Return to Video

میرٹ کا جبر

  • 0:01 - 0:04
    ہم سب کو یہ ایک سوال پوچھنا چاہے۔
  • 0:04 - 0:05
    کیا غلط ہوا؟
  • 0:05 - 0:07
    نہ صرف وبا کے کے حوالے سے
  • 0:07 - 0:10
    بلکہ ہماری شہری زندگی کے حوالے سے بھی۔
  • 0:10 - 0:15
    کس چیز نے ہمیں اس نا اتفاقی،
    بغض بھرے سایسی لمحے تک پہنچا دیا؟
  • 0:15 - 0:17
    حالیہ دہائیوں میں،
  • 0:17 - 0:21
    جیتنے والوں اور ہارنے والوں میں تقسیم
    بڑھتی جا رہی ہے،
  • 0:21 - 0:23
    جو ہماری سیاست کو زہر آلود،
  • 0:23 - 0:25
    اور ہم میں تفریق پیدا کر رہی ہے۔
  • 0:25 - 0:29
    یہ تقسیم جزواً عدم مساوات سے متعلق ہے۔
  • 0:29 - 0:34
    مگر اِسکا تعلق ہارنے اور جیتنے کے
    رویوں سے بھی ہے
  • 0:34 - 0:36
    جوکہ اِس کے ساتھ آتے ہیں۔
  • 0:36 - 0:38
    جو لوگ سرِفہرست رہتے ہیں
  • 0:38 - 0:42
    وہ گمان کرتے ہیں کہ اُن کی کامیابی
    اُن کے اپنے کام کا نتیجہ ہے،
  • 0:42 - 0:45
    جو کہ ان کے میرٹ کی پیمائش ہے،
  • 0:45 - 0:49
    اور جو ہارتے ہیں سوائے اپنی ذات کے
    کسی کو الزام نہیں دیتے۔
  • 0:49 - 0:53
    کامیابی کے بارے میں سوچ کا یہ انداز
  • 0:53 - 0:56
    بظاہر پرکشش لگنے والے اصولوں سے
    اجاگر ہوتا ہے۔
  • 0:56 - 0:59
    اگر سب کے پاس برابر موقع ہے،
  • 0:59 - 1:03
    تو جیتنے والے فتح یاب ہونے کے مستحق ہیں۔
  • 1:03 - 1:08
    یہ میرٹ پرمبنی نظام کا مرکزی اصول ہے۔
  • 1:08 - 1:12
    عملی طور پر ہم یقیناً کافی پیچھے ہیں۔
  • 1:12 - 1:17
    ہر کسی کے پاس آگے بڑھنے کا
    ایک سا موقع نہیں ہوتا۔
  • 1:17 - 1:22
    غریب خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے
    اکثر بڑے ہونے پر بھی غریب ہی رہتے ہیں۔
  • 1:22 - 1:28
    امیر والدین اپنے وسائل اپنے بچوں تک
    منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
  • 1:28 - 1:32
    مثلاً آیوی لیگ یونیورسٹیوں میں،
  • 1:32 - 1:35
    ایک فیصد اوپری طبقہ سے منسلک
    طلباء کی تعداد زیادہ ہے
  • 1:35 - 1:41
    مجموعی طور پر ملکی نچلے طبقے کی
    آدھی تعداد سے۔
  • 1:41 - 1:46
    لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں کہ
    ہم پورا نہیں اترے
  • 1:46 - 1:49
    میرٹ پر مبنی نظام کے مشتہراصولوں پر۔
  • 1:49 - 1:52
    یہ اصول ہی عیب دار ہے۔
  • 1:52 - 1:55
    اس کا ایک تاریک پہلو ہے۔
  • 1:55 - 2:00
    میرٹ پر مبنی نظام اجتماعی بھلائی
    کے لئے تباہ کن ہے۔
  • 2:00 - 2:03
    یہ جیتنے والوں میں غرور
  • 2:03 - 2:09
    اور ہارنے والوں میں
    احساسِ شرمندگی پیدا کرتا ہے۔
  • 2:09 - 2:14
    یہ کامیاب لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے
    کہ وہ اپنی کامرانی کا گہرا دم بھریں،
  • 2:14 - 2:19
    تاکہ وہ قسمت اور خوش نصیبی کو بھلا دیں
    جس نے راستے میں ان کی مدد کی۔
  • 2:19 - 2:23
    اور اِس سے وہ خود سے کم خوش قسمت لوگوں کو
    حقیر سمجھتے ہیں،
  • 2:23 - 2:27
    اپنے سے کم تربیت یافتہ۔
