دنیا بھر میں 1.5 ارب لوگ مسلح جنگ کی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ اسکے جواب میں لوگ اپنا ملک چھوڑنے پرمجبور ہو جاتے ہیں، اس کا نتیجہ ڈیڑھ کروڑ مہاجرین ہیں۔ بچے، بلا شبہ، سب سے معصوم اورغیر محفوظ شکار ہیں ... لیکن صرف ظاہری مادی خطرات کا نہیں، بلکہ اکثر ان جنگی اثرات کا بھی خاندان جن کا سامنا کرتے ہیں مگر اس پر بات نہیں ہوتی۔ جنگ کا سامنا کرنے سے بچے شدید خطرات کا شکار بن سکتے ہیں جذبات اور رویوں کی بڑھوتری کے حوالے سے۔ بچے، جیسے ہم صرف تصور کر سکتے ہیں، پریشان ہوں گے، خوفزدہ اور خطرے میں محسوس کریں گے۔ لیکن اچھی خبر بھی ہے۔ اپنے خاندان میں بچے جو معیاری نگہداشت پاتے ہیں اس کا ان کی بہتری پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے بہ نسبت جنگ کے ان اثرات سے جن کا سامنا ان کو کرنا پڑتا ہے۔ تو دراصل بچوں کو بچایا جا سکتا ہے محفوظ اور پر جوش تربیت سے، جنگ کے دوران اور بعد میں۔ 2011 میں، میں پی۔ایچ۔ڈی کی پہلے سال کی طالبہ تھی مانچسٹر یونیورسٹی کے شعبہ نفسیاتی علوم میں۔ یہاں موجود بہت لوگوں کی طرح، میں نے شام کے بحران کو ٹی۔وی پر ظاہر ہوتے ہوئے دیکھا۔ بنیادی طور پر میرا خاندان شام سے ہے، اور شروع میں ہی، میرے خاندان کے کئی افراد ہولناک طریقوں سے اپنی جانیں ہار گئے۔ میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر ٹی وی دیکھتی۔ ہم سب نے وہ مناظر دیکھے ہیں: بم عمارتوں کو تباہ کرتے ہوئے، افراتفری، بربادی اورچیختے ہوئے اور بھاگتے ہوئے لوگ۔ چیختے ہوئے اور بھاگتے ہوئے لوگوں نے مجھ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ خاص طور پر خوفزدہ بچوں نے۔ میں دو چھوٹے متجسس بچوں کی ماں تھی۔ وہ تب پانچ اور چھ سال کے تھے، عمر کے اس حصے میں جب وہ بہت زیادہ سوال کرتے ہیں، اور سچا اور قابل یقین جواب چاہتے ہیں۔ تو میں نے سوچنا شروع کیا کہ کیسا ہو گا اپنے بچوں کی پرورش کرنا جنگ زدہ علاقے اور مہاجر کیمپ میں۔ میرے بچے تبدیل ہو جائیں گے؟ میری بیٹی کی خوش اور روشن آنکھیں اپنی چمک کھو دیں گی؟ میرے بیٹے کی پرسکون اور بے فکر طبیعت دہشت زدہ اور سہمی ہوئی بن جائے گی؟ میں کیسے سامنا کروں گی؟ کیا میں بدل جاوں گی؟ بطور ماہر نفسیات اورپرورش کے ماہر، ہم جانتے ہیں کہ والدین کو بچوں کی تربیت کے حوالے سے ماہر بنانا ان کی بہبود پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے، اور ہم اس کو والدین کی تربیت کہتے ہیں۔ میرا سوال تھا کہ: کیا والدین کی تربیت کے پروگرام ان خاندانوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں جو جنگ زدہ علاقوں یا مہاجر کیمپوں میں ہیں؟ کیا ہم ان کومشورے یا تربیت دے سکتے ہیں جو ان مشکلات میں ان کی مدد کر سکیں؟ تو میں اپنی پی۔ایچ۔ڈی کی نگران کے پاس گئی، پروفیسر ریچل کیلم، اس خیال سے کہ میں اپنی تعلیمی صلاحیتوں سے عملی دنیا میں کوئی تبدیلی لا سکوں۔ مجھے خود پتا نہیں تھا کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے بہت توجہ اور تحمل سے بات سنی، اور میں بہت خوش ہوئی جب انہوں نے کہا، "اگر اس کی تمہارے نزدیک بہت اہمیت ہے اور تم یہی کرنا چاہتی ہو تو چلو یہ کرتے ہیں۔ ایسے طریقے ڈھونڈتے ہیں کہ پتہ چلے کہ والدین کی تربیت کے پروگرام ان حالات میں خاندانوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔" تو پچھلے پانچ سالوں سے میں اور میرے رفیق پروفیسر کیلم اور ڈاکٹر کم کارٹرائٹ -- خاندانوں کو مدد دینے کے طریقوں پر کام کر رہے ہیں جو جنگ اورنقل مکانی بھگت چکے ہوں۔ تو اب یہ جاننا کہ خاندانوں کی مدد کیسے کریں جو جنگ دیکھ چکے ہیں ان کے بچوں کی مدد کریں، پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ان سے پوچھیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں؟ ٹھیک ہے؟ میرا مطلب ہے، یہ ظاہری بات ہے۔ لیکن اکثر جو خطرے کی زد میں ہوں، جن کی مدد کی ہم کوشش کریں، ہم ان سے اکثر نہیں پوچھتے۔ ہم اکثر یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ ٹھیک ٹھیک پتہ ہے جو ان کے لئے یا کسی چیز کے لئے فائدہ مند ہو گا، ان سے پوچھے بغیر ہی؟ تو میں شام اور ترکی کے مہاجرین کیمپوں میں گئی، اور خاندانوں کے ساتھ بات چیت کی۔ میں نے ان کے پرورش کے مسائل کو سنا، میں نے ان کی پرورش کی مشکلات کو سنا اور میں نے ان کی مدد کی آواز کو سنا۔ اور کئی دفعہ یہ سب کچھ رک سا گیا، کیونکہ میں صرف ان کے ساتھ کھڑی رہ سکتی تھی اور ان کے ساتھ آنسو بہا سکتی تھی اور دعا کر سکتی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنی مشکلات بتائیں، انہوں نے مجھے مہاجر کیمپوں میں اپنے کٹھن اور دشوار معمولات کے بارے میں بتایا جس کی وجہ سے ان کی توجہ صرف روزمرہ کے معمولات پر ہوتی تھی جیسے صاف پانی کا حصول۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی پس پائی دیکھی؛ اداسی، دباو، غصے کی طرف، بستر پر پیشاب کرنے، انگوٹھا چوسنے، بلند آوازوں سے ڈرنے کی طرف، ڈراونے خوابوں کی طرف -- ہولناک ڈراونے خوابوں کی طرف۔ ان خاندانوں نے اس سب کا سامنا کیا ہے جو ہم ٹی۔وی پر دیکھتے رہے ہیں۔ مائیں -- تقربیاٌ ان میں سے آدھی جنگ کی وجہ سے بیوہ ہوئیں، یا بے خبر تھیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں یا مارے گئے -- انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی کتنی مشکل تھی۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بدلتے دیکھا لیکن ناواقف تھیں کہ انکی مدد کیسے کریں۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ بچوں کے سوالات کا کیسے جواب دیں۔ جو حیران کن اور نہایت ترغیب دینے والی بات معلوم ہوئی کہ یہ خاندان اپنے بچوں کی مدد کے لیے بہت پرجوش تھے۔ ان تمام مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود، وہ اپنے بچوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے تھے، مہاجر کیمپ کے استادوں سے، تربیت یافتہ طبی ماہرین سے، دوسرے والدین سے۔ میں ایک ماں سے ملی جو کیمپ میں صرف چار دن سے تھی، اور وہ پہلے ہی دو مرتبہ کوشش کر چکی تھی اپنی آٹھ سالہ بچی کی مدد کے لیے جس کو ڈراونے خواب آتے تھے۔ لیکن افسوس کی بات، یہ کوششیں تقریباً ہمیشہ بے سود رہیں۔ مہاجر کیمپ کے ڈاکٹر، جب آتے تھے، بہت مصروف ہوتے تھے، یا ان کے پاس وقت نہیں تھا یا پرورش کے بارے میں بنیادی معلومات نہیں ہوتی تھیں۔ مہاجر کیمپ کے اساتذہ اور دوسرے والدین کا بھی یہی حال تھا -- وہ بھی اسی نئے مہاجر طبقے کا حصہ تھے جو زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما تھا۔ تو پھر ہم سوچنے لگے۔ ہم ان خاندانوں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ ان کے مسائل ان کی استطاعت سے بڑھ کر تھے۔ شام کے بحران نے یہ واضح کر دیا ناقابل یقین حد تک کتنا نا ممکن ہو گا انفرادی طور پر خاندانوں کی مدد کرنا۔ ہم اور کیسے ان کی مدد کر سکتے تھے؟ ہم عام خاندانوں تک کیسے پہنچیں گے کم خرچ میں اس خوفناک اور ڈراونے وقت میں؟ غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں سے طویل گفتگو کے بعد، کسی نے ایک اچھوتا خیال پیش کیا پرورش کے متعلق کتابچہ روٹی کے لفافوں کے ذریعے تقسیم کرنے کا -- روٹی کے لفافے جو شام کے جنگ زدہ علاقوں میں خاندانوں میں تقسیم کیے جاتے تھے انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے ذریعے۔ پھر ہم نے یہی کیا۔ روٹی کے لفافوں کی شکل و صورت بالکل تبدیل نہیں ہوئی، بس ان میں کاغذ کے دو ٹکڑوں کا اضافہ کیا گیا۔ ایک پر پرورش سے متعلق بینادی معلومات اور ہدایات تھیں جو بتاتا تھا کہ جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے ان حالات میں معمول کی بات ہے، اور وہ بھی جو ان کے بچے محسوس کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں معلومات کہ وہ کیسے اپنی اور اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں، جیسے کہ اپنے بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بات چیت کرنا، اس کے ساتھ غیر معمولی شفقت سے پیش آنا، اس کے ساتھ زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنا، اس کے ساتھ گپ شپ لگانا۔ کاغذ کا دوسرا ٹکڑا سوالنامہ برائے تجاویز تھا، اوریقیناً اس میں ایک پین بھی تھا۔ تو کیا یہ صرف کتابچوں کی تقسیم تک ہے، یا پھر یہ واقعی نفسیاتی مدد فراہم کرنے کا ابتدائی ذریعہ ہے جو محفوظ، پر جوش اور محبت بھری پرورش فراہم کرتی ہے؟ ہم صرف ایک ہفتے میں 3000 کتابچے تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جو چیز حیران کن تھی وہ 60% جوابی رابطہ تھا۔ ان 3000 خاندانوں میں سے %60 نے جواب دیے۔ میں نہیں جانتی کہ آج یہاں کتنے محققین موجود ہیں، لیکن اس قسم کی جوابی شرح متاثر کن ہے۔ مانچسٹر میں بھی یہ ملنا بڑی کامیابی ہو گی، نہ کہ شام کے جنگ زدہ علاقے میں -- یہ اس بات کی اہمیت اجاگر کرتا ہے کہ اس قسم کے پیغامات خاندانوں کے لیے کتنے اہم تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم کتنے مشتاق اور پرجوش تھے ان سوالناموں کے واپس آنے کے لیے۔ خاندانوں نے سینکڑوں پیغامات بھیجے تھے -- حیران کن طور پر مثبت اور حوصلہ افزا۔ لیکن میرا پسندیدہ یہ ہے، "ہمیں اور ہمارے بچوں کو نہ بھولنے کا شکریہ ۔ " یہ دکھاتا ہے پوشیدہ امکانات خاندانوں کو ابتدائی نفسیاتی امداد پہنچانے کے، اور جوابی رابطہ کے بھی۔ ذرا سوچیے اسی عمل کو دوسرے ذرائع سے دہرانا جیسے بچوں کے دودھ کی تقسیم کے ذریعے سے یا نسوانی حفظان صحت کے سامان کے ساتھ، یا پھر خوراک کی ٹوکریوں کے ذریعے۔ چلیں معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں، کیونکہ مہاجرین کا بحران ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔ ہم سب ان گنت تصاویر اور اعداد و شمار دیکھتے ہیں، اور یہ حیران کن نہیں ہے۔ کیونکہ پچھلے مہینے تک، 10 لاکھ مہاجرین یورپ پہنچ چکے تھے۔ 10 لاکھ۔ مہاجرین ہمارے معاشروں میں شامل ہو رہے ہیں، وہ ہمارے ہمسائے بن رہے ہیں، ان کے بچے ہمارے بچوں کے سکولوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ چناچہ ہم نے ایسے کتابچے بنائے جو یورپی مہاجرین کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں، اور وہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، سب کے لیے، ان علاقوں میں بھی جہاں مہاجرین کی آمد زیادہ ہے۔ مثال کے طور ہر سویڈن کے محکمہ صحت نے اسے اپنی ویب سائٹ پر رکھا ہے۔ اور پہلے 45 منٹ کے اندر، اسے 343 بار ڈاون لوڈ کیا گیا -- یہ اس کی اہمیت اجاگر کرتا ہے رضاکاروں، پیشہ وروں اور دوسرے والدین کے لیے ابتدائی نفسیاتی امداد کے پیغامات تک سب کی رسائی کا ہونا۔ 2013 میں، میں مہاجر کیمپ کے ایک خیمے کے ٹھنڈے، سخت فرش پر بیٹھی تھی ماوں کے حلقہ میں، سوالات جوابات کی محفل سجائے۔ میرے سامنے ایک بوڑھی خاتون تھیں ان کے ساتھ ایک لڑکی لیٹی تھی جسکی عمر لگ بھگ 13 سال ہو گی، اس کا سر ان خاتون کے گھٹنے پر تھا۔ وہ لڑکی اس پوری محفل کے دوران خاموش رہی، بالکل بھی نہیں بولی، اپنے گھٹنے سینے کے ساتھ سمیٹے ہوئے۔ سوالات جوابات کی محفل کے آخر میں، جب میں ماوں کا وقت نکالنے کے لیے شکریہ ادا کر رہی تھی، اس بزرگ خاتون نے اس لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میری طرف دیکھا، اور کہا، "کیا آپ ہماری مدد کر سکتی ہیں؟" ٹھیک معلوم نہیں وہ میرے سے کیا چاہتی تھیں، میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اور مسکرائی، اور عربی میں کہا، "اسلام علیکم، شو اسمک؟" "تمہارا نام کیا ہے؟" اس نے الجھی ہوئی نظروں اور بیزاری سے مجھے دیکھا، لیکن کہا، "حلول"۔ حلول عربی میں زنانہ نام حالہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، اور صرف چھوٹی لڑکیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ شاید حالہ 13 سال سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ پتہ چلا کہ حالہ 25 سال کی تھی اور تین چھوٹے بچوں کی ماں تھی۔ حالہ ایک چلبلی، پر اعتماد، ذہین، اور پیار کرنے والی ماں تھی اپنے بچوں کے لیے، لیکن جنگ نے یہ سب بدل دیا۔ اس نے بموں کو اپنے قصبے پر گرتے دیکھا؛ وہ دھماکوں میں زندگی گزارتی رہی۔ جب لڑاکا طیارے اس کی رہائشی عمارت کے گرد پرواز کر تے تھے بم گراتے تھے، اس کے بچے ان آوازوں سے ڈر کر چیخیں مارتے تھے۔ حالہ وحشت کے عالم میں تکیے اٹھا کر ان کے کان بند کرتی تھی تاکہ آوازیں رک سکیں، حالانکہ وہ خود چیخ رہی ہوتی تھی۔ جب وہ مہاجر کیمپ پہنچے اور اس کو احساس ہوا کہ وہ کسی حد تک محفوظ ہیں، وہ مکمل طور پر تبدیل ہو گئی اور اپنے ماضی میں، بچپن میں کھو سی گئی۔ اس نے اپنے خاندان کو ٹھکرا دیا -- اپنے بچوں کو، اپنے شوھر کو۔ حالہ مزید مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ بچوں کی پرورش کی جدوجہد تھی جس کا انجام بہت تلخ ہے، لیکن افسوس، یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔ جو مسلح لڑائی اورہجرت سہتے ہیں وہ شدید جذباتی کشمکش سے گزرتے ہیں۔ اور ہم سب اس سے آشنا ہیں۔ اگر آپ کی زندگی میں کبھی ایسا تباہ کن وقت آیا ہے، اگر آپ نے کبھی کوئی عزیز شخص یا شے کھوئی ہے، آپ کیسے جدوجہد جاری رکھتے ہیں؟ کیا آپ تب بھی اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھ سکتے ہیں؟ یہ مانتے ہوئے کہ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال اہم ہیں اس کی ذہنی اور جسمانی نشونما کے لیے، اور یہ کہ 1.5 ارب لوگ مسلح جنگ کی آزمائش سے گزر رہے ہیں -- ان میں سے بہت سے ہمارے معاشروں کا حصہ بن رہے ہیں -- ہم منہ نہیں پھیر سکتے ان کی ضروریات سے جو جنگ اور ہجرت سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ان خاندانوں کی ضروریات کو سرفہرست رکھنا ہو گا -- جو اندرون ملک یا دنیا بھر میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان ضروریات کو اہمیت دینی ہو گی این۔جی۔اوز کے کارکنوں، پالیسی بنانے والوں کی جانب سے ڈبلیو۔ایچ۔او، یو۔این۔ایچ،سی،آر اور ہم سب کی طرف سے ہمارا معاشرے میں چاہے جو بھی کردار ہو۔ جب ہم تنازعے کی انفرادی صورتوں کو پہچاننا شروع کر دیں گے، جب ہم ان کی شکلوں پر پائے جانے والے پیچیدہ جذبات کو سمجھنے لگیں گے، تب ہم ان کو بھی انسان سمجھنے لگیں گے۔ تب ہم ان خاندانوں کی ضروریات کا خیال کریں گے، اور یہ حقیقی انسانی ضروریات ہیں۔ جب خاندانی ضروریات کی ترجیح طے ہوتی ہے، بچوں کے لئے مداخلت کرنا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بنیادی طور پر اس کو ترجیح ملے گی خاندان کے کردار کو بچوں کو مدد دینے میں۔ خاندان کی ذہنی صحت اولین ترجیح ہو گی عالمی اور بین الاقوامی ترجیحات میں۔ اور بچوں کو سماجی خدمت کے اداروں میں بھیجنے کا امکان کم ہو گا ان کے نو آباد ممالک میں کیونکہ ان کے خاندانوں کو پہلے ہی مدد مل چکی ہو گی۔ اور ہم زیادہ وسیع النظر ہوں گے، زیادہ پرجوش اور زیادہ روادار اور زیادہ اعتماد کریں گے ان پر جو ہمارے معاشروں میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہمیں جنگوں کو روکنا ہے۔ ہمیں ایسی دنیا بنانی ہے جہاں بچے ایسے خواب دیکھ سکیں کہ طیارے کھلونے گراتے ہیں، بم نہیں۔ جب تک ہم مسلح جنگوں کو دنیا میں انتشار پھیلانے سے نہیں روکیں گے، خاندان ہجرت کرتے رہیں گے، بچے خطروں سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ لیکن پرورش اور دیکھ بھال میں مدد کے نظام کو بہتر کرنے سے، شاید یہ ممکن ہو کہ جنگوں اور اس سے جڑی نفسیاتی مشکلوں کو کم کیا جا سکے بچوں اور ان کے خاندانوں میں۔ شکریہ۔ (تالیاں)