0:00:06.795,0:00:08.055 تجسس: 0:00:08.055,0:00:09.863 ایک نعمت ہے یا زحمت؟ 0:00:09.863,0:00:11.603 اس خاصیت کا فطری تناقُض 0:00:11.603,0:00:13.553 قدیم اہل یونان کے لئے مجسم ہوا 0:00:13.553,0:00:15.913 دیومالائی کردار پنڈورا میں۔ 0:00:15.913,0:00:17.033 روایت کے مطابق، 0:00:17.033,0:00:18.743 وہ پہلی فانی عورت تھی، 0:00:18.743,0:00:23.413 جس کے حد سے زیادہ تجسس نے زمین پر دل دہلا[br]دینے والے واقعات کے ایک سلسلے کو جنم دیا۔ 0:00:23.413,0:00:27.076 پنڈورا کو اگنی دیوتا حیفیسٹس نے تخلیق کیا، 0:00:27.076,0:00:31.266 جس نے اپنے آسمانی ساتھیوں کو اِسے[br]غیر معمولی بنانے کیلیے اپنے ساتھ شامل کیا۔ 0:00:31.266,0:00:34.626 ایفرڈائیٹی سے اسے شدتِ جذبات کا تحفہ ملا، 0:00:34.626,0:00:37.386 حرمیس نے اسے زبانوں پر مہارت بخشی۔ 0:00:37.386,0:00:41.826 اتھینا نے اسے عمدہ کاریگری اور تفصیلات پر[br]توجہ دینے کا تحفہ بخشا، 0:00:41.826,0:00:44.506 اور حرمیس نے اس کا نام رکھا۔ 0:00:44.506,0:00:48.006 آخر میں زیوس نے پنڈورا کو دو تحفے بخشے۔ 0:00:48.006,0:00:50.376 بہلا متجسس رہنے کی خاصیت، 0:00:50.376,0:00:54.546 جو کہ اس کے دل و جاں میں سما گئی اور[br]اسے شوق سے دنیا میں روانہ کر دیا۔ 0:00:54.546,0:00:58.926 دوسرا تحفہ ایک بھاری بھرکم صندوق تھا، مرصع[br]طور پر خمیدہ، بہت وزنی – 0:00:58.926,0:01:00.792 اور مضبوطی سے بند کیا گیا تھا۔ 0:01:00.792,0:01:04.802 لیکن، زیوس نے اسے بتایا کہ اس میں موجود [br]سامان، فانی آنکھ کے دیکھنے کیلیے نہیں ہے۔ 0:01:04.802,0:01:08.592 خواہ کچھ بھی ہو، اسے کسی بھی حالت میں[br]صندوق کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ 0:01:08.592,0:01:13.313 زمین پر، پنڈورا ایفیمیتھیس سے ملی اور اس[br]کی محبت میں گرفتار ہو گئی، ایک ذہین ٹائٹن 0:01:13.313,0:01:17.093 جسے زیوس نے طبعی دنیا کی ترتیب[br]کا کام سونپا تھا۔ 0:01:17.093,0:01:19.763 وہ اپنے بھائی پرومیتھییس کے ساتھ مل کر [br]کام کر رہا تھا، 0:01:19.763,0:01:21.503 جو کہ پہلے انسانوں کا خالق تھا 0:01:21.503,0:01:24.603 لیکن جسے انسانوں کو آگ دینے کی[br]بہت کڑی ابدی سزا ملی۔ 0:01:24.603,0:01:27.103 ایپیمیتھیس اپنے بھائی کو شدت سے یاد [br]کرتا تھا، 0:01:27.103,0:01:31.773 لیکن پنڈورا کی صورت میں اسے ایک اور[br]جوشیلا ساتھی مل گیا۔ 0:01:31.773,0:01:34.403 پنڈورا زمین پر زندگی ملنے پر[br]بہت پرجوش تھی۔ 0:01:34.403,0:01:37.743 اسے آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا تھا اور[br]وہ بے صبری واقعہ ہو سکتی تھی، 0:01:37.743,0:01:42.073 اس کی علم کی پیاس کو بھڑکا کر اور اپنے [br]اردگرد کو جاننے کی خواہش کو جگا کر۔ 0:01:42.073,0:01:45.568 اکثر اس کے ذہن میں اس صندوق میں چھپے[br]سامان کا خیال ابھرتا تھا۔ 0:01:45.568,0:01:49.784 کہ اس میں ایسا کونسا خزانہ تھا جسے[br]انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی تھی، 0:01:49.784,0:01:51.794 اور یہ اس کی حفاظت میں کیوں دیا گیا تھا؟ 0:01:51.794,0:01:54.284 اس کو کھولنے کو اسکی انگلیوں میں[br]کھجلی ہوتی رہتی تھی۔ 0:01:54.284,0:01:57.234 کبھی کبھار اس کو یقین ہوتا کہ[br]اس میں سے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں 0:01:57.234,0:01:59.334 اس کے اندر سامان کچھ کھڑکھڑا رہا ہو، 0:01:59.334,0:02:00.944 جیسے آزاد ہونے کی کوشش کررہا ہو۔ 0:02:00.944,0:02:04.674 یہ معمہ اسے پاگل کیے جا رہا تھا۔ 