  • 2:27 - 2:30
    یہ سیاست کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔
  • 2:30 - 2:35
    زیادہ تر آبادی کے ردِعمل کا ایک اہم سبب
  • 2:35 - 2:41
    یہ احساس ہے کہ بہت سارے کام کرنے والوں میں
    اشرافیہ انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔
  • 2:41 - 2:45
    یہ ایک جائز شکایت ہے۔
  • 2:45 - 2:50
    حتہ کہ جب عالمگیریت اپنے ساتھ
    شدید عدم مساوات لائی
  • 2:50 - 2:53
    اور جامد اجرت،
  • 2:53 - 2:58
    اس کے حمایتیوں نے کام کرنے والوں کو
    تقویت بخش تلقین کی۔
  • 2:58 - 3:02
    "اگر آپ عالمی معیشت میں مقابلہ کرنا اور
    جیتنا چاہتے ہیں،
  • 3:02 - 3:04
    تو کالج جائیں۔"
  • 3:04 - 3:07
    "آپ کی کمائی کا انحصار اس پر ہوتا ہے
    جو آپ سیکھتے ہیں۔"
  • 3:07 - 3:10
    "آپ کوشش کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔"
  • 3:10 - 3:17
    اشرافیہ اس تلقین میں پوشیدہ توہین کا
    خیال نہیں کرتے۔
  • 3:17 - 3:19
    اگر آپ کالج نہیں جاتے ہیں،
  • 3:19 - 3:23
    اگر آپ نئی معیشت میں نہیں پنپتے ہیں،
  • 3:23 - 3:25
    تو یہ ناکامی آپ کی اپنی کوتاہی ہے۔
  • 3:25 - 3:28
    یہی اسکا مفہوم ہے۔
  • 3:28 - 3:34
    اس میں تعجب نہیں کہ کئ محنت کش، میرٹ کے
    نظام کے قائل اشرافیہ کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
  • 3:34 - 3:37
    تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
  • 3:37 - 3:41
    ہمیں اپنی شہری زندگی کے تین پہلؤں پر
    دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
  • 3:41 - 3:43
    کالج کا کردار،
  • 3:43 - 3:44
    کام کی عظمت
  • 3:44 - 3:47
    اور کامیابی کے معنی۔
  • 3:47 - 3:51
    ہمیں یونیورسٹیوں کے کردار کا دوبارہ سے
    تعین کرنے سے شروع کرنا ہو گا
  • 3:51 - 3:55
    مواقع پیدا کرنے والے ثالث کی حثیت میں۔
  • 3:55 - 4:00
    ہم میں سے وہ لوگ جن کے دن اعلیٰ اسناد
    رکھنے والے لوگوں کی صحبت میں گزرتے ہیں،
  • 4:00 - 4:05
    ان کے لئے ایک سادہ حقیقت کو فراموش کرنا
    آسان ہوتا ہے
  • 4:05 - 4:09
    بہت سے لوگ چار سالہ کالج کی سند
    نہیں رکھتے ہیں۔
  • 4:09 - 4:13
    حقیقت میں دو تہائی امریکی باشندے اسناد
    نہیں رکھتے۔
  • 4:13 - 4:18
    تو ایسی معیشت کی تخلیق ایک حماقت ہے
  • 4:18 - 4:23
    جو یونیورسٹی کی سند کو ضروری شرط بناتی ہے
  • 4:23 - 4:27
    باوقار کام اور مہذب زندگی کی ۔
  • 4:27 - 4:31
    لوگوں کو کالج جانے کے لئے بڑھاوا دینا
    ایک اچھی بات ہے۔
  • 4:31 - 4:34
    جو اِس کی استطاعت نہیں رکھتے اُن کے لئے
    قابلِ رسائی بنانا
  • 4:34 - 4:36
    اس سے بھی بہتر ہے۔
  • 4:36 - 4:39
    لیکن یہ عدم مساوات کا کوئی حل نہیں ہے۔
  • 4:39 - 4:44
    ہمیں لوگوں کو میرٹ کے نظام کے مقابلے
    کےلئے مسلح کرنے پر کم اور
  • 4:44 - 4:48
    ذندگی کو بہتر بنانے پر زیادہ
    توجہ دینی چاہیے
  • 4:48 - 4:51
    ان لوگوں کے لئے جو کوئی سند نہیں رکھتے
