ہیلو، میں ہوں سوزن سونگ۔
میں ڈائریکٹر ہوں،بچوں، نوجوانوں کی ڈیویزن
کی، فیملی سائکیٹری کی
جورج واشنگٹن یونیورسی میں،
اور انسانی تحفظات کی ایڈوائزر ہوں
عالمی اور گھریلو سطح پرزبردستی دربدرہونے
والوں کی۔
حال ہی میں غیر معمولی اضافہ ہوا
ہے
عالمی سطح پر بے گھر لوگوں کی تعداد میں۔
جن میں شامل ہیں مہاجرین، پناہ گزیں، غیر
قانونی تارکین وطن
اور تنہا رہ جانے والے نابالغ۔
دنیا بھر میں 65 میلین سے زیادہ لوگ
جنگ، مسلح تنازع اور ظلم و ستم کی وجہ سے بے
گھر ہیں۔
2018 کی ابتدا میں،دنیا بھر سے تقریبا 31
ملین بچے
تنازعات اور ظلم و ستم کی وجہ سے دربدر
ہوۓ۔
اگر یہی رجحانات برقرار رہے تو،
مستقبل میں ہر سو میں سے ایک شخص پناگزیں
ہوگا۔
بدقسمتی سے، زیادہ تر پناہ گزیں اور دربدری
کے بعد بچ جانے والے لوگ
ضروری ذہنی علاج معالجہ نہیں لے سکیں گے،
خدمات کی بے ضابطگی، مستند معالجہ تک رسائی
میں دشواری
اور زہنی بیماری کے کلنک کی وجہ سے۔
پناہ گزیں وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک سے بھاگے
ہوۓ ہیں
ظلم و ستم کے شدید خوف کی وجہ
جو کہ مبنی ہیں نسل، مذہب، قومیت اور سیاسی
اسباب
یا کسی ایک مخصوص گروہ کی وجہ سے۔
جبکہ پناہ گزیں بیرون ملک تحفظ کی درخواست
کرتے ہیں
اور انھیں یو ایس میں داخلے کی اجازت مل
مل جاتی ہے
وہ لوگ جو پناہ کی تلاش میں ہیں وہ بھی ظلم
و ستم کے ستاۓ ہوۓ ہیں۔
لیکن یہ لوگ یو ایس میں رہتے ہوۓ تحفظ چاہتے
ہیں۔
پناہ گزیں اور مختلف تنازعات سے متاثرہ لوگ
ایک تحقیق کے مطابق 15 سے 30 فیصد متاثر
ہوتے ہیں
PTSD اور ڈیپریشن سے،
جبکہ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو پناہ گزیں
نہیں ہیں صرف 5۔ 3 فیصدPTSDسے متاثر ہیں۔
ناقص ذہنی حالت کی سب سے بڑی پہچان ہیں
تشدد اور تکیلف دہ واقعات کا ایک طویل سلسہ۔
لیکن تشدد، گھر سے دوری، دباؤ سے بھرپور
سیاسی پناہ لینے کا عمل
میزبان ملک میں تنہائی اور نقصانات
سب ذہنی صحت کو مزید خراب کرتے ہیں۔
مائیگریشن کے بعد کا ماحول، طویل حراست،
غیر محفوظ امیگریشن کی حیثیت
خدمات تک ناقص رسائی اور کام اور تعلیم پر
موجود پابندیاں،
ذہنی صجت کو مزید خراب کر سکتی
ہیں
یہ جذباتی مسائل پر مکمل روشنی نیں ڈالتے
جو کہ تنازعات سے منحرف شخص برداشت کرتا ہے
جس میں شامل ہیں غم، پیچیدہ صدمہ
مایوسی، تنہائی، غصہ اور اعتماد کی کمی۔
کئی لوگ بہت عام سا درعمل دیتے ہیں
کسی بہت غیر معمولی حالات کا۔
وقت کے ساتھ، بہت سے پناہ گزیں بہت کم یا
کوئي ردعمل نہیں دیپے۔
ایک بہت کم تعداد میں بحالی ہوتی نظر آتی ہے
اور ایک مخصوص تعداد ویسی ہی رہتی ہے۔
لہزا ہمیں اس فرق کرنے کی ضرورت ہے حالات کی
وحہ سے پیدا ہونے والے تناؤ میں
اور ایک واضع ذہنی عاوضہ میں پناہ گزینوں
میں
اس کے لیے ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں
ماضی کے تکلیف دہ حالات پر
روزمرہ میں ملنے والا دباؤ
اور بنیادی نفسیاتی نظام پر جس کا وہ حصہ
ہوتا ہے۔
ماہر نفسیات ایسے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں
جو کہ ثقافتی طور پہ طبی کام کے ماہر ہوں
مہاجرین اور پناہ اگزینوں کے ساتھ۔
پالیسی کی سطح پر پناہ کی تخشیص
اور وکالت کی سطح پر مساوات تک رسائی کو
فروغ دے کر
پناہ گزینوں اور زبردستی بے گھر لوگ کے لیے
پائیدار خدمات
اور بین الضابطہ برادری کے اراکین کے ساتھ
شراکت داری کر کے
جیسے کہ وکیل، معلمین اور پالیسی بنانے والے
ایک محفوظ نظام دے سکتے ہیں جس پر پناہ گزیں
اور جبری نقل مکانی کے بعد بچ جانے والے
بھروسہ کرسکیں۔