شکسپیسر کا لفظ استعمال کرنا اکیسویں صدی کے کسی بھی کلاس روم میں معلموں کے لیے اتنا خطرناک ہو گیا ہے جتنا غباروں کو ٹوسٹر میں رکھنا۔ اس سادہ سے لفظ کو بول کر، عام استاد سامنا کرتا ہے ڈھیروں آہوں، کراہوں، غارت گر نگاہوں کا، اور کبھی کبھار کرسی اس کے یا اس کی سمت اچھالی جاتی ہے۔ مگر شکسپیسر کی تخلیقات بے لطف، گڈ مڈ، لمبے اور پرسوز ڈرآمے نہیں جو 400 سال پہلے لکھے گئے۔ وہ مہم جوئیاں ہیں شدت پسندی سے متعلق انسانی فطرت: محبت، نفرت، حسد، پرجوش ارادہ، خوف، عدم اعتماد، دھوکہ، اور قتل کی۔ ہماری اپنی زبان اسکی تخلیق کی قرضدار ہے، اس نے 2000 الفاظ ایجاد کیے اپنے ڈراموں میں استعمال کے لیے، جو اوکسفورڈ لغت میں اب بھی موجود ہیں۔ الفاظ جیسے "کاونٹ لیس" اور "اسیے سی نیشن" اسی طرح محاورے جیسے "ون فیل سوپ"، "فاول پلے"، اور "ٹو بھی اِن آ پکل" بھی تمام ولیم کے ذھین دماغ سے برآمد ہوئیں۔ اور بہت سی صدائیں ہیں شکسپیسر کی رومانی زبان کی بھی۔ اگر آپ رومیو اور جولیٹ پڑھیں تو اسطرح کے جملوں کو دیکھیں گے "وہ روشنی کو تیز جلنا سکھاتی ہے" اور "ایک سفید فاختہ دِکھتی ہے جو کووں کے جھنڈ میں چلتی ہے"۔ دونوں بہت ہی کائیاں استعارے ہیں، بتاتے ہیں کہ جولیٹ انتہائی خوبصورت ہے اور کسی بھی دوسرے سے بہت زیادہ۔ "تمہاری شان و شوکت اس رات کی طرح ہے انتہائی اونچی، جیسے کوئی جنت کا پروں والا پیغامبر ہو"، یہ فرشتوں کی خوبیوں والی تشبیہ ہے مذکورہ عورت کی۔ یہ آجکل کے تبصرے سے زیادہ مختلف نہیں ہے جیسے: "ہاۓ حسینہ" "تم اس کمرے میں سب سے خوبصورت لڑکی ہو"۔ شكسپیر یہ بھی استعمال کرتا ہے مزید پیچیدہ استعارے ایک شرانگیز آدمی کے ارادوں کو بیان کرنے کے لیے۔ مثلاً، "یہ مقدس مزار، لطیف گناہ یہ ہے: میرے ہونٹ، دو ندامت زدہ زائر، اس سخت لمس کو نرم بنانے کے لیے تیار ایک نرم بوسہ سے"، بنیادی طور پر اسکا معنی ہے " میں تمہیں بوسہ دینا چاہتا ہوں"۔ مردوں کے اسطرح کے ارادے محدود نہیں تھے رخسار پر سادہ سے لمس تک۔ ایک ارادی ابہام استعمال کیا گیا ایک زبانی وسیلہ شادی کے لیے یا زیادہ گہرے رشتہ کے لیے۔ لہذا شکسپیسر کی تخلیقات کو پرانی، بیزار اور غیر معاون سمجھنے کے بجائے آج ہی سے پڑھنا شروع کریں اور بہترین طریقے پائیں اپنے محبوب کو راغب کرنے کے لئے کہ وہ واپس آپ کو محبت کرے۔