میں آپ سے مہاجرین کے عالمی بحران
کے بارے میں بات کروں گا
اور میرا مقصد آپ کو دکھانا ہے کہ یہ بحران
قابلِ حل ہے، نا قابلِ انتظام نہیں،
لیکن ساتھ میں آپ کو یہ بھی دکھانا کہ یہ
ہمارے بارے میں بھی ہے اور یہ کہ ہم کون ہیں
جیسا یہ اگلے محاذ پر موجود
مہاجرین کا امتحان ہے۔
میرے لیے یہ صرف ایک پیشہ ورانہ
ذمہ داری نہیں ہے،
کیونکہ میں دنیا بھر کے مہاجرین اور بے گھر
افراد کے لیے ایک این جی او چلاتا ہوں۔
یہ ذاتی مسئلہ ہے۔
مجھے یہ تصویر بہت پسند ہے۔
دائیں طرف والا خوبصورت آدمی،
میں نہیں ہوں۔
یہ میرے والد رالف ہیں، لندن میں، 1940 میں
اپنے والد سیموئیل کے ساتھ ۔
وہ بیلجیم سے آئے ہوئے یہودی مہاجرین ہیں۔
وہ نازیوں کے حملے کے دن ہی
فرار ہو گئے تھے۔
اور مجھے یہ تصویر بھی بہت پسند ہے۔
یہ مہاجرین کے بچوں کا ایک گروہ ہے
جو پولینڈ سے 1946 میں لندن پہنچے تھے۔
اور ان کے درمیان میں میری والدہ میرین ہیں۔
انہوں نے ایک نئی زندگی شروع کرنی تھی
ایک نئے ملک میں
اپنے بل بوتے پر
12 سال کی عمر میں۔
مجھے یہ پتہ ہے:
اگر برطانیہ مہاجرین کو نہ داخل ہونے دیتا
1940 کی دہائی میں،
میں یقیناً آج یہاں نہ ہوتا۔
لیکن 70 سال بعد،
وقت ایک بار پھر اسی جگہ آ کھڑا ہوا ہے۔
دیواروں کے بننے کی باتیں،
معاندانہ سیاسی بیان بازی،
جلتی ہوئی انسانی اقدار اور اصول
انہی ممالک میں جنہوں نے 70 سال پہلے
کہا تھا اب کبھی نہیں
بے وطن اور نا امید جنگ کے متاثرین سے۔
پچھلے سال، ہر ایک منٹ میں،
24 لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے
تنازعے، تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے:
شام میں ایک اور کیمیائی حملے کی وجہ سے،
افغانستان میں طالبان کی یلغار سے،
شمال مشرقی نائیجیریا میں لڑکیاں سکولوں سے
بے دخل ہوئیں بوکو حرام کی وجہ سے۔
یہ وہ لوگ نہیں جو کسی دوسرے ملک جا رہے ہیں
بہتر زندگی کی تلاش میں۔
وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
یہ ایک اصل سانحہ ہے
کہ دنیا کا سب سے مشہور مہاجر بذاتِ خود
آپ سے بات کرنے یہاں نہیں آ سکتا۔
آپ میں سے بہت سے اس تصویر کو جانتے ہیں۔
یہ ایک بے جان لڑکے کا جسم دکھا رہا ہے
پانچ سالہ ایلان کردی کا،
ایک شامی مہاجر جو 2015 میں
بحیرہ روم میں جاں بحق ہوا۔
یہ ان 3700 لوگوں کا حصہ ہے جو
یورپ آنے کی کوشش میں مارے گئے۔
اگلے سال 2016 میں،
5000 لوگ مارے گئے۔
اب ان کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے،
لیکن لاکھوں دوسرے لوگوں کے لیے
ابھی دیر نہیں ہوئی۔
ابھی فریڈریک جسیے لوگوں کے لیے
دیر نہیں ہوئی۔
میری اس سے تنزانیہ میں ناریگوس کی
مہاجر خیمہ بستی میں ملاقات ہوئی۔
اس کا تعلق برونڈی سے ہے۔
وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کہاں
اپنی تعلیم مکمل کر سکتا ہے۔
اس نے گیارہ سال کی پڑھائی مکمل کر لی ہے۔
وہ بارہواں سال چاہتا ہے۔
اس نے مجھے کہا، "میری دعا ہے کہ
میری زندگی یہیں ختم نہ ہو
اسی مہاجر کیمپ میں۔"
اور ابھی حلود کے لیے بھی دیر نہیں ہوئی۔
اس کے والدین فلیسطینی مہاجرین تھے
جو یرموک کی مہاجر خیمہ بستی میں رہتے تھے
دمشق کے باہر۔
وہ مہاجر والدین کے ہاں پیدا ہوئی،
اور اب وہ خود ایک مہاجر ہے لبنان میں۔
اب وہ بین الاقوامی بچاو کمیٹی کے لیے
کام کرتی ہیں دوسرے مہاجرین کی مدد کے لیے،