  • 4:51 - 4:55
    لیکن ہمارے معاشرے میں اہم کردار
    ادا کرتے ہیں۔
  • 4:55 - 4:58
    ہمیں کام کی عظمت کی تجدید کرنی چاہے
  • 4:58 - 5:01
    اور اسے اپنی سیاست میں مرکزی جگہ
    دینی چاہے۔
  • 5:01 - 5:06
    ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کام صرف
    روزی کمانے کے لئے نہیں ہوتا،
  • 5:06 - 5:10
    بلکہ اس کا مقصد اجتماعی بھلائی
    میں حصہ ڈالنا بھی ہوتا ہے
  • 5:10 - 5:13
    اور ایسا کرنے پر شناخت حاصل کرنا ہے۔
  • 5:13 - 5:17
    رابرٹ ایف کینیڈی نے نصف صدی پہلے
    یہ بات بخوبی بیان کی-
  • 5:17 - 5:21
    رفاقت، برادری، مشترکہ حب الوطنی۔
  • 5:21 - 5:25
    یہ اہم اقدار نہیں آتیں
  • 5:25 - 5:28
    محض اکھٹے چیزیں خریدنے اور صَرف کرنے سے۔
  • 5:28 - 5:31
    یہ باوقار ملازمت سے آتیں ہیں،
  • 5:31 - 5:33
    جس کی مناسب تنخواہ ہو۔
  • 5:33 - 5:37
    اس قسم کی ملازمت جو یہ ہمیں کہنے کے
    قابل بناتی ہے کہ،
  • 5:37 - 5:40
    "میں نے اِس ملک کی تعمیر میں معاونت کی۔
  • 5:40 - 5:44
    میں اس کے عظیم عوامی منصوبوں
    میں شریک ہوں۔"
  • 5:44 - 5:48
    یہ شہری جذبہ،
  • 5:48 - 5:52
    آج ہماری عوامی زندگی سے
    بڑے پیمانے پر غائب ہے۔
  • 5:52 - 5:57
    ہم اکثر یہ فرض کرتے ہیں کہ لوگ
    جو پیسا کماتے ہیں
  • 5:57 - 6:00
    وہ مشترکہ بھلائی میں ان کے
    حصےکی پیمائش ہے۔
  • 6:00 - 6:03
    مگر یہ ایک غلطی ہے۔
  • 6:03 - 6:07
    مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے
    اِس کی وجہ بیان کی۔
  • 6:07 - 6:11
    صفائی کرنے والوں کے احتجاج پر
    غور کرتے ہوئے
  • 6:11 - 6:13
    ٹینیسی کے شہر میمفس میں،
  • 6:13 - 6:16
    قتل ہونے سے کچھ عرصہ پہلے۔
  • 6:16 - 6:18
    کنگ نے کہا،
  • 6:18 - 6:23
    "جو شخص ہمارا کوڑا اٹھاتا ہے وہ
    حتمی تجزیے میں،
  • 6:23 - 6:27
    اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ طبیب،
  • 6:27 - 6:29
    کیونکہ اگر وہ اپنا کام نہ کرے تو،
  • 6:29 - 6:32
    بیماریاں بے قابو ہو جاتی ہیں-
  • 6:32 - 6:36
    ہر مشقت قابلِ عزت ہے۔"
  • 6:36 - 6:39
    آج کی وبا یہ واضح کرتی ہے۔
  • 6:39 - 6:42
    یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم
    بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں
  • 6:42 - 6:46
    ان کارکنوں پر جنہیں ہم اکثر
    نظرانداز کرتے ہے۔
  • 6:46 - 6:47
    ترسیل کرنے والے،
  • 6:47 - 6:49
    دیکھ بھال کرنے والے،
  • 6:49 - 6:51
    کریانے کی دکان میں کام کرنے والے،
  • 6:51 - 6:53
    گودام میں کام کرنے والے،
  • 6:53 - 6:54
    ٹرک چلانے والے،
  • 6:54 - 6:56
    نرس معاونین،
  • 6:56 - 6:57
    بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے،
  • 6:57 - 7:00
    گھر میں صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے۔
  • 7:00 - 7:05
    انہیں نہ تو اچھی تنخواہ ملتی ہے اور
    نہ ہی بہت قابلِ عزت سمجھا جاتا ہے۔
