قوانین بھی تو ہیں جو کسی بھی ایٹمی چیز کا راز افشاء کرنے سے متعلق ہیں، پھر بھی، ہمیں بہت سے دلچسپی رکھنے والے ملے، روس، انڈیا اور چین میں جہاں ہماری کپمنی کے لوگ گئے۔ میں نے یہاں کے سیکریٹری برائے توانائی سے بھی ملاقاتیں کی ہیں، اور اس بارے میں بات کی ہے کہ یہ چیز توانائی کے انکے ایجنڈے میں کس طرح فٹ کی جاسکتی ہے۔ تو، میں کافی پُرامید ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ فرانس اور جاپان والوں نے تو کچھ کام کر بھی لیا ہے۔ جو اس کام سے کافی مختلف ہے جو پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن ایک تیزرفتار ری ایکٹر کی طرح ہے، اور بہت سے ممالک نے تو یہ بنا بھی لیے ہیں۔ تو جس کسی نے بھی تیزرفتار ری ایکٹر بنا لیا ہو، وہ یہ چیز بنانے والا اولین امیدوارہوگا۔ کرس اینڈرسن: تو، کیا آپکے ذہن میں اسکا نقشہ اور امکان کس حد تک موجود ہیں کہ یہ کام واقعی ممکن ہے؟ بل گیٹس: دیکھیں، ہمیں درکار ہیں، ایک ایسی ہائی سکیل، الیکٹرو جنریشن چیز بنانے کے لیے جو کافی سستی بھی ہو 20 سال اسے ایجاد کرنے کے لیے اور 20 سال اسکی عملی شکل بنانے کے لیے۔ یہ اندازاً وہ حتمی تاریخ یا مدت ہے جو ماحولیاتی ماڈلوں نے ہمیں دکھائی ہے کہ جسے ہمیں پورا کرنا ہے. اور، ٹیراپاور کو تو آپ جانتے ہی ہیں، اگر سب ٹھیک ٹھاک رہتا ہے، اور جو شاید ایک بڑی امید ہے، یہ آسانی سے کرسکتا ہے۔ اور، خوش قسمتی سے، اب درجنوں ایسی کمپنیاں ہیں، ہمیں سیکنڑوں کی ضرورت ہے۔ جواسی طرح، اگر انکی سائنس ٹھیک جاتی ہے، اور انکے پائلٹ پلانٹ کی رقوم صحیح استعمال ہوجاتی ہیں، تو وہ بھی اسے حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہوسکتی ہیں۔ اور سب سے اچھی بات تو یہ ہوگی کہ ان میں سے بہت سی کامیاب ہوجائیں، کیونکہ پھر آپ بہت سے تجربات کو ملا کر ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں واقعی ضرورت ہے کہ کوئی ایک تو کامیاب ہو۔ کرس اینڈرسن: بڑے پیمانے کی امکانی تبدیلیوں کے تناظر میں، کیا یہی وہ سب سے بڑی تبدیلی ہے جس سے آپ واقف ہیں؟ بل گیٹس: توانائی سے متعلق کوئی انقلابی ایجاد سب سے اہم ترین چیز ہے۔ وہ ہوتی تو، ماحولیاتی پابندی کے نہ ہونے کے باوجود، لیکن ماحولیاتی پابندی نے اسے اور بھی اہم بنا دیا ہے۔ ایٹمی معاملات میں دوسرے اختراعات کرنے والے بھی موجود ہیں، اور جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں، کہ ہم انکے کام سے اتنی اچھی طرح آگاہ نہیں جتنا ہم اس کام کو جانتے ہیں، لیکن ماڈیولر لوگ، وہ ایک الگ طریقہ کار ہے۔ ایک مائع قسم کا ری ایکٹر ہے، جو شاید کچھ مشکل لگتا ہو، مگر شاید وہ ہمارے بارے میں یہی کہتے ہوں۔ چنانچہ، مختلف لوگ موجود ہیں۔ لیکن اسکی خوبصورتی یہ ہے کہ یورینیم کا ایک مالیکیول مثلاً، کوئلے کے ایک مالیکیول کے مقابلے میں ایک ملین گنا زیادہ توانائی رکھتا ہے، تو گویا، اگر آپ منفی عوامل سے نمٹ سکیں، جو اصل میں تابکاری، درکار جگہ اورلاگت، امکانات، جو کہ زمین اور دیگر چیزوں پر پڑنے والے اثرات ہیں، یہ سب بھی اپنی جگہ اہم ہیں۔ کرس اینڈرسن: اور اگر یہ چیز کامیاب نہیں ہوئی تو پھر؟ کیا ہمیں ہنگامی اقدامات شروع کرنے پڑیں گے تاکہ زمین کے درجہ حرارت کو متوازن رکھ سکیں؟ بل گیٹس: اگر آپ اس صورتحال تک آ ہی جائیں، تو یہ ایسا ہوگا جیسے آپ نے زیادہ کھا لیا ہو اور اب آپکو دل کا دورہ پڑنے ہی والا ہو۔ تو پھر آپ کہاں جاتے ہیں؟ شاید آپکو دل کی سرجری کی ضرورت پڑ جائے یا اور کچھ بھی۔ تحقیق کی ایک شاخ ہے جسے جیو انجینئرنگ کہا جاتا ہے، یہ مختلف طرح کی تکنیکیں ہیں جو حرارت کے عمل میں تاخیر کردیں گی تاکہ ہمیں ایک ساتھ اپنا کام کر دکھانے کے لیے 20 یا 30 سال مل جائیں۔ تو گویا، یہ تو ایک انشورنس پالیسی ہوئی۔ آپکو امید ہے کہ آپکو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپکو انشورنس پالیسی پر تو کام کرنا ہی نہیں چاہئیے۔ کیونکہ شاید یہ آپکو سست بنا دے، اور آپ کھاتے ہی رہیں گے کیونکہ آپ جانتے ہونگے کہ دل کی سرجری آپکو بچانے کے لیے دستیاب ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ عقلمندی ہوگی، مسئلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، لیکن اب جیو انجینئرنگ پر بحث ہورہی ہے اسکے متعلق کہ کیا اسے پچھلی جیب میں رکھنا چاہئیے اس صورت میں اگر کام جلدی ہونے لگیں، یا یہ کہ یہ جدت اس سے بہت سست رفتاری سے آئے جتنی ہمیں امید ہے۔ کرس اینڈرسن: ماحول کے بارے میں شکی مزاج لوگ، کیا آپکے پاس ان سے کہنے کے لیے بھی چند جملے ہیں، آپ انہیں کیسے قائل کریں گے کہ وہ غلطی پر ہیں؟ بل گیٹس: ہاں، بدقسمتی سے، ان شکی مزاج لوگوں کے مختلف کیمپ ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو سائنسی دلیلیں دیتے ہیں اور کافی کم تعداد میں ہیں۔ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے منفی اثرات کا امکان ہے، جنکا تعلق ان بادلوں سے ہے جو سلسلہ شروع کرتے ہیں؟ انکے پاس کہنے کے لیے کم، بہت ہی کم باتیں ہیں کیونکہ ان چیزوں کا امکان ایک ملین میں ایک کا ہے۔ جو سب سے بڑا مسئلہ ہمیں یہاں درپیش ہے وہ ایڈز کی طرح کا ہے۔ آپ آج کوئی غلطی کرتے ہیں، اور اسکا خمیازہ آپکو بہت بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ چنانچہ، جب آپکے سامنے بہت سے ہنگامی مسائل کھڑے ہوں، تو اس وقت ذرا سی تکلیف اٹھانے سے آپکو بعد میں بہت فائدہ مل سکتا ہے ۔۔ اور اس تکلیف کا بھی ابھی کچھ پکا پتہ نہیں کہ ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ درحقیقت، IPCC رپورٹ، جو کہ ضروری نہیں کہ سب سے خراب صورتحال دکھا رہی ہو، اور امیر دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو IPCC کی جانب دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، اوکے، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اور اصل میں یہی غیریقینی حصہ ہی تو ہے جو ہمیں اس جانب دھکیل رہا ہے۔ لیکن میرا خواب اس بارے میں یہ ہے کہ، اگر آپ اسے معاشی طور پہ ممکن بنا سکیں، اور CO2 کی پابندیوں پر عمل کرسکیں، تو وہ شکی مزاج لوگ بھی کہنے لگیں گے، ٹھیک ہے، مجھے اسکی فکر نہیں کہ یہ CO2 خارج نہیں کرتا، بلکہ میری تو ایک طرح یہ خواہش ہے کہ یہ CO2 ضرور خارج کرے، لیکن پھر بھی میں اسے قبول کرلوں گا کیونکہ یہ ان سب سے سستا ہے جو اب تک وجود میں آچکے ہیں۔ (تالیاں) کرس اینڈرسن: تو گویا، یہ ہوگا آپکا جواب بارن لومبرگ کے اعتراض پر، کہ بنیادی طور پہ اگر آپ یہ ساری توانائی C02 کا مسئلہ حل کرنے پر خرچ کردیتے ہیں، تو یہ آپکے دیگر سب اہداف کو دور کردے گا جو آپکی دنیا سے غربت اور ملیریا ختم کرنے یا دیگر ایسی کوششیں ہیں [اور یہ کہ] اس کام پر رقم خرچ کرنا گویا زمین کے وسائل کو فضول ضائع کرنے کے مترادف ہوگا جبکہ ہمارے کرنے کے لیے زیادہ بہتر کام موجود ہیں۔ بل گیٹس: دیکھیں، ریسرچ اور ڈیویلپمینٹ پر جو اصل اخراجات ہونگے ۔۔ فرض کریں کہ امریکہ کو اس رقم سے 10 بلین زیادہ ہرسال خرچ کرنے پڑیں جو وہ اس وقت کررہا ہے ۔۔ تو یہ بات در حقیقت اتنی ڈرامائی نہیں۔ یہ کام دوسرے کاموں سے کٹوتی نہیں کرے گا۔ جس کام کے لیے آپ بڑی رقم خرچ کرسکتے ہیں، اور سمجھدار لوگ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں، کہ اگر آپکے پاس کوئی غیرمنافع بخش کام ہو اور آپ اس پر رقم لگانے کی کوشش کرہے ہوں۔ تو، میں سمجھتا ہوں، کہ یہ زیادہ ترضیاع ہوگا۔ جب تک کہ آپ کافی قریب پہنچ چکے ہوں اور آپ صرف سیکھنے سکھانے پر رقم لگا رہے ہوں اور یوں یہ کام کافی سستا پڑ جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دوسری ایسی چیزیں بھی آزمانی چاہئیں جو اچھے امکانات کی حامل ہوں اور جن پر خرچہ بھی بہت کم ہو۔ اگر یہ کاروباری گُر کامیاب ہوجاتا ہے، تو آئیے ہم توانائی کو انتہائی مہنگا کردیں، پھر امیر لوگ اسے خرید سکیں گے۔ میرا مطلب ہے، ہم جتنے لوگ بھی یہاں موجود ہیں سب توانائی کے لیے پانچ گنا زیادہ قیمت ادا کرسکتے ہیں لیکن اپنا اندازِ زندگی تبدیل نہیں کرسکتے۔ سارا خطرہ تو ان دو بلین کو ہے۔ اور اب تو لومبرگ بھی بدل گیا ہے۔ اسکا لڑنا اب یہ ہے کہ تحقیق و ترقی پر زیادہ گفتگو کیوں نہیں کی جارہی۔ وہ ابھی بھی، اپنے پہلی چیزوں کی وجہ سے، ابھی بھی شکّی مزاجوں میں شامل ہے، لیکن اب وہ سمجھ گیا ہے کہ وہ لوگ اب کافی اکیلے رہ گئے ہیں، اور یوں، اب وہ تحقیق و ترقی کو اپنا موضوع بنا رہا ہے۔ تو اس میں کسی چیز کا ایک شائبہ سا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ مناسب ہے۔ تحقیق و ترقی پر خرچ کی جانے والی رقوم پاگل پن کی حد تک کم ہیں۔ کرس اینڈرسن: بہرحال بل، شاید میں یہاں موجود زیادہ تر لوگوں کی طرف سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مجھے واقعی بہت امید ہے کہ آپکی تمنا ضرور پوری ہوگی۔ بہت بہت شکریہ۔ بل گیٹس: شکریہ (تالیاں)