0:02:04.674,0:02:08.686 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنڈورا کے ذہن پر[br]صندوق کا خیال مسلط ہوتا چلا گیا۔ 0:02:08.686,0:02:12.446 یوں لگتا تھا کہ اس سے طاقتور کوئی قوت ہے[br]جو اسے اس کے سامان کی طرف کھینچ رہی ہے، 0:02:12.446,0:02:15.516 اور بار بار اس کا نام اونچی آواز میں [br]پکارتی ہے۔ 0:02:15.516,0:02:17.817 پھر ایک دن یہ سب اس کی برداشت سے [br]باہر ہو گیا۔ 0:02:17.817,0:02:19.437 ایپیمیتھیس سے چوری چھپے، 0:02:19.437,0:02:21.697 وہ اس پراسرار صندوق کو گھورتی رہی۔ 0:02:21.697,0:02:23.830 وہ اس میں بس ایک بار جھانکنا چاہتی تھی، 0:02:23.830,0:02:27.091 تاکہ اس کے ذہن کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے[br]خیال سے چھٹکارا مل سکے۔ 0:02:27.091,0:02:30.199 لیکن ڈھکن اٹھنے کی پہلی آواز کے ساتھ ہی [br]صندوق کھل گیا۔ 0:02:30.199,0:02:32.439 عجیب الخلقت بلائیں اور[br]دل دہلا دینے والی آوازیں 0:02:32.439,0:02:36.639 ایک مہیب دھویں کی شکل میں اس کے گرد[br]گھومنے، چیخنے، اور قہقہے لگانے لگیں۔ 0:02:36.639,0:02:37.629 خوفزدہ ہو کر، 0:02:37.629,0:02:42.309 پنڈورا نے ہوا میں بے اختیار پنجے چلائے[br]تاکہ ان کو انکے قید خانے میں واپس بھیج دے۔ 0:02:42.309,0:02:46.222 لیکن وہ بلائیں ایک خوفناک بادل[br]کی شکل اختیار کر گئیں۔ 0:02:46.226,0:02:49.576 جب وہ ہلکورے کھاتے ہوئے رخصت ہوئیں تو [br]پنڈورا کو بدشگونی کا احساس ہوا۔ 0:02:49.576,0:02:52.026 زیوس نے صندوق کو ایسے برتن[br]کے طور پر استعمال کیا تھا 0:02:52.026,0:02:54.976 جس میں اسکی تخلیق کردہ بدی کی طاقتیں[br]اور تکالیف بند تھیں 0:02:54.976,0:02:56.276 جو ایک بار آزادہونے کے بعد، 0:02:56.276,0:02:58.196 دوبارہ قید نہ کی جا سکتی تھیں۔ 0:02:58.196,0:02:59.296 جب پنڈورا رو رہی تھی، 0:02:59.296,0:03:03.266 اسے صندوق میں گونجتی ہوئی[br]ایک آواز سنائی دی۔ 0:03:03.266,0:03:05.954 یہ کسی عفریت کی پراسرار آواز نہیں تھی، 0:03:05.954,0:03:09.264 بلکہ ایک کھنکتی ہوئی آواز تھی جو[br]اس کا دکھ کم کر رہی تھی۔ 0:03:09.264,0:03:11.914 جب اس نے صندوق کا ڈھکنا دوبارہ سے کھول کر[br]اس میں جھانکا، 0:03:11.914,0:03:15.914 تو روشنی کی ایک کرن اس میں سے اٹھی[br]اور پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ گئی۔ 0:03:15.914,0:03:19.624 جب اس نے دیکھا کہ یہ روشنی اس بدی کے پیچھے[br]اڑی جا رہی ہے جو اس نے آزاد کی تھی، 0:03:19.624,0:03:21.934 تو پنڈورا کی تکلیف کچھ کم ہوئی۔ 0:03:21.934,0:03:24.594 وہ جانتی تھی کہ صندوق کا کھولنا اب[br]ناقابل واپسی ہے – 0:03:24.594,0:03:29.464 لیکن تناو کے ساتھ ساتھ اسے امید تھی کہ[br]اس کے اثرات میں دھیرج آ جائے گی۔ 0:03:29.464,0:03:32.574 آج پنڈورا کا صندوق اشارہ کرتا ہے[br]ان خوفناک نتائج کی طرف 0:03:32.574,0:03:35.202 جو نا معلوم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ[br]کے نتیجے میں ہو سکتے ہیں – 0:03:35.202,0:03:38.822 لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنڈورا کی مضطرب خواہش[br]اس دو رُخی کی طرف اشارہ ہے جو 0:03:38.822,0:03:40.752 انسانی جستجو کا دل ہے۔ 0:03:40.752,0:03:43.492 کیا ہم پر فرض ہے کہ ہم ہر نا معلوم شے کا[br]کھوج لگائیں، 0:03:43.492,0:03:45.542 زیادہ کے حصول کیلئے زمین کو کھوجیں – 0:03:45.542,0:03:47.082 یا کچھ رموز ایسے ہوتے ہیں جن کو 0:03:47.082,0:03:49.582 لاینحل چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے؟