  • 7:05 - 7:10
    لیکن اب ہم انہیں ضروری کارکنان
    کے طور ہر دیکھتے ہیں۔
  • 7:10 - 7:14
    یہ عوامی سطح پر بحث کرنے کا موقع ہے
  • 7:14 - 7:18
    کہ کیسے ان کی پہچان اور اجرت کو
  • 7:18 - 7:22
    ان کے کام کی اہمیت کے مطابق
    بہتر توازن میں لایا جائے۔
  • 7:22 - 7:29
    یہ وقت اخلاقی یہاں تک کہ
    روحانی تبدیلی کا بھی ہے
  • 7:29 - 7:34
    میرٹ پر مبنی نظام کے پیدا کردہ
    غرور پر سوال اٹھانے کا۔
  • 7:34 - 7:38
    کیا میں اخلاقی طور پر ان صلاحیتوں کا
    مستحق ہوں جو مجھے آگے لے جاتی ہیں؟
  • 7:38 - 7:40
    کیا یہ میں نے خود کیا ہے
  • 7:40 - 7:44
    کہ میں ایسے معاشرے میں رہتا ہوں
    جو ان صلاحیتوں کو قیمتی سمجھتا ہے
  • 7:44 - 7:46
    جو مجھ میں موجود ہیں؟
  • 7:46 - 7:49
    یا یہ میری خوش قسمتی ہے؟
  • 7:49 - 7:53
    اس پر اصرار کہ میری کامیابی میرا حق ہے
  • 7:53 - 7:58
    مجھے خود کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر
    دیکھنے کو مشکل بناتا ہے۔
  • 7:58 - 8:01
    ذندگی میں قسمت کے کردار کو سراہنا
  • 8:01 - 8:04
    ایک خاص عاجزی کو بڑھا سکتا ہے۔
  • 8:04 - 8:08
    لیکن یہاں پر صرف حادثہؑ پیدائش،
    خدا کی عنایت،
  • 8:08 - 8:10
    یا قسمت کے اسرار،
  • 8:10 - 8:12
    مجھے آگے لے جاتے ہیں۔
  • 8:12 - 8:15
    یہی عاجزی کا جذبہ
  • 8:15 - 8:18
    وہ شہری خوبی ہے جو ہمیں اب درکار ہے۔
  • 8:18 - 8:21
    یہ پیچھے ہٹنے کا آغاز ہے
  • 8:21 - 8:25
    کامیابی کے ان سخت اصولوں سے
    جو ہم میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔
  • 8:25 - 8:30
    یہ میرٹ کے نظام کے جبر و استبداد سے دور
  • 8:30 - 8:34
    ایک کم تلخ اور بیش ترخوشحالی والی
    شہری ذندگی کی جانب لے جاتی ہے۔
Title:
میرٹ کا جبر
Speaker:
مائیکل سینڈل
Description:

ہماری عوامی ذندگی میں تقسیم کا باعث کیا بنا، اور ہم کیسے اِسے مندمل کرنا شروع کر سکتے ہیں؟ سیاسی فلسفی مائیکل سینڈل ایک حیران کن جواب دیتے ہیں: وہ جو ترقی یافتہ ہیں انہیں آئینہ دیکھنا چاہیے۔ وہ تفصیلی جائزہ لیتے ہیں کہ کیسے "میرٹ کا غرور" بہت سے لوگوں کو اس یقین کی جانب مائل کرتا ہے کہ ان کی کامیابی ان کے اپنے کام کا نتیجہ ہے اور انہیں حقیر سمجھتے ہیں جو کامیاب نہیں ہوتے، یہ رنجیدگی پیدا کرتا ہے اور نئی معیشت میں فاتحین اور مفتوحین میں تقسیم کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں کیوں کامیابی کے مطلب پر دوبارہ غور کرنے اور قسمت کے کردار کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک کم تلخ اور زیادہ مہربان شہری زندگی بنائی جا سکے۔

more » « less
Video Language:
English
Team:
closed TED
Project:
TEDTalks
Duration:
08:47
Umar Anjum approved Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum accepted Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Umar Anjum edited Urdu subtitles for The tyranny of merit
Show all

Urdu subtitles

Revisions