1879 میں، شوقیہ آثار قدیمہ کے ماہر مارشلس سانز ڈی سٹوولا اور اس کی چھوٹی بیٹی میریا نے شمالی سپین میں ایک تاریک غار ڈھونڈا۔ جب ماریا اکیلی اِدھر اُدھر پھر رہی تھی تو اس نے ایک حیرت انگیز دریافت کی۔ وہ قدیم مصوّری کے ایک مقام کے اندر کھڑے تھے، قبل از تاریخ کی تصاویر اور نقاشی کے ساتھ سجی ہوئی دیواریں اور چھتیں، 19,000 تا 35,000 سال تک قدیم۔ ہمارے آبا و اجداد کی اسی طرح کی نشانیاں پوری دنیا میں غاروں میں محفوظ ہیں۔ قدیم ترین جو ہمیں ملیں وہ 40,000 سال پہلے بنائی گئیں تھیں۔ یہ تصاویر ہمیں قدیم انسانی دماغ کے بارے میں کیا بتاتی ہیں اور ان کے تخلیق کاروں کی زندگی کے بارے میں؟ ان پہلے فنکاروں نے معدنیات، مٹی، کوئلے اور گیرو کو تھوک یا جانوروں کی چربی سے ملایا رنگ بنانے کے لیے۔ انہوں نے ہاتھوں اور اوزاروں کے ساتھ بنایا جیسے کائی کے پھاہوں، ٹہنیوں ہڈیوں اور بال۔ کئی صورتوں میں، ان کی تصاویر غار کی سمت کی پیروی کرتی ہیں گہرائی اور سایہ پیدا کرنے کے لئے۔ سب سے زیادہ عام ہندسی اشکال ہیں، اس کے بعد بڑے ممالیہ جیسے بائسن، گھوڑے، فیل پیکر، ہرن اور سؤر ہیں۔ انسانی شبیہ اور ہاتھ کا چھاپہ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ نظریات رکھتے ہیں کہ یہ تصاویر شکاریوں کی تخلیق ہیں، یا مقدس لوگوں کی روحانی کیفیات کے زیر اثر۔ اور ہمیں مردوں، عورتوں اور یہاں تک کہ بچوں کی طرف سے بنائی گئی مثالیں ملی ہیں۔ اور انہوں نے اس فن کو کیوں تخلیق کیا؟ شاید وہ اس کو محفوظ کر رہے تھے جو وہ قدرتی دنیا کے بارے میں جانتے تھے، جدید سائنسدانوں کی طرح، یا پھر وہ اپنے قبائلی علاقے کی حد بندی کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ تصاویر مقدس شکار کی رسموں کا اعلی ترین حصہ ہوں یا روحانی سفر کا۔ یا وہ فن برائے فن ہو سکتی ہیں، محض خوشی اور تکمیل کا احساس جو تخلیق سے ملتا ہے؟ جہاں تک قدیم دنیا کے بہت سے لاینحل رازوں کا سوال ہے، شاید ہم کبھی یقینی طور پر نہ جان پائیں، سوائے اس کے کہ ہم ایک وقت کے سفر کی مشین ایجاد کر لیں۔ لیکن اب تک جوابات پانا دشوار ہے، یہ تصاویر انسانی مواصلات کا ہمارا سب سے اولین ثبوت ہیں، تخلیقی صلاحیتوں کے لئے انسانی استعداد کی گواہی دے رہی ہیں لھکائی سے ہزاروں سال پہلے سے۔ وہ ایک مخصوص بصری زبان ہیں جو ذات سے باہر کی دنیا کا تصور کرتی ہیں، بالکل جدید فن کی اقسام کی طرح، لِکھاوٹ اور مصوری سے لے کر متحرک بصری حقیقیت والے غاروں تک۔